رحمت و نور میں ڈوبی’’ شب برات‘‘ فکر آخرت ، محاسبہ نفس اور مغفرت الٰہی کی رات

اﷲ عز و جل کی نعمتیں اس کی رحمتیں بے شمار ہیں ،اس کی عظمت و کبریائی کے جلوے اس کی ذاتی اور حقیقی صفات کے کمالات لا محدود اور لاتعداد ہیں (ماخوذ : الکہف آیت ۱۰۹) کہ اگر ہم اس کی نعمتوں اور رحمتوں کا احاطہ کرنے کی جسارت کریں تو ہماری توانائی مسدود ہوجائے گی، ہماری عقل کی پرواز عاجز و درماندہ ہوجائے گی( ماخوذ : ا لنحل ،آیت۱۸) کیوں کہ حضرت محمد عربی ٖ ﷺ جیسی کامل، اکمل اور مکمل شخصیت کو پیدا کرنے والا بے مثل و بے مثال رب بڑا رحیم اور بڑا کریم ہے(ماخذ سابق) وہ اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے (ماخوذ :الحشرآیت۲۴ ) کہ بندہ اگر اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اس ذات والا ستودہ صفات کی بارگاہ میں عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کی مہربانی اپنے گناہ گار بندوں کو اپنے دامن کرم میں سما نے کے لئے تیار رہتی ہے اور گناہ گار بندے کی حالت ایسی بدل جاتی ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں(صحیح حدیث)ا س نے جناتوں کی طرح ہم انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت و ریاضت کے لئے پیدا کیا (ماخوذ : الطور آیت ۵۶ ) اس کے با وجودوہ بڑا برد بار اور غایت درجہ عفو و در گزر کا حامل ہے کہ اپنے بندوں کو ان کے گناہوں پر جلدی گرفت نہیں فرماتا ورنہ تو روئے زمین پر کوئی زندہ نہیں بچتا (ماخوذ: یونس ،آیت ۱۱) بلکہ مہلت پر مہلت عطا فرماتا ہے (ماخوذ : ماخذ سابق آیت ۱۱) ) اور اپنی بارگاہ میں عبادت و ریاضت کے لئے ہمیں وقت دیتا ہے اور ہمیں عام معافی عطا کرنے اور اپنے انعام و اکرام سے مالا مال کرنے کے لئے دیگر ایام کی طرح خصوصی مواقع بھی بخشتا ہے ان ہی خصوصی عنایات ربانی کے مواقع میں اسلامی سال میں رمضان ا لمبارک سے پہلے شعبان ا لمعظم کی پندرھویں شب’’ شب برات‘‘ بھی ہے۔

شب کے معنی ’’رات‘‘ اور برات کے معنٰی’’ چھٹکار پانے‘‘ کے ہیں جس کا مطلب درجنوں احادیث کریمہ کی روشنی میں’’جہنم سے نجات پانے کی رات ‘‘ ہوتا ہے ۔ اس شب (رات )کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرور کونین روحی فداہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں شب میں اﷲ عز و جل اپنی تمام مخلوق کی طرف (خصوصی) تجلی فرماتا ہے اور (ضروریات دین میں سے کسی بات کے منکر)کافر اور (بغیر کسی عذر شرعی کے باہمی) عداوت رکھنے والے کے سوا سبھی (مسلمانوں )کو معاف فرماتا ہے (الترغیب و الترہیب للمنذری ج ۱۵/۲، باب ما جا ء فی صیام ا لنبی ﷺ)۔ام ا لمومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس (فرشتوں کے سردار سیدنا) جبرئیل علیہ ا لسلام تشریف لائے اور کہا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات(شب برات) ہے اس میں اﷲ رب ا لعزت (عرب کے قبیلے میں)بنی کلب کی بکریوں کے بال کے برابر لوگوں کو جہنم کی (بھڑکتی)آگ سے نجات عطا فرماتا ہے اور (ضروریات دین میں سے کسی بات کے منکر)کافر اور (بغیر کسی عذر شرعی کے باہمی) عداوت رکھنے والے،آپسی رشتہ داری منقطع کرنے والے، (ازراہ تکبر ،غرورو گھمنڈ ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے ، (شرعی حدود میں رہ کر )والدین کی نا فرمانی کرنے والے(کیوں کہ حدیث پاک کے مطابق نافرمانی اور معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی ماخوذ: صحیح بخاری) اورہمیشہ شراب کے نشے میں بد مست رہنے والے کی جانب نظر رحمت نہیں فرماتا (ان کو معاف نہیں فرماتا )(الترغیب و الترہیب:۲|۵۱ باب ا لترغیب فی صوم شعبان)۔ امام بیہقی نے ام ا لمومنین عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا سے روایت کی کہ مکی مدنی سرکار ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ عز و جل شعبان کی پندرھویں شب ’’ شب برات ‘‘ میں (خصوصی ) تجلی فرماتا ہے (اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہوکر )توبہ استغفار کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحمت کے طلب گاروں پر رحم فرماتا ہے اور کینہ والوں کوان کے اسی حال پر چھوڑ دیتا ہے (بحوالہ ماخذ سابق۵۲/۲)۔

