سیکورٹی

کیا اسلامی ممالک کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت میں سیکورٹی نام کی کوئی چیز ہے یا سیکورٹی کا صرف نام باقی ہے؟ ذمے داران ملک کے اہم مقامات کی بھی حفاظت کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں یا پھر کاہلی و نااہلی کا شکار؟ مستحکم جمہوری حکومت میں ایسی ایسی کارروائیاں باآسانی پایہ تکمیل تک پہنچ رہی ہیں، جو کسی مکمل جنگ زدہ ملک میں ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا ٹارگٹ یوں آسانی سے نشانہ بنایا جارہا ہے، جیسے کوئی معمولی سا کام ہو۔ ان حالات میں ملک پر خوف و وحشت کے منڈلاتے بادل اب مزید گہرے ہو رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ دہشت صرف نہتے اور پرامن شہریوں کا ہی مقدر ہے، مسلح لوگ ہر قسم کی دہشت سے بے نیاز و آزاد۔ کراچی ائیرپورٹ پر لگی آگ ابھی بجھی بھی نہ تھی کہ ائیرپورٹ سے ملحقہ ASF کے ہیڈ کواٹر پر بھی بلا خوف و خطر حملہ کیا گیا۔ اگرچہ کچھ نقصان نہ ہوا، لیکن دیدہ دلیری تو دیکھیے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سندھ حکومت و وفاق کئی ماہ سے تواتر کے ساتھ کراچی میں کامیاب آپریشن کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عرصہ دراز سے رینجرز اورپولیس کے علاوہ خفیہ ادارے بھی ریڈالرٹ بتائے جاتے ہیں۔ ہر قسم کی کارروائی سے نمٹنے کے بلند و بانگ دعوے بھی بڑے زور و شور سے کیے جارہے ہیں۔ منہ توڑ جواب دینے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں، لیکن کراچی ایئرپورٹ پر خوفناک اور اعصاب شکن حملے نے ایک طرف تو حکومت کی اہلیت و قابلیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، جبکہ دوسری جانب شہر اور حساس مقامات کی سیکورٹی کا بھی بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے۔ سب ڈینگیں ہوا میں تحلیل ہوگئیں اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اب تو سب کو وفاقی و صوبائی حکومت کے دعوﺅں کی حقیقت کا ادارک ہو ہی جانا چاہیے۔

حملہ آور نہایت اطمینان سے ائیر پورٹ میں داخل ہوئے، تہی دست نہیں، بلکہ راکٹ لانچروں، خودکش جیکٹوں اور خطرناک اسلحے سمیت، ائیرپورٹ کے حساس ترین آلات بھی انھیں پکڑ نہ سکے اور اگر اسلحہ پہلے ہی پہنچا دیا گیا تھا تو وہاں متعین سیکورٹی کی نظر سے بچا کیوں؟حملہ آوروں نے بھرپور طاقت سے کارروائی کر کے خوب تباہی مچائی، اربوں روپے کا نقصان تو رہا ایک طرف، تیس کے لگ بھگ لاشے اور اس سے کچھ کم زخمی، شہر پر خوف و ہراس کی تنی چادر اور ملک کا سب سے بڑا ائیر پورٹ آگ میں لپٹا چھوڑا اور دنیا بھر میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا کوئی بدل ہی نہیں۔ اگرچہ حملہ آور خود بھی مارے گئے، لیکن یہ ان کا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ وہ تو آئے ہی مرنے کے لیے تھے۔ پھر ان کی موت پر شاداں و فرحاں ہونے کا کیا مطلب؟ اگر بہت بڑے نقصان کے بعد وہ مارے بھی گئے تو یہ کوئی بڑا کارنامہ تو نہیں۔ حیرانگی ہے کہ ایک عام شہری تو شہر میں بھی آزادی سے نہ گھوم سکے، اس کے لیے لاکھوں پابندیاں،لاتعداد ناکے، سیکورٹی کے نام پر شہریوں کے حقوق تک سلب کر لیے جاتے ہیں، جبکہ حملہ آور بلا دھڑک جاگھسے۔ حالانکہ ائیرپورٹ جیسے اہم مقام پر انتہائی سخت سیکورٹی تعینات ہونی چاہیے، لیکن حکومتی نااہلی کا حال یہ کہ شنید ہے یہاں حفاظتی اقدامات کی نگرانی کے انچارج چیف سیکورٹی افسر سول ایوی ایشن اتھارٹی کراچی کا عہدہ ہی گزشتہ 6ماہ سے خالی تھا۔ سیکورٹی کے حوالے سے اس قسم کے سقم ہوں تو پھر وقتاً فوقتاً ”جناح ائیر پورٹ“ جیسے سانحات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا حملہ تو نہیں تھا، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی آفتیں آچکی ہیں۔ اکتوبر 2009 میں راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے صدر دفتر پر بھرپور انداز میں ہلا بولا گیا۔ مئی 2011کو کراچی میں پاکستانی بحریہ کی مہران بیس پر تباہ کن حملہ ہوچکا۔ اگست 2012 ضلع اٹک میں پاک فضائیہ کے کامرہ ایئر بیس کو منظم کارروائی کا نشانہ بنایا جا چکا اور دسمبر 2012 میں پشاور میں باچا خان ہوائی اڈہ بھی انہی حالات سے دوچار ہوچکا ہے۔ ان تمام حملوں میں حملہ آوروں نے جدیداسلحے سے لیس ہوکر انتہائی منظم انداز میں حملے کیے، جس کے نتیجے میں ملک کی ساکھ اور قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ بے پناہ مالی نقصان بھی ہوا۔ جب یہ سب کچھ پہلے ہوچکا، اس کے بعد بھی سخت حفاظتی انتظامات کیوں نہ کیے؟

