تبدیلی کیسے آئے گی؟

آزادکشمیر میں کچھ لوگ باری، باری اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عوام مسلسل ظلم کا شکار ہیں۔ سرکاری ادارے روبہ زوال ہیں۔ تعلیم، صحت، لوکل گورنمنٹ، شاہرات اور انصاف سمیت ہر طرف افراتفری ہے۔ ملازمتیں میرٹ کے بجائے کیش پر دی جاتی ہیں۔ انصاف نام کی شے ڈھونڈے نہیں ملتی۔ عوام پولیس، کچہری، عدالت میں جانے سے پناہ مانگتے ہیں۔ وہ ظلم تو جیسے تیسے سہہ لیتے ہیں لیکن سرکاری اداروں میں درخواست دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ہندو دھرم میں تو لوگ الگے جنم میں انصاف کی امید پر جدوجہد جاری رکھتے ہیں لیکن مسلم معاشرے میں دوسرے جنم کا تصور نہیں۔ اس زندگی میں انصاف ہوتا کسی نے دیکھا ہی نہیں، اس لیے انصاف کا دروازہ کھٹکانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ تعلیمی اداروں میں ایک نسل توزلزلے کے دوران کرپشن زدہ تعمیرات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ دوسری نسل کو سفارشی ، نالائق اور سیاست باز ٹیچرز کے سپرد کردیا گیا ہے۔ عوام کو نہ ختم ہونے والی اندھیری رات میں دھکیل دیا گیا ہے،طلوع سحر کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے ۔نام نہاد اپوزیشن نے حکمرانوں کو اس قدر فری ہنڈ دے رکھا ہے کہ وہ اسمبلی کے فلور پر جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے ، یہی ان کا سیاسی نظریہ ہے، جس پر وہ پوری دیانتداری سے عمل پیرا ہیں۔ مسلم کانفرنس کی کھوک سے مسلم لیگ نے جنم لیا ہے، یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ جنھوں نے ملی بھگت سے پبلک سروس کمیشن تک کو سیاسی اکھاڑہ بنا کر میرٹ کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر رکھا ہے۔سارے نتھو پتھو جو اپنا نام لکھنے سے عاری تھے وہ اعلیٰ عہدوں کے لیے شاھینوں کا انتخاب کرتے ہیں، سبحان اﷲ۔

کیا یہ سیاہ رات کبھی ختم ہوئی گی، انصاف کا کاروبار کبھی بند ہوگا، کبھی میرٹ کی بالادستی ہوگی، کبھی فرقہ، برادری، پارٹی اور علاقے کی تقسیم کے بجائے قابلیت اور صلاحیت بھی معیار قرار پائے گا؟ یہ سوال ہر کشمیری کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے اور پھر نامیدی کی بھینٹ چڑھ کر دم توڑ دیتا ہے۔ علماء مدارس کے نام پر زکواۃ بطور بھتہ لے کر ظلم سے سمجھوتہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ تو سستا ترین سودا ہے، جو یہاں قابو نہ آئے اسے زکواۃ کونسل یا اسلامی نظریاتی کونسل جیسے بے مقصد ادارے کا رکن بنا دیں، ان کی آنکھیں بند ہوجائیں گی۔ کیا معیار اور کیا دین کی سربلندی کے نعرے، سب پیٹ کے پجاری ہیں۔کچھ زکواۃ پر پلتے ہیں اور کچھ زکواۃ منافع فنڈ پر، کیا زمانہ آگیا ہے کہ زکواۃ کی رقم پر سود ی کاروباری کیا جارہا ہے ۔ اس سود کو ’’زکواۃ منافع فنڈ‘‘ کا نام دے کر موجیں ماری جارہی ہیں۔ سود کھانا سور کھانے سے بھی زیادہ بد تر ہے لیکن یار لوگ مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور حلا ل و حرام قرار دینے والے بھی ان کے ہمنوا ہیں۔ سود اور سور خوری کے نتیجے میں جو معاشرہ تشکیل پانا تھا، وہ پا چکا ہے۔ جس نے اسلامی اصول اور علاقائی روایات تک بدل دی ہیں۔

