وزیرستان آپریشن کے بعد کراچی مزید حساس ہوگیا

 "آپریشن ضرب عضب "کے بعد ملک بھر سمیت خاص طور پر کراچی میں ایک خاص سراسمیگی دکھائی دے رہی ہے ۔ بے یقینی اور خوف کی ایک ایسی فضا ہے جس میں کراچی کی عوام کو یقین ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا سب سے سخت ری ایکشن کراچی میں" طالبان "کی جانب سے ہوگا اور کراچی چونکہ دو کروڑ سے زائد آبادی والا مختلف النسل اور بغیر پلاننگ آباد ہونے والے شہر ہے جہاں کی پولیس سیاست زدہ اور حکومت نااہل معتصب ہے اس لئے ہمیشہ سے کراچی جرائم پیشہ افراد سے لیکر ملکی اور غیر ملکی مطلوب شخصیات کیلئے محفوظ کمین گاہ کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔کراچی کی بد قسمتی بھی یہی رہی ہے کہ جب سے لسانی بنیادوں پر کراچی کی وفاقی حیثیت ختم کرکے دارلخلافے کو اسلام آباد منتقل کیا گیا ، لسانیت ، قوم پرستی ، گروہی اور فرقہ وارانہ کشیدگیوں نے کراچی کو منقسم کرنا شروع کردیا اور غیر محسوس طور پر مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے افراد نے اسی بستیوں میں خانہ آبادیاں کیں جو ان کے قبیلے ، ذات ، فرقے ، نسل یا زبان سے تعلق رکھتی تھیں۔

گو کہ" آپریشن ضرب غضب"کے بعد شمالی وزیر ستان سے خاندانوں کی نقل مکانی تیزی شروع ہوچکی ہے اور ابتدائی دنوں میں تین لاکھ افراد کی نقل مکانی کرچکے ہیں جب کہ کرفیو میں پابندی کی نرمی ہوتے ہی شمالی وزیرستان کے لاکھوں عوام تیزی سے ، افغانستان یا پاکستان کے مختلف شہروں وعلاقوں کے ساتھ عارضی طور پر قائم آئی ڈی پیز کیمپوں میں منتقل ہوجائیں گے ، گو کہ آئی ایس پی آر کے مطابق ابھی مقامی افراد کے محفوظ انخلاہونے تک آبادیوں میں آپریشن شروع نہیں کیا گیا ہے۔گو کہ بتا یا یہی جا رہا ہے کہ " آپریشن ضرب غضب"سے ایک ہفتہ قبل ہی اہم مطلوب شخصیات افغانستان منتقل ہوچکی تھیں اور اب ممکنہ جنگ کے بعد انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوج مکمل طور پر داخل ہوجائے تو گوریلا جنگ کا ایک سلسلہ شروع کردیا نیز پاکستان کے اہم شہروں کو نشانہ بنانے کیلئے ان کے نیٹ ورک پہلے ہی اپنی جڑیں مختلف شہروں میں مضبوط کرچکے ہیں۔تمام صوبائی حکومتوں نے پیش بندی کے طور پر حساس شہروں کی انتہائی حساس مقامات اور تنصیبات پر فوجی کی تعیناتی کا عمل شروع کردیا ہے جبکہ خاص طور پر کراچی میں جس کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا شروع سے یہی کہتا آرہا ہے کہ کراچی کے ایک چوتھائی حصے پر شدت پسند تنظیموں کا مضبوط نیٹ ورک اور قبضہ ہے،مزید حساس ہوگیا ہے۔تمام حساس اور اہم مقامات و تنصیبات کو تین حصاروں میں تقسیم کیا جارہا ہے جو پولیس ، رینجرز اور فوج کا ہوگا ۔لیکن کراچی میں اصل دراومدار حساس اداروں سمیت مقامی پولیس ، رینجرز کی انٹیلی جنس رپورٹس اور مقامی مخبروں کے ساتھ مقامی آبادی کی جانب سے تعاون پر ہوگا۔