یہ تو دہشتگردوں کی ”عنایت“ کہ روز روز اور ہر جگہ ایسے حملے نہیں کرتے، ورنہ ان کے سامنے کونسی رکاوٹ ہے۔ جب ملک کا سب سے بڑا ائیرپورٹ محفوظ نہیں تو اس سے کم اہم مقامات پر حملے کرنا ان کے لیے کیا مشکل ہے۔ اب تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کا کوئی مقام بھی محفوظ نہیں ہے،جبکہ ہمارے وزراءہر حملے کے بعد میٹنگز میں دہشتگردوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے دعوے کرتے ہیں، حسبِ سابق کچھ ہنگامی اجلاس ہوتے ہیں۔ کچھ دن تک میڈیا میں باتیں ہوتی ہیں۔ ذمہ داروں کے دعوے نشر ہوتے ہیں اور پھر حسبِ روایت معاملے پرخاموشی کی دبیز چادر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ عناصر کسی دوسری جگہ ایسی خطرناک کارروائی کرچکے ہوتے ہیں، لیکن یہاں نہ مستقبل کا کوئی پلان اور نہ ہی ماضی پر کچھ پشیمانی۔ نہ کوئی استعفا دیتا ہے اور نہ کسی سے استعفا لیا جاتا ہے۔ اپنی ذمہ داری سمجھنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ جیسے کراچی ائیرپورٹ حملے کے معاملے میں سندھ حکومت وفاق کو قصور وار ٹھہرارہی ہے، جبکہ وفاق سندھ حکومت کی ذمہ داری بتارہا ہے۔ حالانکہ قصوروار سب ہی ہیں۔ذمہ دار سب ہیں۔ دوسرے ممالک میں ایسے کسی بھی واقعہ کے بعد ذمہ دار ران خود ہی شرمندگی میں استعفا پیش کردیتے ہیں، لیکن یہاںگنگا الٹی بہتی ہے، استعفا تو رہا ایک طرف، اُس وقت تک عملی طور پر بھی کچھ نہیں کیاجاتا، جب تک کوئی اور اس نوعیت کا سانحہ رونما نہیں ہوجاتا، شاید ہم وہ قوم ہیں جو پیاس لگنے پر ہی کنواں کھودتی ہے۔

کم از کم اگر گزشتہ صرف ایک سال کے دوران ہی تمام صوبائی حکومتیں اور وفاق مل جل کر مستقل بنیادوں پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت انتظامات کرتے اور وسائل کا رخ دہشت گردی کی روک تھام، عوام کے جان و مال ، عزت و آبرو اور قومی تنصیبات و اثاثوںکی حفاظت کی طرف موڑا جاتا، آئی پی پیز کو اربوں روپے دان کرنے کی بجائے وہی رقم کسی نئی سریع الحرکت فورس کے قیام، تربیت، جدید اسلحے کی فراہمی کے لیے مختص کی جاتی اور حکمران صرف چند بڑے شہروں میں سڑکوں کے بناﺅ سنگھار، بلٹ ٹرین کے خیالی منصوبوں اور سیاسی داﺅ پیچ پر قومی وسائل ضائع کرنے کی بجائے دہشت گردی پر خصوصی توجہ دیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، مگر حکمرانوں کے سر پر نام و نمود اور اپنی سیاست چمکانے کا بھوت سوار ہے۔ جہاں قوم کی حفاظت سے زیادہ اپنی حکومت کی حفاظت عزیز ہو اور حکمرانوں کو قوم کی جان و مال کی بجائے اپنے نام و نمود کی زیادہ فکر ہو تو وہاں یہی کچھ ہوتا ہے، جو کچھ ہو آیا۔ ملک کے تمام مقامات کی سیکورٹی فول پروف بنانا، تخریب کاری و دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں قیام امن پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے، جس کوصرف اور صرف اسی صورت عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے، جب حکمران اپنے نام و نمود کی بجائے ملک وقوم کے مفاد کو ترجیح دینے کی حکمت عملی بروئے کار لائیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.