ٹیکسی ٹرانسپوٹ کے ہاتھوں عوام یرغمال

وہ کسی ضروری کام سے جا رہا تھا مگر تین گھنٹے سے سٹاپ پر کھڑابے بسی اور مجبوری کی تصویر بنا انتظار میں تھا اس کے ہاتھ میں دوائیاں تھیں جو کسی مریض کے لئے لے جا رہا تھا۔ خدا خدا کرکے مظفرآباد سے براستہ سدھن گلی پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑی آئی وہ اس پر بیٹھا ،گاڑی تھوڑی آگے گئی تو ایک خاتون اپنے بچوں سمت راستے میں کھڑی گاڑی کا انتطار کر رہی تھی وہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئی ،میں خود تین گھنٹے سے انتظار کی آگ میں جل رہا تھا بازار اور سٹاپ پر ،روٹس پر چلنے والی ٹیکسی نما گاڑیاں کھڑی تھی جو عام طور پر لوکل چلتی ہیں مگر اس وقت وہ بھی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں نہیں جا رہی تھیں ہماری گاڑی جب المعروف بیرپانی ساہی سٹاپ پر پہنچی تو وہاں سے بھی دو بندے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کے گاڑی ملی بیٹھ گئے ،وہاں پر پانچ چھ ٹیکسی نما لوکل چلنے والی گاڑیاں کھڑی تھیں ان کے ساتھ درائیور اور کچھ ان کے ساتھی بھی کھڑے تھے ،انہوں نے اس گاڑی جو ہائی ایس ڈبہ تھا مظفرآباد سے باغ چل رہا تھا اسے روکاپہلے اسے کہا کہ تم نے یہ بندے کیوں بیٹھائے ان کو اتارو،ڈرائیور اور کنڈایکٹر نے جب بندوں کو اترنے کا کہا تو ٹیکسی ڈرائیور نے انکار کر دیا کہ اب تم بندے نہیں اتار سکتے اگر یہ اترے گے تو ہم ان کو نہیں بیٹھائیں گے، اب تم ان کا کرایہ دو جو تم نے لیا وہ نہیں بلکہ جو ہمارا بنتا ہے وہ دو۔۔ ٹیکسی کا کرایہ ہائی ایس ڈبے سے بیس روپے زیادہ ہے ۔انہوں نے اس سے وہ کرایہ لیا اور اسے یہ کہہ کر جاننے کی اجازت دی کہ راستے سے کوئی سوار بیٹھایا تو اچھا نہ ہوگا ،وہ بندے جو وہاں سے بیٹھے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر کئی گھنٹوں سے کھڑے ہیں کوئی گاڑی نہیں آرہی تھی یہ لوگ ہم سے بکنگ مانگ رہے تھے ہم نے کہا کہ ہم تو کرایہ دے کر جائیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ ہم کہاں جائیں اور کیا کریں یہ گاڑی بھی تو اسی روٹ کی ہے اور یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں،انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں،ایک بات یاد رہے دیہاتوں کے روٹس پر کوئی سٹاپ نہیں ہوتا یہاں سے دل کیا سوار کو بیٹھا دیا اور جہاں کہا اتار دیاکوئی بھی مخصوص سٹاپ نہیں ہوتا،ساہی سٹاپ جو آج کل پیر ودھائی بنا ہوا ہے وہاں پر پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں ان کو خوب لوٹا جاتا ہے ،وہاں آنے والے لوگ اجنبی ہوتے ہیں باغ سے وہاں تک کی زیادہ سے زیادہ کی بکنگ پانچ سو روپے کی ہے مگر یہ باغ سے وہاں تک پچیس پچیس سو پرجاتے ہیں لوگ اجنبی اور مجبور ہوتے ہیں ،یہ ٹیکسی ڈرائیور ان لوگوں سے منہ مانگا پیسہ لینے کے بعد فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نے آج یہ کارنامہ سر انجام دیا ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس کمائی میں برکت ہو گی؟اس روٹ پر کئی کئی گھنٹے کوئی گاڑی نہیں آتی عوام کو نہ صرف انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ ان کرایوں اور ان کے سلوک سے تنگ ہیں یہاں تین سوار بیٹھ سکتے ہیں وہاں یہ پانچ پانچ کوبیٹھاتے ہیں۔