ام ا لمومنین سیدنا عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شب میں نے سید عالم حضرت محمد عربیﷺ کو اپنی خواب گاہ میں نہ پایا تو میں انہیں تلاش کرنے نکلی تو آپ ﷺ کو میں نے جنت ا لبقیع میں پایا آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ کیا تجھے گمان ہے کہ اﷲ اور اس کا رسول تم پر زیادتی فرمائے گا میں نے عرض کیا کہ یا رسول ا ﷲ میں نے گمان کیا کہ آپ ﷺ بعض دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ شعبان کی پندرھویں شب میں اﷲ تعالی آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے پھر بنی کلب کی بکریوں کے بال سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی بخشش فرماتاہے اور اما رزین نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جہنم سے آزادی ملتی ہے جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں(صحیح ابن ماجہ ص ۹۹، مشکواۃ ا لمصابیح ص ۱۱۴تا۱۱۵،مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور) امام ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ امام بخاری اس حدیث کی تضعیف کرتے تھے لیکن اصول حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ باب فضائل میں احادیث ضعیفہ بھی لائق قبول ہے(کتب اصول حدیث)اس لئے اسے بنیاد بنا کر امت مسلمہ کو عمل صالح سے روکنا اور شب برات کی اہمیت و افادیت سے انکار کرنا دین سے دوری اور مسلمانوں کی بدخواہی کے مترادف نہیں ہے؟۔ صحابی رسول حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ا ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ عز و جل پندرھویں شعبان کی رات (شب برات ) میں اپنی (خاص )تجلی فرماتا ہے کہ تو اپنی مخلوق میں مشرک (اﷲ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں غیر کو شریک کرنے والے)اور کینہ پرور انسان کے سواسبھی کو بخش دیتا ہے اور امام احمد ابن حنبل کی روایت میں کینہ پرورکے علاوہ لوگوں کو (نا حق ) قتل کرنے والے کا بھی ذکر ہے (ماخذ سابق ص ۱۱۵)۔

ام ا لمومنین سیدنا عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ سرور کونین حضرت محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ائے عائشہ اس رات(شب برات ) کی اہمیت تمہیں معلوم ہے ؟ عرض کیا ، کیا فضیلت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے لکھ لئے جاتے ہیں اور لوگوں کے اعمال(اﷲ رب ا لعزت کی بارگاہ میں) پیش کئے جاتے ہیں اور(انہیں دی جانے والی )روزی لکھ دی جاتی ہے (کہ کس کو سال بھر کتنا رزق دیا جائے گا)تو حضرت صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اﷲ جنت میں کوئی اﷲ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں جنت میں کوئی شخص رحمت الٰہی کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا یہ کلمات آپ ﷺ نے تین بار فرمایا تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ بھی نہیں ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں بھی (رحمت الٰہی کے بغیر جنت میں داخل) نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ اﷲ عز وجل اپنی بے پناہ رحمتوں سے مجھے ڈھانپ لے (مشکواۃ ا لمصابیح ص ۱۱۵۔مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور) ۔

