سوشل ویلفیئر اور ترقی نسواں

قارئین! آج کا کالم خلاف روایت ہم کسی بھی مذہبی حوالے سے شروع کرنے کی بجائے سادہ سے انداز میں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جب بھی سماجی ترقی اور خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ہماری سوسائٹی واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ اس حوالے سے مختلف دلائل کیساتھ اپنے اپنے موقف کو بیان کرتے ہوئے دو انتہاؤں کو چھونا شروع کر دیتے ہیں ایک طبقہ دوسرے طبقے کو بنیاد پرست کے نام سے پکارنا شروع کر دیتا ہے جبکہ فریق دوم فریق اول کیساتھ بھی کچھ ایسا سلوک کرتا ہے کہ اس کا وجود اسلام کے دائرے سے ہی باہر نکل جاتا ہے حقیقت ان دو انتہاؤں کے درمیان ہی کہیں پر موجود ہے اور اس کے لیے مذہبی ، عقلی اور معاشرتی حوالوں سے توازن پر قائم رہنا ہی مسئلے کا حل ہے ایک وقت تھا کہ جب مغرب بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دو چار تھا لیکن کلیسا کی ایک انتہائی جابرانہ قسم کی مذہبی بادشاہت کے بعد جب انسانی فطرت نے غیر فطری قوانین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو دوسری انتہا نے وہ شکل اختیار کی کہ آج ترقی یافتہ معاشروں کے دانشوروں نے خواتین کی ترقی اور آزادی کے نام پر جو ظلم و ستم صنف نازک اور معاشرتی نظام کے ساتھ ہوا اس پر کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اسی حوالے سے انتہائی لطیف پیرائے میں یہ اشارہ دیا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

قارئین!اس تمہید کے بعد جو گزارشات براہ راست ہم پیش کرنا چاہتے ہیں اس کا تعلق آزاد کشمیر میں وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب اور سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ راجہ عباس خان کی ان کوششوں کیساتھ ہے جو وہ آزاد خطہ میں خواتین کو باشعور اور ترقی یافتہ بنانے کے حوالے سے یکساں مواقع فراہم کر کے مردوں کے شانہ بشانہ لا کر ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں آزاد کشمیر کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کا تعلق صنف نازک سے ہے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ماضی میں بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے لیکر معاشی میدان میں وہ کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا جس کی صلاحیت ان میں موجود تھی اس ترقی معکوس اور مخصوص سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی کے ہر میدان میں خواتین کی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی چلی گئی اور سماجی پہلو اس لحاظ سے انتہائی خوفناک شکل اختیار کر گیا کہ وہ عورت کہ جس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، خاندانی فیصلوں میں اس کا کردار کم سے کم ترین کر دیا گیا اور یہاں تک ہوا کہ اس کی زندگی کے اہم ترین فیصلوں کا اختیار بھی اس سے چھین لیا گیا چاہے اس کی وجہ مردوں کا فوقیت رکھنے والا معاشرہ بنا یا وہ سوچ بنی جسے مذہب کا نام دے کر پورے سماج پر مسلط کیا گیا حالانکہ دین حق کے اصل پیغام کے ساتھ اس سوچ کا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہ تھا لیکن اسے مذہبی احکامات کا سلوگن دے کر معاشرے پر نافذ کر دیا گیا۔

