تعلیم ،صحت اور بنیادی سہولیات حکومت اور عوام

پاکستان میں تعلیم اورصحت ہمیشہ سے ہی حکومتی منصوبوں میں سر فہرست نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں بننے والی تعلیم اور صحت کی پالیسیوں کے وہ اثرات مرتب نہیں ہو سکے جن کے ہونے کی توقع تھی اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں مثلا کھبی حکومت اور کھبی بیورو کریسی اس میں رکاوٹ رہی ہے جب کھبی کسی بھی حکومت کی جانب سے کوئی مثبت اقدامات اٹھائے گئے ان کو ناکام بنانے کے لئے کچھ لوگ سرگرم ہو گئے اس حوالے سے اگر پاکستان کے تعلیمی ماحول کا جائزہ لیا جائے تو نتائج بہت ہی بھیانک نظر آتے ہیں باجود اس کے کہ حکومت وقت تعلیم کو عام کرنے اور اس کو عام کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی کوشش میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سارے اقدامات کرنے اور اتنا سارا سرمایہ لگانے کے باوجود وہ کون سی وجوہات ہیں جو تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ بنی نظر آتی ہیں پاکستان کے اقتصادی جائزے 14-2013 کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح تو 60 فیصد ہے لیکن پانچ سے نو سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے سکول ہی نہیں جا پاتے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہ جانے والوں میں 39 فیصد لڑکے اور 46 فیصد لڑکیاں ہیں پاکستانی معاشی شرح نمو، نیپال اور افغانستان سے کم ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے سروے کے مطابق بچوں کو پرائمری کی سطح پر تعلیم دلوانے کا سب سے زیادہ رحجان پنجاب میں ہے جہاں 93 فیصد بچے سکول جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سے نو سال کے عمر کے سکول جانے والے بچوں کا تناسب 65 فیصد ہے بچوں کے سکولوں میں اندارج کے حکومتی منصوبے کے تحت سنہ 2013 سے 2016 تک پچاس لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا جائیگاپاکستان اپنی خام ملکی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ 2018 تک تعلیم کے لیے مختص فنڈ دوگنا کر دیا جائے گا یہ وہ شرح ہے جو دنیا کا شاید ہی کوئی ملک اپنی تعلیم پر خرچ کرتا ہو گا کیونکہ اتنے قلیل سرمائے سے اتنے اہم مسئلے کو ہینڈل نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے کم از کم ملکی پیداوار کا پانچ فیصد تو خرچ ہونا چاہیے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھویں جماعت تک 1000 طلبہ کے لیے 42 سکول ہیں جبکہ 1000 طلبہ کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہی موجود ہے پاکستان میں ڈگری جاری کرنے کا اختیار رکھنے والے اداروں اور جامعات کی تعداد 156 ہے ان میں سرکاری اداروں کی تعداد 88 اور نجی کی 69 ہے ڈگری جاری کرنے والے اداروں میں 12لاکھ 30 ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان میں صحت کا شعبہ میں بھی سہولتوں کا فقدان ہے پاکستان میں صحت عامہ پر خام ملکی پیدوار کا محض چار فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جو کہ انتہائی کم ہے پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد ایک لاکھ 67 ہزار سات سو 69 ہے یعنی ایک ہزار99 افراد کے علاج معالجے کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں موجود وسائل اس قدر محددو ہیں کہ 1647 افراد کے علاج کے لیے ایک بستر ہے اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں جو گھر گھر جا کر خواتین اور بچوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں لیکن ملک میں 1000 نوزائیدہ بچوں میں 66 بچے اپنی پیدائش کے فورًا بعد مر جاتے ہیں پاکستان میں صرف52 فیصد بچے تربیت یافتہ طبی عملے کی نگرانی میں پیدا ہوتے ہیں جبکہ ملینیم ڈویلپمنٹ کے اہداف کے مطابق یہ شرح 90 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے پاکستان میں خواتین کی اوسط عمر تقریباً 67 برس اور مردوں کی عمر 64 سال ہے۔60 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں حکومت نے غربت کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے اور اب یومیہ دو ڈالر سے کم کمانے والے خطِ غربت سے نیچے شمار ہوتے ہیں جائزہ رپورٹ میں دیے گئے عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی کی یومیہ آمدن دو ڈالر سے کم ہے۔پاکستان کا شمار دنیا کے چھٹے گنجان آباد ملکوں میں ہوتا ہے اور اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 91 کی شرح سے بڑھ رہی ہے ملک کی مجموعی آبادی 18 کروڑ 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں 51 فیصد مرد اور 49 فیصد خواتین ہیں پاکستان میں کمانے کے قابل افراد کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ 72 لاکھ ہے لیکن ان میں سے صرف پانچ کروڑ 60 لاکھ کو ملازمت کے مواقع میسر ہیں اقتصادی جائزے کے مطابق ملک میں بیروزگاری کی شرح 2 6 فیصد ہے جائزہ رپورٹ میں دیے گئے عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے۔ان سارے عومل کو اگر سامنے رکھا جائے تو حکومت کے وہ دعوے کہاں نظر آتے یں جن میں ہم نے بدلا ہے پاکستان اور ہم بدلیں گے حالات جیسے خوشنماء نعرے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم ،صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ایسے عملی اقدامات اٹھائے جو صرف فائلوں تک نہیں بلکہ پورے ملک میں یکساں طور پر شہری اور دہی علاقوں میں نظر آئیں تب جا کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے اورنہ دوسری صورت میں حکومت کی طرف سے خرچ کیا جانے والا سرمایہ سابقہ حکومتوں کی طرح صرف سرکاری فائلوں میں ہی گھومتا دکھائی دے گا میں ذاتی طور پر سمجھتا ہو کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں اگر کوئی صوبہ ہنگامی بنیادوں پر تعلیم کو عام کرنا چاہا رہا ہے تو وہ پنجاب ہے مگر اس میں تھوڑی ناانصافی جو کی جا رہی ہے اور ان دور دراز کے علاقوں میں عا م ہے جہاں پر انتظامیہ کا موثر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے اس کے لئے صرف بڑے شہروں کو نہیں بلکہ تمام شہروں کو برابری کی سطح پر فنڈز اور سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا جانا چاہیے ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206753 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More