پوری ریاست نان کسٹم پیڈ اور چوری کی گاڑیوں کا مرکز بن چکی ہے۔اب چوری کی گاڑیاں مردان اور سوات جانے کے بجائے آزادکشمیر لائی جاتی ہیں۔ حکمران اور انتظامیہ والے بھی مسفید ہو رہے ہیں۔’’ صالحین ‘‘بھی بہتی گنگا سے ہاتھ رنگنے میں مصروف ہیں، کہیں سے کوئی آواز بلند ہوتے سنائی نہیں دے رہی۔ کبھی ہم نے رشوت سے سمجھوتہ کیا تھا کہ اس کے بغیر کام نہیں ہوتا، پھر سفارش اور اقربہ پروری کو جگہ دی، پھر سود سے سمجھوتہ کیا کہ عالمی نظام اسی پر چل رہا ہے، اب چوری چکاری جیسی گھٹیا شے سے بھی سمجھوتہ کرلیا ہے۔اب تو حد ہوچکی لیکن کہیں سے صدا بغاوت بلند نہیں ہو رہی۔ صالحین اور انقلاب کے دعویدار پتہ نہیں کسی بل میں گھس گئے ہیں یا سمجھوتے پر سمجھوتہ کیے جارہے ہیں ، کہیں میدان میں دکھائی نہیں دیتے، ہاں سمجھوتے کی بھی حد ہو گئی ہے، اچھائی اور برائی میں تمیز نام کی شے دیکھنے کو نہیں ملتی۔ صالحین کا کام اب صدر، وزیراعظم اور دیگر ہمنوا سیاست دانوں کے ساتھ کاکٹل پارٹیاں اڑانا، سمینار کرنا، سماجی تقریبات میں شریک ہونا اور اقتدار کے ایوانوں کے چکر لگانا رہ گیا ہے۔ تبدیلی کون لائے گا، جب صالحین کا معیار بھی پیسہ، برادری اور چاپلوسی رہ جائے پھر باقی کیا بچے گا۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہردور میں حق کا علم سربلند رکھنے کے لیے کچھ لوگ میدان میں موجود رہے ہیں۔ ہندو معاشرہ ہو یا عیسائی، خدا فراموش لوگ ہوں یا سورج کے پوجاری ، ہر دور میں اصلاح پسند کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے، حق تلفی اور ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتی رہی، آج سودی سماج نے مسلم معاشرے سے بھی ایسی تحریکوں او رایسے انسانوں کو کھرچ کھرچ کر خالی کردیا ہے۔

حیرانگی تو یہ ہے کہ ظالموں کے دسترخوان پر ہم نوالہ و ہم پیالہ رہتے ہوئے بھی کچھ لوگ انقلابی کہلانے کا شوق پورا کر رہے ہیں۔ کارکنان کے جھرمٹ میں سلف الصالحین کے قصے سناتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں شیطانوں کی ہمنوائی کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ تبدیلی کا یہ راستہ نہیں، تبدیلی تقویٰ کا مطالبہ کرتی ہے، کامل اوراکمل تقویٰ، انقلابی کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے، وہ ہمیشہ آئیڈل کے متلاشی رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی حاضر وموجود پر اکتفا نہیں کیا، وہ آفق کی بلندیوں سے نیچے کہیں ٹھہرنے والے نہیں ہوتے۔تبدیلی کا سفر ہر ایک کے اندر سے شروع ہو تاہے، وہ ظلم سے نفرت اور ظالم سے بغاوت سے عبارت رہا ہے۔ظلم سے سمجھوتہ انقلاب کی نفی ہے۔ انقلاب اور ظلم، دو انتہائیں ہیں، ان کا رشتہ آگ اور پانی کا ہے۔جو ایک دوسرے کی ہمیشہ نفی کرتے رہے ہیں۔ جس دن پانی آگ پر مہربان ہوجائے پھر مسیحا کہاں سے ملے گا؟
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105757 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More