قارئین! گزشتہ دنوں راقم کو اتفاق ہوا کہ ایک ایسی اہم محفل میں شرکت کی کہ جہاں خواتین کی ترقی اور حقوق کے حوالے سے انتہائی علمی اور موثر گفتگو کی گئی سوشل ویلفیئر اینڈ ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میرپور کے زیر انتظام ’’ویمن ایمپاورمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے عنوان سے منعقد کیے جانے والے سیمینار کا انتظام و انصرام اسسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سردار شکیل خان نے کیا۔ سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ راجہ عباس خان کی خصوصی ہدایت پر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے جبکہ دیگر مہمانوں میں ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر سرفراز احمد عباسی ،ڈائریکٹرمیاں محمد بخش لائبریری پروفیسر نرجس افتخار کاظمی ، سابق ڈین سوشل سائنسز آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی پروفیسر سلیمہ عطاء، ڈویژنل ڈائریکٹر کالجز پروفیسر انجم افشاں نقوی، ڈویژنل ڈائریکٹر سکولز محترمہ تنویر کوثر، ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر راجہ اظہر خان ، ڈاکٹر زاہدہ قاسم، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرچوہدری بشیر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ای پی اے سردار محمد ادریس خان ، ڈی پی ایم اے جے کے آر ایس پی سردار محمد یونس خان، ضلع مفتی میرپور حافظ محمد نذیر قادری، ڈاکٹر طاہر محمود صدر این جی اوز کوآرڈینیشن کونسل، چوہدری اظہر محمود جنرل سیکرٹری لوکل سپورٹ آرگنائزیشن، صدر گرلز ایجوکیشن کمیٹی شہنیلہ نذیر، این جی اوز کوآرڈینیشن کونسل کے ضلعی صدر محمد معروف میر ،جنرل سیکرٹری سیدہ اکبر، سابق صدر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز خالد رفیق سمیت یونیورسٹیز ، کالجزاور ضلع میرپور کے مختلف تعلیمی اداروں،سرکاری و غیر سرکاری محکمہ جات اور این جی اوز کے علاوہ میڈیاکی اہم ترین شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سردار شکیل خان نے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ خواتین کی پسماندگی کی وجوہات جاننے کیلئے تمام شعبوں کو مل جل کر کام کرنا ہو گااور خواتین کے متعلق معاشرے میں پائے جانے والے تمام امتیازات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ آج عورت کی اپنے مسائل اور اپنے اوپر ہونے والے مختلف مظالم کا ادراک کرنے سے قاصر ہے زندگی کے تمام شعبوں میں میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر صنفی امتیازات کو ختم کرتے ہوئے یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ سردار شکیل خان نے اس سلسلہ میں وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب اور سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی قیادت میں خواتین کو ترقی دینے کیلئے مختلف ورکشاپس کے انعقاد اور ان کے نتائج کے متعلق بھی بتایا ۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر حبیب الرحمان وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنے خطاب میں سوشل ویلفیئر اینڈ ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے میرپور میں انتہائی علمی قسم کے سیمینار کے انعقاد کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ خواتین کی ترقی اور سوشل ایشوز کے حوالہ سے شعور اجاگر کرنے کیلئے میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی محکمہ سماجی بہبود و ترقی نسواں کے ساتھ مل کر کام کرئیگا ۔ یونیورسٹی کا آڈیٹوریم آج سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کیلئے کھلا ہے اور مختلف پراجیکٹس بنا کر اشتراک کے ساتھ کام کیا جائے گا۔

قارئین! سوشل ویلفیئر اور ترقی نسواں کے حوالہ سے ماضی میں آزاد کشمیر کی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں مختلف کام کیے ہیں ۔ اس شعبہ میں مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والی سابق وزیر محترمہ ناہید طارق نے بھی کام کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو تحفظ دینے کیلئے انہیں معاشی سرگرمیوں میں عزت و آبرو کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔ بد قسمتی سے ہم آج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں کہ جہاں بیمار ذہنیت اور غیر صحت مند رویے صنف نازک سمیت معاشرے کے تمام کمزور طبقات کیلئے وبال جان بن چکے ہیں اسلام کے زریں اصولوں کو اپنا کر ان تمام برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان طبقے کو شعور یافتہ بنانے کیلئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سیمینارز کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھے اور میڈیا کو اپنا شریک کار بنا کر وسیع پیمانے پر آگاہی مہم کو پھیلا دیا جائے ۔ بلاشبہ وزیر سماجی بہبود و ترقی نسواں محترمہ فرزانہ یعقوب ، سیکرٹری سوشل ویلفیئر راجہ عباس خان اور ضلع میرپور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سردار شکیل خان کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ یہاں بقول غالب ہم کہتے چلیں
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر ِلخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

قارئین! ہم انتہائی نیک نیتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ صنف نازک کو ترقی دینے کا مطلب ہر گز یورپ اور دیگر نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں کی پیروی کرتے ہوئے منفی رویوں کو اپنانا ہر گز نہیں ہے کہ آزاد ی اور ترقی کے معنی مادرپدر آزاد معاشرت کی طرف چلے جائیں اور نہ ہی مذہب یا مشرقی اقدار کا نام لیکر عورت کو ایک مظلوم ہستی بنا کر پیش کرنے سے ہم اپنی عزت میں کوئی اضافہ کر سکتے ہیں ۔ یہ ترقی جو سماجی بہبود کا شعبہ چاہتا ہے اس کا تعلق ان دو انتہاؤں کے درمیان موجود ہے جس میں عورت انتہائی عزت اور احترام کے ساتھ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کا درست استعمال کرتے ہوئے ملکی اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ۔ اﷲ کرے کہ ہم توازن کی اس منزل کو حاصل کر سکیں آمین۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
بیوی نے اخبار پڑھتے ہوئے سر اٹھایا اور باآواز بلند شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
’’اخبار میں لکھا ہے کہ افریقہ کے ایک علاقے میں پچاس ڈالر میں بیوی خریدی جا سکتی ہے کتنا بڑا ظلم ہے ‘‘
شوہر نے افسوس کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے کہا
’’ہاں بیگم ناجائز منافع خوری کی وباء ہر جگہ پھیل چکی ہے ۔‘‘
قارئین! بدقسمتی سے پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں رسوم ورواج اور مختلف جاہلانہ باتوں کی پیروی کرتے ہوئے عورت کو بھی وہ حقوق نہیں دئیے جارہے جو اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ واضح انداز میں دئیے تھے ۔ یقینا اصلاح کرنا وقت کی آواز ہے ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336804 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More