پولیو

مؤثرقطرے پلانے کی مہم ۔بھارت نے پولیو پر فتح کا اعلان کر دیا ۔بھارت کیلئے ایک سنگِ میل اور 1.2ارب ہندوستانی باشندوں کیلئے ایک اہم قدم ہے ، یہ اعلان نئی دہلی میں حکومت نے ملک میں پولیو کے خاتمے پر کیا ۔وزارتِ صحت نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں سے بڑے پیمانے پر حفاظتی قطرے پلانے کی بدولت اس خطر ناک وائرس کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ، توقع ہے کہ اب بھارت میں اعداد وشمار کا جائزہ لینے کے بعد عالمی ادارہِ صحت WHOپولیو سے آزاد ریاست قرار دے دے گا، انہوں نے بتایا کہ تین سالوں کے درمیان کوئی نیا کیس سامنے نہ آنے پر تمام بھارتیوں کیلئے فخر کا دن ہے ۔

گزشتہ دس سالوں کے دوران 2.3میلین کارکنوں نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں حصہ لیا اور ہر سال تقریباًایک سو ستر میلین پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو قطرے پلائے گئے۔

کچھ عرصہ قبل بھارت کو پولیو کے خاتمے کے حصول کیلئے سب سے مشکل ملک شمار کیا گیا تھا یہ بات
Global Polio Eradicationکے نمائندے نے بتائی ۔پولیو کا آخری کیس تیرہ جنوری دو ہزار گیا رہ میں ویسٹ بنگال کی دو سالہ بچی میں پایا گیا ۔

یونیسیف کے مطابق انیس سو اٹھاسی کے دوران دنیا بھر میں پولیو انفیکشن کی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار رجسٹرڈ کی گئی جبکہ دوہزار تیرہ میں محدود ہو کر تین سو بہتر رہ گئی ۔

افغانستان ، پاکستان ، نائجیریا ایشیا اور افریقا کے کچھ ممالک میں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے ۔
پولیو ریڑھ کی ہڈی اور پٹھوں کے عصبی خلیات کو متاثر کرتا ہے زیادہ تر بیمار بچوں پر اس کا اٹیک ہوتا ہے جس سے فالج کا خطرہ یا اموات بھی واقع ہو سکتی ہیں ۔

یہ تھی صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او ، یونیسیف اور جی پی ای کی حالیہ رپورٹ جس میں انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ چند ماہ بعد بھارت پولیوسے چھٹکارا پالے گا اب ایک نظر روشن خیال پاکستان پر۔
ڈبلیو ایچ او کی اوفیشل رپورٹ کے مطابق مئی دوہزار چودہ تک پچہتر پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں ۔

نہ جانے کتنے لوگ اس مہلک بیماری سے بے خبر اپنے معصوم بچوں کو عطائی ڈوکٹرز کے پاس لے جاتے ہیں اور وہ اپنی جیبیں بھرنے کیلئے کوئی بھی انجیکشن ٹھوک دیتے ہیں بچے کو ری ایکشن ہو جاتا ہے اور وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بچے کو اصل بیماری کیا تھی ڈوکٹرز کی بجائے اس کا کمپاؤنڈر انجیکشن دے گا تو اس کا ذمہ دار نہ ڈوکٹر نہ اس کا کمپاؤنڈر نہ وزارتِ صحت ، سب رو دھو کر یہ ہی کہتے ہیں اﷲ کی مرضی تھی ۔سوال یہ ہے کہ ملک میں کوئی وزارتِ صحت ہے بھی کہ نہیں؟ اور اگر ہے تو کن لوگوں کے لئے ہے اور کیا کام کرتی ہے؟

پاکستان کے کچھ لوگ جہالت میں گھرے ہوئے ہیں جنہیں شاید راہ راست پر لانا ممکن نہیں کیونکہ جب انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو اسے دن اور رات ، چاند سورج اور اچھے برے کا فرق نظر نہیں آتا ، ملک میں یہ بھی تو جہالت کی انتہا ہے کہ بچوں کی زندگی کیلئے حکومت نہیں کوئی باہر والا جد وجہد کر رہا ہے تو اسے کرنے دیجئے ، پولیو سے بچاؤ کے چند قطرے پی لینے سے وہ بچہ نہ تو عورت کا روپ دھارے گا ،نہ کافر بنے گا اور نہ ہی ملک کا دشمن ۔ بچہ زندہ رہے گا تو کچھ بنے گا؟

ویسے بھی ایک دوسرے نظریئے سے دیکھا اور سوچا جائے تو جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں وہ کتنے محب وطن یا عقیدے کے کتنے مسلمان ہیں ؟

منشیات اور ہتھیاروں کا دھندہ کرنے والے مسلمان کے نام پر سیاہ دھبا ہیں۔وہ نہ تو انسان ہیں ، نہ مسلمان اور نہ ہی محب وطن پاکستانی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 229312 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.