حضرت عائشہ صدیقہ ہی سے مروی ہے کہ میں نے زبان رسالت ﷺ سے سنا کہ اﷲ عز و جل (بطور خاص) چار راتوں عید ا لاضحی کی رات، عید ا لفطر کی رات،شعبان کی پندرھویں رات(شب برات) کہ اس رات مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں اور عرفہ (۸اور۹ ذو ا لحجہ کی درمیانی) رات میں بھلائیوں کا دروازہ کھول دیتاہے (اور اپنے انعام و اکرام کی لاتعدادبارش کا نزول فرماتا ہے)(تفسیر در منثورج ۲ ،ص ۴۰۲، مطبوعہ دار الفکر بیروت) ۔آپ ﷺ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے جب آپ ﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس سال(شعبان کے مہینے میں شب برات میں) مرنے والی ہرجان کو لکھ دیا جاتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے میرا وقت رخصت روزے کی حالت میں ہو(مسند ابی یعلیٰ ج ۴ ص ۲۷۷ دارا لکتب ا لعلمیہ بیروت) ۔مفسر قرآن صحابی رسول سیدنا عبد ا ﷲ ابن عباس رضی ا ﷲ عنہما سے مروی ہے ہے وہ کہتے ہیں بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ شب برات میں فیصلے فرماتا ہے اور انہیں متعلقہ اصحاب (فرشتوں ) کے سپرد فرماتا ہے (تفسیر مظہری، ج ۸، ص۳۶) ۔ویلمی نے حضرت ابو ہریرہ رضی ا ﷲ عنہ سے روایت کی کہ حضرت محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موت کے پروانے ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک بانٹ دئے جاتے ہیں یہاں تک آدمی ادمی نکاح کرتا ہے اس کے بچے ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں نکل چکا ہوتا ہے ۔(الدرا لمنثور :۷|۴۰۷)۔

معروف بزرگ سلطان ا لاولیا سیدنا شیخ عبد ا لقادر جیلانی رضی ربہ ا لباری’’ شب برات ‘‘ کی مناسبت سے فرماتے ہیں پندرھویں شب کتنی نازک رات ہے نہ جانے کس کی قسمت میں کیا لکھ دیا جائے بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رہتا ہے اور اس کے بارے میں کچھ کا کچھ لکھ دیا جاتا ہے بہت سے کفن تیار ہوتے ہیں مگر کفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں کتنوں کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں مگر اس میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے کئی مکانات کی تعمیر کا کام پورا ہوچکا ہو تا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان کا آخری وقت قریب ہوتا ہے(ماخوذ از غنیۃ ا لطالبین ج ۱ ، ص ۳۴۸) ۔گویا آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبرنہیں

رحمت و نور میں ڈوبی ہوئی رات ’’شب برات ‘‘ میں انعام الٰہی کا فیضان اتنا عام رہتا ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ اس رات لوگوں کی دعائیں بطور خاص قبول فرماتا ہے جیسا کہ شیر خدا حیدر کرار مولا علی رضی ا ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو (انعام خداوندی سے ہمکنار ہونے کے لئے )اس را ت قیام کرو(نماز اور دیگر عمل صالح میں گزارو) اور اس کے دن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک و تعالی غروب آفتاب(سورج ڈوبنے) سے پہلے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق (روزی)طلب کرنے والا کہ میں اسے روزی دوں ،ہے کوئی پریشاں حال کہ میں اسے عافیت دوں ،ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا اور یہ( انعام و اکرام کی بارش کا سلسلہ )فجر طلوع ہونے تک جاری رہتا ہے (ابن ماجہ ص ۱۰۰، مشکواۃ ا لمصابیح ص ۱۱۵مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور) ۔ اس رات ’’شب برات‘‘ ایک مرتبہ حضرت علی رضی ا ﷲ عنہ حسب معمول باہر تشریف لائے تو آسمان کی جانب نظر اٹھا کر حضرت سیدنا داؤد علیہ ا لسلام کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ وقت (قبولیت ) ہے کہ جس کسی نے جوبھی دعا اﷲ سے مانگی اس کی دعا قبول ہوئی اور جس نے مغفرت طلب کی اﷲ نے اس کی بخشش فرمادی بشرطیکہ دعا کرنے والا (عشار (ظلما ٹیکس لینے والا ) جادو گر کاہن (نجومی)(گانا)باجا بجانے والا نہ ہو (کیوں کہ ایسوں کے عمل بد کی نحوست سے ان کی دعائیں مقبول نہیں ہوتی ہیں )پھر دعا کی ’’ اے اﷲ عز وجل ائے (سیدنا )داؤد( علیہ ا لسلام) کے پرور دگار جو اس رات (شب برات ) میں تجھ سے دعا کرے ،یا مغفرت طلب کرے تو اس کو بخش دے (لطائف ا لمعارف لابن رجب حنبلی ج ۱ ص ۱۳۷، باختصار)