میں نے جب یہ معاجرہ دیکھا تو میں نے اس کی قانونی حیثیت جاننے کے لئے سب سے پہلے ٹریفک کے آفیس میں پولیس سے ملا ان سے سوال پوچھا کہ باغ سے مظفرآباد جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ راستے سے سوار بیٹھا سکتی ہے کہ نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ بالکل بیٹھا سکتی ہے قانونی کوئی ایسی شیک نہیں اور نہ کوئی رکاوٹ ہے جو گاڑی عوام کے لئے چلتی ہے وہ کسی بھی جگہ سے لوکل ہو یا لانگ سوار اٹھا سکتی ہے،پھر میں اس کی مذید تصدیق کے لئے ٹریفک کے اہلکار سے ملا، اس سے یہی سوال کیا، اس نے بھی یہی جواب دیا کہ ایسا نہیں کوئی بھی بیٹھ سکتا ہے ،ہاں اگر یہ ٹیکسی ڈرائیور روکتے ہیں تو یہ ان کی غیر قانونی ،غیر اخلاقی،حرکت کے ساتھ ساتھ ان کی بد معاشی ہے ،لیکن ایسا کچھ نہیں ،ہاں اگر یہ ایسا کرتے ہیں تو پھر ان کو چاہئے کہ عوام علاقہ کو یہ سہولت دیں ان کو بر وقت اپنے مقام پر پہنچائیں ان سے قانونی روٹس کا جو کرایہ بنتا ہے وہ لیں ،اگر ایسا نہیں کرتے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی ہو سکتی ہے،میں یہی سوال لیکر کر عوام کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ،عوام علاقہ کا کہنا تھا کہ ہم تو ان ٹیکسی ڈرائیور کے ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے ہیں ہم ان کے اگے بے بس ہیں ہم ان کی شکایت کس سے کریں باغ شہر سے نکل کر یہ ویسے ہی ہو جاتے ہیں،اور یہ نہ خود چلتے ہیں اور نہ کسی دوسری ٹرانسپورٹ کو کامیاب ہونے دیتے ہیں۔اکثر یہ ٹیکسی والے راستے میں ہی یہ کہہ کر اتار دیتے ہیں کہ ہم اگے نہیں جائیں گے ،یا ہم کو بکنگ بل گئی ہے،یا پھر یہ کہہ کر کہ اگے کوئی سوار نہیں، بس ہم یہاں سے ہی واپس جائیں گے،جب کہ بیٹھاتے وقت یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو آخری سٹاپ تک چھوڑ آئیں گے۔ ارو کثر یہ عوام سے یہ کہہ کر زیادہ کرایہ لیتے ہیں کہ سوار کم ہیں ان کی جگہ تم پیسے دو تو ہم چلتے ہیں۔۔ عوام کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ کیا یہ ٹیکسیاں پبلک ٹرانسپورٹ میں آتیں بھی ہیں کہ نہیں۔۔انہوں نے اپنی اجاراداری بنائی ہوئی ہے کوئی سننے والا نہیں اور نہ کوئی قانون ان کے لئے ہے یہ اپنی مرضی سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم سنتے آئیں ہیں کہ رزق انسان کو اپنے نصیب کا ملتا ہے مگر یہاں پر تو الٹی گنگا بہتی ہے یہ دوسرے کہ منہ سے نوالہ چھین کر لیتے ہیں،باغ سے سدھن گلی تک روزانہ ہزاروں کی تعدادمیں لوگو آتے جاتے ہیں ان ناکافی اور بد نظم ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لوگ آج بھی صدیوں پرانی زندگی گزار رہے ہیں پیدل آتے جاتے ہیں․

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باغ ٹریفک پولیس کا کنڑول صرف شہر کی حد تک ہے ،اس کے قرب و جوار میں چلنے والی گاڑیوں پر قانون شہر کی حد میں داخل ہونے کے بعد لاگو ہوتا ہے ،یا کئی اور بھی۔۔ اس سے پہلے بھی اس پر بہت بات ہو چکی ہے کہ اڈے سے روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کا ایک اصول ہونا چاہئے ،ایک ٹائم ہوکے اتنے منٹ کے بعد گاڑی نکلے گی تا کہ عوام کو پتہ ہو کہ اتنی دیر میں گاڑی آجائے گی،قانون کو بھی عوام کی مدد کرتے ہوئے مضافات پر بھی نظر رکھنی چاہئے،نہ کہ اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد بس ان کو کھلی چھٹی دی جائے کہ عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جائے۔اگر یہاں کسی قانون کا نفاذ نہیں ہوتا تو ایسا خود ساختہ نظام کب تک چلتا رہے گا اور عوام کوکب تک یرغمال بنا کر رکھا جائے گا۔یہ مجبور عوام کہاں جائے۔۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.