آمریت کے چیمپئین اور جمہوریت کے دشمن پھر اکٹھے

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اگر اس وقت تک معاشی ٗ اقتصادی ٗ سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے مستحکم نہیں ہوسکا تو اس کی ذمہ دار کوئی بیرونی طاقت ہرگز نہیں بلکہ آستین کے سانپ پاکستان کی صفوں میں ہی جابجا موجود ہیں ۔جن کو جمہوریت راس نہیں آتی بلکہ آمریت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے وہ کسی فوجی آمر کے جوتوں کو پالش کرکے ڈپٹی پرائم منسٹر ٗ وزیراعلی کے عہدوں پر فائز ہوکر اپنے اور ہمنواؤں کے خاندانوں کے لیے نوازشات اور مراعات کے انبار تو لگا سکتے ہیں لیکن پاکستان کی غریب عوام کے لیے کچھ کرنے کی ان کو توفیق نہیں ہوتی ۔پیپلز پارٹی کے بدترین پانچ سالہ دور میں انہیں نہ تو اپنا خود ساختہ انقلاب لانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور خائن قسم کے لوگوں کی خامیاں ہی دکھائی دیں بلکہ ق لیگ کے چودھری برادران ہوں یا ڈاکٹر طاہر القادری جیسے ضمیر فروش اور مفادپرست مولوی ان تمام احباب کے لیے پیپلز پارٹی کا دور اس لیے سنہرا تھا کہ اس دور میں چھوٹے چو دہری صاحب کو ڈپٹی پرائم منسٹر اور بڑے چوہدر ی صاحب کو وزیر کا درجہ اور لامحدود مراعات حاصل تھی بلکہ انہوں نے بھٹو کی سیاسی دشمن جماعت سے اپنے لاڈلے مونس الہی کو مقدامات سے بری کروانے کا کام بھی کامیابی سے لیا ۔اس کے باوجود کہ مشرف دور میں اربوں روپے سرکاری خزانے اور زکوہ فنڈز سے خرچ کرکے وہ نہ پہلے عوام سے ووٹ حاصل کرسکے اور نہ ہی 2013ء کی الیکشن میں عوام نے انہیں اپنے ووٹ کا حق دار سمجھا ۔اب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت مرکز اور صوبہ پنجاب میں بجلی کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے بھر پور اقدامات کررہی ہے لاہور میں کامیابی کے بعد اسلام آباد میں میٹرو پراجیکٹ پر کام زور شور سے جاری ہے لاہورسے کراچی اور کراچی سے گوادر تک موٹرویز کی تعمیر ٗ ریلوے نٹ ورک کی گوادر تک توسیع ٗ پاک چین اکنامک کوریڈورز ٗ کاشغر ٗ گوادر راہداریاں ٗ گوادرمیں بین الاقوامی شہر ٗ ائیرپورٹ اور عالمی سطح کی بندرگاہ کی تعمیر کا کام زور شور سے جاری ہے تو نہ صرف چودھری برادرن اور عمران کے پیٹ میں درد کے مروڑ اٹھ رہے ہیں بلکہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دماغی مریض قرار دیئے جانے والے خود ساختہ بین الاقوامی سکالر ڈاکٹر طاھر القادری کو بھی اپنے ساتھ ملانے کے لیے لندن یاترا کو ضروری سمجھا ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا اٹھتے بیٹھے درد محسوس کرنے والے ان مکروہ سیاست دانوں کو سازشیں کرنے کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ملی لیکن لندن میں اس لیے جا پہنچے کہ وہاں کینیڈا سے خود ساختہ انقلابی لیڈر کو بھی مدعو کررکھا تھا انہوں نے کوشش تو کی کہ عمران کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان میں اس قدر طوفان برپا کردیاجائے کہ پھر فوج کا کوئی جرنیل حالات کی خرابی کا بہانہ بنا کر ملک میں مارشل لگا کر چودہدی پرویز الہی کو وزیر اعظم نامزد کردے اور ڈاکٹر طاہر القادری کو وزیر اعلی پنجاب مقرر کردے لیکن وزارت عظمی حاصل کرنے کے لیے چور دروازہ استعمال کرنے والے عمران خان نہ جانے کیسے باہر رہ گئے جو اپنے نام نہاد سونامی کو کبھی اسلام آباد کبھی فیصل آباد اور کبھی سیالکوٹ گھماتے پھررہے ہیں۔