مندر جہ بالا احادیث نبویہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل حقیقتیں ابھر کر ذہن و فکر پر منکشف ہوتی ہیں(۱)اﷲ عز و جل نے دیگر عام راتوں کے مقابلے پندرھویں شب ، شب برات کو اہمیت اورفضیلت سے مشرف فرمایااور اس رات خصوصی رحمت الٰہی کا فیضان ہوتا ہے اور اﷲ کے رسول نبی آخرا لزماں ﷺ اور ان کے سچے متبعین صحابہ کرام رضی ا ﷲ عنہم اس رات کے بارے میں یہ جانتے تھے کہ ’’شب برات‘‘ رحمت الٰہی اور مغفرت خداوندی کی رات ہے ،رمجھم رمجھم نور کی برکھا برسنے والی رات ہے گناہوں سے نجات کی رات ہے اس میں اﷲ رب ا لعزت (عرب کے قبیلے میں)بنی کلب کی بکریوں کے بال کے برابر(بے حساب) ایسے لوگوں کو جہنم کی (بھڑکتی)آگ سے نجات عطا فرماتا ہے جن پر جہنم واجب و لازم ہوچکی تھی۔

(۲)خوش نصیب ،سعادت منداور فیروز بخت ہیں وہ خوش عقیدہ مسلمان جو رحمت و نو ر میں ڈوبی ، نور و نکہت سے لبریز شب، شب برات میں اﷲ عز و جل کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں اس شب کی قدر و منزلت کو ذہن و فکر میں رچا بسا کر اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں گریہ وازاری کرتے ہیں، اپنے خالق حقیقی سے لو لگاکے برکات و انوار کی سوغات حاصل کرنی کی تگ و دو کرتے ہیں ، اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کر اس کی بارگاہ عالی میں سچی توبہ کا عزم کرتے ہیں ، توبہ استغفار کرکے آئندہ دین پر استقامت کی دعائیں کرتے ہیں ، رضائے الٰہی کی غرض سے غربا ، مساکین اور بیوہ یتیموں کی فریاد رسی اور اقربا احباب(قریبی دوستوں) کو تحائف پیش کرکے اپنی محبتوں میں اضافہ کرتے ہیں(ما خوذ حدیث نبوی) ،ساتھ ہی شہر خموشاں کے چراغوں متعلقین اور دیگر مرحومین مسلمین ، کی قبروں پر حاضری اورایصال ثواب کرکے ’’سنت نبوی ‘‘ پر عمل کرتے ہیں (ماخوذ از سنن ترمذی ج ۲ ص ۱۸۳ حدیث ۷۳۹ ،مکتبہ دارا لفکر بیروت )،دنیوی زندگی گزارنے والے اسلامی بھائیوں کی طرح اپنے مرحومین مسلمین بھائیوں کی مدد بھی کرتے ہیں ،ان کے نام سے صدقہ ، تلاوت قرآن اور دیگر ذکر خیر کا ثواب انہیں پہونچا کر ان کو نفع پہونچاتے ہیں کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ تم میں اگر کوئی اپنے بھائی(خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ) کو نفع پہونچا سکتا ہو تو پہنچائے(صحیح مسلم شریف ص ۱۲۰۶ حدیث ۲۱۹۹) کیوں کہ اس میں اپنا بھی دینی فائدہ ہے جیسا کہ فرمان رسالت ﷺ ہے کہ جو سورہ اخلاص (قل ہو ا ﷲ احدمکمل) ۱۱/ بار پڑھ کر مرحومین کے نام ایصال ثواب کرے تو مرحومین کی گنتی کے برابر اﷲ تعالٰ اس شخص کو بھی ثواب عنایت فرمائے گا (در مختار ج ۳ ص ۱۸۳) ۔