تاہم ابھی تک کراچی کے وہ علاقے جہاں بغیر کسی جانچ پڑتال کے آبادی کاریاں حکومتی اداروں کے اہلکاروں کی رشوت ستانی کے سبب ممکن ہوئیں ، ان علاقوں کی بابت مربوط پلاننگ کا نظر نہ آنا ، اہم معاملہ ہے ۔بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق مجموعی طور پر کراچی کے39علاقے انتہائی حساس قرار دئیے جاتے ہیں ، جہاں عسکریت پسند عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان علاقوں میں قانون کی عمل داری بھی بہت کم ہے ۔ رینجرز اور پولیس پر حملے اور بم دہماکوں کے بعد آزادنہ نقل و حرکت ان اداروں کیلئے آسان نہیں ہے۔کراچی کا سب سے اہم اور خطرناک علاقہ کٹی پہاڑی سے منسلک کواری کالونی ، پیر آباد ، پٹھان کالونی ،حسین ڈی سلوا، پہاڑ گنج ، دیر کالونی ، عثمان غنی کالونی ، عمر فاروق کالونی ، اسلامیہ کالونی ، پیر آباد،مسلم آبادپختون آباد ، سلطان آباد منگھوپیر اور ایم پی آرکالونی ہیں۔ ان علاقوں سے متصل بنارس ، پٹھان کالونی ، فرئینٹئر کالونی ، بخاری کالونی ، شاہی آباد ،میٹرول ، ضیا کالونی،فرید کالونی ، طوری بنگش کالونی ، مجیب آباد گوٹھ، اجتماع گاہ کالونی ، خیر آباد ، رئیس امروہی کالونی ،اورنگی اتحاد ٹاؤن ، محمد خان کالونی ، سوات کالونی، دریا آباد ، لیاری ، مرزا آدم خان پنکھا ہوٹل ، شیر شاہ کالونی، بکرا پیڑی ،میراں ناکہ،چاکیوڑہ ،لی مارکیٹ ، افشانی گلی، دبئی چوک ،سلطان آباد مولوی تمیز الدین روڈ، ماڑی پور ، مچھر کالونی ، کیماڑی ،مسان روڈ،ریلوے کالونی،لائنز ایریا، ابی سینا لائن،ٹنکی والی علاقہ، محمود آباد،چنیسر گوٹھ،کورنگی کراسنگ،قیوم آباد،عوامی کالونی ، بلا ل کالونی، لانڈھی ، بنگالی پاڑہ،آفتاب شیر پاؤ کالونی، بھینس کالونی،گلشن بونیر، گلشن حدید ،ضلع ایسٹ میں گلشن اقبال میں بنگالی پاڑہ ، 13/Dپرانی سبزی منڈی ، پی آئی بی کالونی،شیر خان کالونی،ضیا کالونی،موسمیات،حسین گوٹھ،گلستان جوہر ، پہلوان گوٹھ، جوہر چورنگی ،متعدد فلیٹس، شاہ فیصل کالونی،پٹھان کالونی،ملیر ٹنکی،سعود آباد،بکر منڈی ، میمن گوٹھ،اصفہانی کالونی، اسکاؤٹ کالونی ، قائد اعظم کالونی، سہراب گوٹھ ،جنت گل کالونی،افغان کیمپ ، گلشن معمار ایف بی ایریا،دستگیر،نیو کراچی ، گودھرا کیمپ،اﷲ والی ، سر سید ٹاؤن ، اجمیر نگری کالونی،سرجانی ٹاؤن،خدا کی بستی ، پٹیل پارہ ، رامسوامی ، گولی مار ، رضویہ کالونی ، جنجال پورہ ،سندھی ہوٹل ، غریب نواز کالونی لیاقت آبادسمیت متعدد ایسے علاقے ہیں جہاں سیکورٹی کے انتظامات قطعی طور پر نہیں کئے گئے ہیں۔

کراچی میں وزیر ستان سے تعلق رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ،کراچی کی ترقی کے سلسلے میں گذشتہ کئی سالوں سے آباد ہے ، کراچی کے تمام بڑے ترقیاتی پراجکیٹ میں استعمال ہونے والی تمام بھاری مشنریوں کی ملکیت ان وزیر ، محسود دونوں قبائل کے پاس ہوتے رہے ہیں، شہری حکومت کے پاس ، ڈمپر ، لوڈر ، کرینیں سمیت سڑکوں کی تعمیر کیلئے کرش ، ریتی ، سمیت تمام تر بھاری ساز و سامان ان دونوں قبائل کے سرمایہ دار محنت کشوں نے فراہم کئے اور کراچی کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ مہمند ، دیر سے تعلق رکھنے والی عوام نے افرادی قوت مہیا کی اور جہاں بھاری مشنری استعمال نہیں ہوپاتی وہاں یہ افرادی قوت سخت سے سخت ، اور تنگ سے تنگ جگہ پر دشوار گذار علاقوں میں محنت پسینے سے شہر کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ، آفریدی قبائل ، سوات ، ملاکنڈ دویژن اور تور غرضلع سے تعلق رکھنے والوں نے کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرکے کراچی کیلئے پاکستان کی بہترین ، سہل اور فوری ٹرانسپورٹ مہیا کی اور بڑی بسوں سے لیکر رکشہ ، ٹیکسی ، سوزوکی تک کراچی کے عوام کی خدمت کیلئے صرف کردی۔