مفادپرستوں کے اس ٹولے نے جو دس نکات پر اتفاق کیا ہے ان میں سے کوئی ایک نکات بھی پورا ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیا پاکستانی عوام نہیں جانتی کہ یہ وہ طاہر القادری ہیں جو سخت ترین سردی اور شدید ترین بارش میں خود موسمی صعوبتوں سے محفوظ کینیٹر میں انجوائے کررہے تھے جبکہ اپنے چاہنے والوں ( جن میں معصوم بچے عورتیں اور بزرگ بھی شامل تھے )ان کو سخت سردی اور بارش کے سپرد کرکے انقلاب کے جھوٹے نعرے لگا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے مسلمان وہ ہے جو دوسروں کے لیے وہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اس حدیث کی روشنی میں طاہر القادری سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستانی عوام اور اپنے چاہنے والوں کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھ سکتے ہیں جو ملک کو چھوڑ کر کینیڈا میں اس لیے جابسے کہ وہاں عزرائیل علیہ السلام نہیں پہنچ سکتے ۔رہی بات شیخ رشید کے ٹرین مارچ کی جب سے نواز شریف نے ان کو منہ لگانا چھوڑ رکھا ہے وہ اسی دن سے نہ صرف حکومت کے خلاف ایک اینٹ کی تحریک چلانے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کو طعنے دے کر احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں جو اپنے سنئیر ترین ارکان کے کرپشن کے مقدمات کے ڈر سے ابھی تک فرینڈلی اپوزیشن کا روپ دھار کر خاموش بیٹھے تھے ۔ان حالات میں جماعت اسلامی کی جانب سے اس بات کا اظہار کہ وہ کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری ایڈوانچر کا حصہ نہیں بنیں گے لائق تحسین ہے ۔ بے شک جماعت اسلامی پریہ تنقید کی جاتی ہے کہ ان کے قائدین نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد ان کی سیاست ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں رہی ہے بنگلہ دیش میں ان کے قائدین کی پاکستان کے لیے جانی و مالی قربانیاں اب بھی تاریخ کااہم حوالہ بن چکی ہیں۔جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے حافظ حسین احمد کی یہ بات قابل دید ہے کہ ہم عمران کی تائید کرتے ہیں کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے مگر خیبر پختوانخواہ کے بارے میں وہ شور کیوں نہیں مچا رہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ برسوں بعد موذن ٗ تکبیر اور امامت کرنے والے اکٹھے ہورہے ہیں اب ایسانہ ہو کہ "من پرانا پاپی ہو اور کئی برسوں سے نمازی ہی نہ بن سکے "۔جیو ٹی وی پر آئی ایس آئی کے خلاف جو مکروہ پروپیگنڈہ کیا گیا اس کی ہر محب وطن پاکستانی نے مذمت کی ہے لیکن اس آڑ میں ق لیگ جیسے چمچہ گیرچند درجن افراد کے ساتھ جلوس نکال کر فوج میں یہ سوچ پیداکرنے کے جستجو کررہے ہیں کہ پاکستانی قوم موجودہ حکومت سے تنگ آچکی ہے اور وہ فوج کو برسراقتدار دیکھنا چاہتی ہے دوسری جانب ایم کیو ایم کے بے تاج بادشاہ الطاف حسین جنہوں نے پورے کراچی کوڈرا دھمکا کر اپنازر خرید غلام بنا رکھا ہے وہ اٹھتے بیٹھتے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے ہی رہتے ہیں لیکن اب تو وہ خود قدرت کی گرفت میں آکر لندن پولیس کے مہمان بن چکے ہیں لندن پولیس کا تو ایم کیو ایم والے کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ وہ پاکستانی پولیس کی طرح بزدل نہیں ہے لیکن کراچی میں غریب ہم وطنوں کے گاڑیوں رکشوں اور املاک کو آگ لگا کر یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم بھی آمریت کی ہی پروردہ جماعت ہے ۔ ان حالات میں فوج کی جانب سے وضاحت کی اشد ضرورت ہے کہ فوج جمہوریت کی حامی ہے اور کسی بھی صورت فوج اقتدارپر قابض نہیں ہوگی کیونکہ فوج آئین کی وفادار ہے اور آئین فوج کو اقتدار میں آنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 786 Articles with 683809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.