(۳) اور پھراس رات مرنے والوں کی روحیں اپنے اہل و عیال کی جانب عمل خیر کی آرزو مند بھی رہتی ہیں جیسا کہ امام احمد رضا محدث بریلوی رضی ربہ ا لقوی نے ’’خزینۃ ا لروایۃ‘‘ کے حوالے سے صحابی رسول ابن عباس رضی ا ﷲ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ جب عید یا جمعہ یا عاشورے کادن یا شب برات ہوتی ہے اموات(مرنے والوں ) کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازے پر کھڑی ہوتی ہیں اور کہتی ہیں ہے کوئی جو ہمیں یاد کرے ؟ ہے کوئی جو ہم پر ترس (رحم)کھائے؟ ہے کوئی جو ہماری غربت کو یاد دلائے ؟اسی طرح ’’کنز ا لعباد‘‘ اور ’’کتاب ا لروضہ ‘‘امام زندویستی سے اور ’’کشف ا لغطا ء ‘‘ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے جس میں مرنے والوں کی روحیں مذکورہ دنوں کے علاوہ شب برات میں اپنے گھروں کے پاس کھڑی غم گین ہوکر آواز دیتی ہیں ائے میرے گھر والوں اے میرے فرزندو ں ائے رشتہ داروہمارے اوپر صدقہ کرکے مہربانی کرو(ماخوذفتاویٰ رضویہ جلد ۴ ،ص ۲۳۱،۔۲۳۳سنی دارا الاشاعت مبارکپور)اس لئے قبرستان میں جا کر اپنے مردوں کے لئے ایصال ثواب بھی کریں کیوں کہ مردوں کے لئے ایصال ثواب کرنا اور مرد حضرات کا قبرستان جانا سنت نبوی بھی ہے جیسا کہ حضرت محمد ابراہیم تیمی رضی ا ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ ہرسال شہدائے احد کے کی قبروں پر جاتے اور یوں فرماتے تم پر سلامتی (کا نزول)ہوتمہارے (د دینی ،نیوی پریشانی پر)صبر کا صلہ کیا ہی اچھا گھر ملا اور بعد وصال خلفائے ثلٰثۃسیدنا صدیق اکبر ، سیدنا عمر فاروق اعظم اور سیدنا عثمان غنی رضی ا ﷲ عنہم کا بھی یہی معمول رہا (البدایۃ و النہایۃ لابن کثیرج ۴ ص ۵۴۔ المستدرک للحاکم ج ۴، ۲۴۵) ۔ لیکن خیال رہے کہ قبروں پر اگر بتی ، موم بتی و غیرہ جلانا سخت منع ہے البتہ قبرستان میں آنے جانے والے مسلمانوں کی خیر خواہی اور انہیں روشنی اور خوشبو سے فائدہ پہونچانے کی نیت سے قبروں سے دور، راستے کے کنارے اگر بتی اور موم بتی جلانا بلا شبہ جائز اور مستحب ہے( ماخوذ ا ز : فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ ج ۹ ص ۴۸۲ ، ۵۲۵)