پشاور ، بنوں، کوہاٹ کے افراد نے کراچی کی بڑی مارکیٹوں کو کامیاب بنانے کیلئے کپڑے ، قالین کے کاروبار سے کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری اور کہا جاتا تھا کہ کسی بھی مارکیٹ کی کامیابی کا دارومدار پٹھانوں کی دوکانوں پر ہے ، کہ وہ جس مارکیٹ میں دوکان لیں گے وہ سو فیصد کامیاب ہوگی ، طارق روڈ ، جامع کلاتھ ، بولٹن مارکیٹ ،صدر ، ناظم آباد ،پاپوش نگر ، علی گڑھ جیسے مارکٹیں اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اسی طرح کراچی کی جان ومال کی حفاظت کیلئے پٹھانوں کو خاص طور پر گھروں ، فلیٹس اور مارکیٹوں کی چوکیداری کیلئے رکھا جاتا تھا جو اس پورے علاقے کی چوکیدار ایک سیٹی اور ایک ڈنڈے کی مدد سے کرتا تھا ، کراچی کی رات کی رونقوں میں کوئٹہ ، پشین اور پشاور سے تعلق رکھنے والوں نے کروڑوں روپوں کی سرمایہ داری کرکے کراچی کے کونے کونے میں چائے کے ہوٹل کھولے جہاں صبح تک کراچی کے منچلے نوجوان ، بڑے بوڑھے بیٹھ کر دن بھر کی تھکان اتارتے تھے اب کراچی میں ان کیلئے کچھ نہیں باقی بچا، 80فیصد تمام کاروبار ختم ہوگیا یا زبردستی ختم کرادیا گیا۔اہم بات یہی ہے کہ جیسے جیسے لسانی سیاست غالب آتی گئی سب کچھ سمیٹتا چلا گیا ، نقصانات میں جانی و مالی کی تفصیلات میں جانے کیلئے صفحات نہیں بلکہ سمندر جتنی روشنائی اور آسمان جتنی طویل صفحات درکار ہونگے ، بلاشبہ اربوں روپے ان پختونوں نے لگائے ، تو کھربوں کمائے بھی ، لیکن ایک انسان کی جان کی قیمت کیا ہوگی ، کہ اسے قیمت دیکر لوٹا دیا جائے ، اس کا کوئی مول نہیں دے سکتا ، آپریشن راہ نجات اور راہ راست کے نتیجے میں آئی ڈی پیز کے جانے کے بعد مقامی پختونوں کی اسکی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اب وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مقامی محسود اور وزیر قبائل کے عوام نے اپنے علاقوں میں رشتے داروں کیلئے اپنے مکانات خالی کرانا شروع کردئیے ہیں، کرائیے داروں کو نوٹس اور اپنے گھروں میں پارٹیشن بنا دئیے ہیں، اب بھی کوئی وزیر ستان کا مہاجر ، بوسیدہ کیمپوں میں نہیں رہے گا ،۔ سندھ حکومت ان مجبور اور حالات کے ستائے ہوئے عوام کو اپنے صوبے میں آنے سے بھرپور کوشش کر ے گی ، بلاشبہ ایک تہائی کراچی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عملداری نہیں ، لیکن یہ سب " آپریشن ضرب غضب" کی وجہ سے تو نہیں ہوا ہے نا اس میں بھی تو وقت لگا ہوگا ، کسی گروپ نے اجارہ داری کی ہوگی ،مفادات حاصل کئے ہونگے ،رشوتیں کھائیں ہونگی۔کراچی میں مکمل قانون کی رٹ کیلئے پہلے اداروں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے تو بہتر ہوگا۔جب تک کراچی میں کرپٹ مافیا ، موجود ہے جو چند سکوں کی خاطر اپنی قوم کو فروخت کرنے میں تامل نہیں برتتی اس وقت تک کراچی کا امن دراصل پاکستان کی بقا کا اصل محاذ ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666997 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.