فوجی آپریشن ....چھپے ہوئے دشمن سے جنگ کے تقاضے

دہشت گردوں کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی کاروائیوں پر آخر کب تک صبر کیا جاسکتا ہے ملک بھر میں ہونے والے نقصانات کے علاوہ فوجی جوانوں کی مسلسل اور بے تحاشا شہادتوں کا نتیجہ آپریشن کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔اب جبکہ شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن شروع ہوچکا ہے اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں پر زمینی اور فضائی حملے پوری شدت سے جاری ہیں تو جہاں اس کی کامیابی کے لیے ہر پاکستانی کو اپنے اردگرد کے ماحول اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی وہاں پولیس رینجر اور سول ڈیفنس کو بھی متحرک کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔یہ بات اب کسی سے بھی مخفی نہیں رہی کہ دہشت گرد نے ملک بھر بطور خاص کچی آبادیوں ٗ افغان بستیوں اوردینی مدرسوں میں اپنے نام نہاد ہمنواؤں کی اشیر باد سے نہ صرف ٹھکانے بنا رکھے ہیں بلکہ فوج سمیت دیگر تمام سیکورٹی ایجنیسوں میں اپنے حمایت یافتہ لوگوں کا ایک جال کامیابی سے بچھا رکھا ہے ۔دہشت گردی کی کوئی واردات اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک اہم ترین عہدوں پر فائز اندرونی لوگ دہشت گردوں کو مفید معلومات فراہم نہ کررہے ہوں ۔فتح جنگ میں فوج کے دو کرنلز پر خود کش حملے کا واقعہ ہو یا کراچی انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں دہشت گردی کا سانحہ ۔ دونوں سانحات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کو سنئیر فوجی افسروں کی نقل و حرکت اور اہم ترین دفاعی تنصیبات کے کمزورپہلوؤں کا پہلے سے علم تھابلکہ ایک رپورٹ کے مطابق کاروائی سے پہلے دہشت گردوں نے اپنے حمایت یافتہ افراد کے ذریعے جدید ترین اسلحہ ائیر پورٹ کے اندر پہنچا دیا تھا ۔اس لمحے جہاں ہمیں فوج ٗ پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں میں کام کرنے والوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو نہایت باریک بینی سے چیک کرنا ہوگا وہاں ہر پاکستانی کو ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ملک وقوم کی سلامتی اور پاک فوج کے لیے پہلے سے بڑھ کر اپنے فرائض کو انجام دینا ہوگا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں سے راکٹ لانچر سمیت اگر پشاور پہنچ سکتے ہیں پھر اسلام آباد ٗ لاہور اور کراچی تک کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی حاصل کرسکتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے یقینا محکمہ پولیس کے وہ بزدل اہلکار اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں جو اپنی جانیں بچانے کی خاطر دہشت گردوں کانام سن کر ہی موقع واردات سے بھاگ جانے میں عافیت تصور کرتے ہیں ۔شمالی وزیر ستان کا فوجی آپریشن اسی صورت کامیاب ہوگا جب ہر بڑے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں میں فوج کے نڈر افسر اور مستعد جوان تعینات کیے جائیں ۔اگر دہشت گرد پشاور ٗ اسلام آباد ٗ راولپنڈی ٗ لاہور ٗ کراچی اور کوئٹہ میں اپنا نٹ ورک کامیابی سے قائم کرچکے ہیں تو اس ناکامی کا سہرا پولیس کے سر بندھتا ہے اگرترقی یافتہ ممالک کی طرح پولیس نڈر اور قانون شکن عناصر کے لیے لوھے کا چنا ثابت ہوتی تو دہشت گرد وں کو کسی ایک علاقے میں محدود کرکے ختم کیا جاسکتا تھا۔