(۴) محاسبہ نفس کی بھی رات ہے بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں سچی توبہ کرکے اپنے رب کو راضی کرلے کیوں کہ بہت سے کم نصیب لوگ ایسے ہیں کہ اس با برکت اور با عظمت والی شب میں بھی رحمت الٰہی کے خصوصی فیضان مغفرت سے محروم و ناکام نا مراد رہتے ہیں مثلاً (ضروریات دین میں سے کسی بات کے منکر)کافر ،(کسی عذر شرعی کے بغیر باہمی) عداوت رکھنے والے،آپسی رشتہ داری منقطع کرنے والے، (ازراہ تکبر ،غرورو گھمنڈ ،ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے ، (شرعی حدود میں رہ کر )والدین کی نا فرمانی کرنے والے(کیوں کہ حدیث پاک کے مطابق نافرمانی اور معصیت میں کسی اطاعت نہیں کی جائے گی ماخوذ :صحیح ا لبخاری ج ۲ ، کتاب اخبار الاحاد ،باب ما جاء فی اجازۃ خبر الواحد)) ، ہمیشہ شراب کے نشے میں بد مست رہنے والے، دلوں میں بغض وکینہ و رکھنے والے ،(عشار (ظلما ٹیکس لینے والے) جادو گر کاہن (نجومی)(گانا)باجا بجانے والے اورلوگوں کو (نا حق ) قتل کرنے والوں کو ان کے بد عملی کی نحوست سے اسی حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس لئے رحمت الٰہی کے متمنی آرزو مند اپنے معاملے میں نظر ثانی کریں کہ کیا ہم ان مصیبت میں گرفتار تو نہیں؟ ۔اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کی نوعیت حقوق ا لعبد کی ہے یا حقوق ا ﷲ کی، بصورت اول ان کے ساتھ معاملے میں کی جانے والی کوتاہی کی معافی مانگی جائے یا اس کمی کی ممکنہ صورت میں بھرپائی ہو اور توبہ کیا جائے اور بصورت ثانی اپنے رب کی بارگاہ میں ’’توبہ نصوح ‘‘سچی توبہ کریں اور اپنے رب کی رحمت کی امیدواری حاصل کریں ورنہ تو بقول شاعر:گناہوں نے میری کمر توڑ ڈالی مرا حشر میں ہوگا کیا یا الٰہی(وسائل بخشش)

(۵)اس رات بندوں کے اعمال رب کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں کس نے کیا کیا ؟ اور کیا کرنے والا ہے ؟ کون کتنے سال زندہ رہے گا؟ اورکون موت کی آغوش میں جائے گا ؟یہ سارا عمل اﷲ عز و جل کے حکم سے تقدیر الٰہی لکھنے پر مامورو متعین فرشتے قلمبند کرتے ہیں حالانکہ حضرت انسان طرح طرح کی خواہشات میں الجھا ہوا ہوتا ہے اور اپنی موت و زیست کی کشمکش سے غافل رہتا ہے اس لئے ہمیں اپنی’’ حیات مستعار‘‘ کو ’’حیات جاودانی‘‘ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے اور موت کو یاد کرتے رہنا چاہئے کیوں کہ فرمان رسالت کے مطابق ’’موت کا ذکر خواہشات نفسانی کو توڑتا ہے‘‘ اور دن میں ۱۰/مرتبہ موت یاد کرنے والا شہید کی موت مرتا ہے (مکاشفۃ ا لقلوب : امام محمد بن محمد ا لغزالی) (۶)اس رات’’شب برات‘‘ سے پہلے اور اس کے بعد نفلی روزہ رکھنے میں بڑی فضیلت ہے پہلے تو اس لئے روزہ رکھیں کہ عمل اﷲ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے تو رسول ا ﷲ ﷺ کی خواہش تھی کہ میرا عمل ا پنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں روزہ کی حالت میں پیش کیاجائے اور دوسرے دن بھی نفلی روزہ رکھنے کا حدیث میں حکم آیا ہے تاکہ اس دن کی برکتوں سے مالامال ہوں اور دن کی شروعات اچھے عمل سے ہو لیکن یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر ہمارے ذمہ قضا فرض رمضان کے روزے ہیں تو اس دن ہم نفل روزے کے بجائے قضا فرض روزے کی نیت کریں کیوں کہ فرض اور نفل میں اہم فرض ہے اور انشاء ا ﷲ فرض کی ادائیگی کی برکت سے نفل روزے کا ثواب بھی ہمارا رب عز و جل چاہے تو عطاکرسکتا ہے( ماخوذ : البقرۃ آیت ۲۶۱)۔ (۷) اس رات ’’شب برات‘‘ کی نفل نمازوں میں بھی بڑا ثواب ہے۔ اس رات میں جس نے سو رکعت نماز پڑھی (نفل نماز دو دو کی نیت کرکے ہی پڑھی جائے گی بہار شریعت جلد اول مکتبۃ ا لمدینہ ) اﷲ تعالیٰ اس کے پاس سو فرشتے بھیجتا ہے تیس فرشتے اسے جنت کی بشارت دیتے ہیں،تیس جہنم کی آگ سے بچانے پر مامور کئے جاتے ہیں ، تیس اسے دنیا کی آفات سے بچاتے ہیں اور دس اسے شیطان کے مکر سے محفوظ رکھتے ہیں(حاشیہ صاوی بر تفسیر جلالین ،ج ۴ ص۵۷، مطبوعہ غلام رسول سورتی ممبئی بحوالہ فضائل شعبان و شب برات: از مولانا عبد ا لمبین نعمانی مصباحی) مگر یہاں پر بھی ذہن نشین رہے کہ جس کے ذمہ قضا فرض نمازیں باقی ہیں وہ پہلے فرض قضا نمازوں کی ادائیگی کریں کیوں کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ جس کے ذمہ فرض باقی ہے اس کی نفلی عبادتیں زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہیں(ماخوذ: حدیث نبوی)۔

حاصل کلام یہ کہ ’’شب برات ‘‘ میں رحمت الٰہی خصوصی طور پر متوجہ رہتی ہے اس رات کا حد درجہ ہم ادب و احترام کریں، اپنے رب کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے ہوئے نماز و دیگر اعمال صالحہ مثلاًآیات قرآنیہ کی تلاوت، اپنے آقا ﷺ پردرود و سلام کی کثرت ،شرعی احکام کی پابندی اور خلاف شرع امور سے اجتناب کی نیت سے علم دین کے حصول میں بھی اپنے لمحات گزار سکتے ہیں کیوں کہ فرمان رسالت ﷺ ہے کہ رات میں تھوڑی دیر علم دین حاصل کرنا پوری رات بیدار رہ کر (نفل )عبادت کرنے سے بہتر ہے (مشکواۃ ا لمصابیح ص :۳۶ کتاب ا لعلم ) اور علم دین سیکھنا ہر مسلمان مرد (و عورت )پر فرض ہے(شعب ا لایمان باب فی طلب ا لعلم ج ۲ /ص۲۵۴) اور ریا کاری ،غیبت باہمی حسد جلن اور دیگر غیر شرعی کام خصوصاً آتش بازی پٹاخہ وغیرہ پھوڑ کر اس رات کی عظمت ہم پامال نہ کریں کیوں کہ یہ فضول خرچی اور شیطانی عمل ہے (الا سرا ء آیت ۲۶ تا ۲۷)جو بلا شبہ حرام ہے( فتاویٰ رضویہ ج ۲۳ / ۲۷۹) ۔شب کے اخیر حصے میں اپنے رب عز و جل کی بارگاہ میں خصوصی دعا کریں، دعا کی ابتدا اور انتہا (شروعات اور اخیر )میں کوئی بھی درود پاک پڑھیں اور قرآن و حدیث سے ثابت شدہ کوئی بھی ماثورہ دعائیں پڑھیں دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کریں کہ اﷲ پاک ان میں سے کسی کے صدقے ہماری دعائیں قبول فرمالے جو ہمارے ، ہماری قوم مسلم ،ہمارے وطن اور پوری دنیا کی سلامتی کے لئے نیک فال ثابت ہو (آمین )

Md Arif Hussain
About the Author: Md Arif Hussain Read More Articles by Md Arif Hussain: 32 Articles with 57559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.