اب جبکہ نہ چاہتے ہوئے بھی شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن شروع ہوچکا ہے تو ہر سیاسی جماعت اور ان کے قائدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنی معمول کی سیاسی سرگرمیوں کو چھوڑ کر فوج کے شانہ بشانہ لڑنے اور شہروں میں نظم و نسق سنبھالنے پر خود کو آمادہ کریں۔افسوس تو اس بات کاہے کہ اس وقت جبکہ فوج کو پوری قوم کی سپورٹ کی سخت ضرورت ہے اور شہروں میں دہشت گردوں کے نٹ ورک کی تلاش اور سرکوبی کے لیے بہادر اور نڈر سیاسی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ شیخ رشید جس کا پاکستانی سیاست میں کردار سٹیج اداکار اور مسخرے سے زیادہ نہیں ہے ان کواپنی قومی ذمہ داریوں کاہرگز احساس نہیں ہے وہ بھی ایک اینٹ کی مسجد بنا کر ٹرین مارچ کرنے کے اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو دھمکا بھی رہے ہیں ۔شیخ رشید کے غبارے میں ہوا بھرنے والے بے ضمیر چودھری اور خود ساختہ انقلابی لیڈر اور کنٹینر بابا طاہر القادری بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔اگر شیخ رشید ٗ چودھری برادران اور طاہر القادری کو حالات کی نزاکت کا احساس نہیں ہے تو کم ازکم میڈیا کو ہی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے سے پرہیز کرناچاہیئے ۔کسی بھی سیاسی جماعت کو کوریج دینے سے پہلے اس کی سیاسی حیثیت کااندازہ تولگالیناچاہیئے تھالیکن تمام ٹی وی چینلوں پر مسلسل شیخ رشید کی بھڑکیں ٗ طاہر القادری کی مخبوط الحواس گفتگو اور الطاف حسین کی زہر افشانی کو بار بار نشر کرنے سے خود ہی اجتناب برتنا چاہیئے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے بریکنگ نیوز کے چکر میں وقت نیوز کو چھوڑ کر تمام ٹی وی چینل تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔شمالی وزیر ستا ن میں چھپے ہوئے دشمن سے جنگ کرنا آسان نہیں ہے حکومت اور فوج کو اپنی تمام تر توجہ فوجی آپریشن پر مرکوز کرنے کے لیے نہ صرف تمام پرائیویٹ ٹی وی چینلوں پر کچھ عرصہ کے لیے پابندی لگا دینی چاہیئے بلکہ ملک میں ہر قسم کے جلسے جلسوں اور دھرنوں کو ختم کردینا چاہیئے شیخ رشید جیسا سر پھیرا انسان اگر پھر بھی ٹرین مارچ کرنے اور طاہر القادری جیسا منحوس انقلابی ٗ اپنا خود ساختہ انقلاب لانے پر بضد ہو اور عمران خان جیسا شخص پھر سونامی کا بھونڈا نعرہ لگانے سے باز نہ آئے تو ان تمام تو کم ازکم چھ مہینوں کے لیے میانوالی جیل میں بند کرکے مہذب سیاست کرنے کا طریقہ سکھائے جائیں ۔تمام فائیوسٹار ہوٹلوں اور بنکوں کو سولر انرجی پر منتقل کرکے عوام کوسخت ترین گرمی میں ریلیف دینا بہت ضروری ہے وگرنہ عوام کا غم وغصہ حقیقت کا روپ بھی دھارسکتا ہے ۔جنگی حالات اور ایمرجنسی میں سول ڈیفنس کا کردار بھی بہت اہم تصور کیاجاتا ہے سابق فوجی جوانوں کی سرپرستی میں سکولوں کالجو ں کے طلبہ و طالبات کو مختصر فوجی تربیت دے کر اندرون ملک نظم و نسق برقرار رکھنے ٗ ایمرجنسی حالات میں اپنے ہم وطنوں کی بروقت مدد کرنے کی تربیت دینا اشد ضروری ہے۔بطور خاص فوجی آپریشن پر ہر قسم کے ٹی وی مذاکرے بند کرکے آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز کے اجرااور نشریات کو یقینی بنایا جائے ۔ اپنے اور بیگانوں کی لاپرواہی کی بنا پرحالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں تھوڑی سی بے احتیاطی اور فوج کی ناکامی ملک کو عراق کی سطح پر لا سکتی ہے ۔جمہوریت اور سیاست الاپنے کا یہ وقت ہرگز نہیں ہے اس وقت ان تمام اقدامات کی ضرورت ہے جو کسی بھی جنگ کے دوران ملک میں کیے جانے ضروری ہوتے ہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 785 Articles with 679566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.