چھٹیاں کیسے گزاریں

چھٹیوں کوسیروتفریح میں گزارنے کے بجائے اہل اللہ کے پاس جائیں،تاکہ قلب میں آخرت کی فکربیدارہو
جہاں گیر حسن مصباحی

محترم قارئین !جب تک یہ تحریر آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گی اس وقت تک بالعموم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گرمی کی چھٹیاں ہوچکی ہوں گی ، یا عنقریب چھٹیاں ہونے والی ہوں گی اورآپ لوگ گرمی کااچھاخاصہ ذائقہ لے چکے ہوںگے ،بلکہ آپ میں سے بعض تو ہل اسٹیشنوں اور ٹھنڈے علاقوں میں سیروتفریح کا پروگرام بھی بنارہے ہوں گے،یاپھر وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔

جی ہاں!عقلمندی بھی یہی ہے کہ جیسے ہی کوئی اچھاساموقع ملے اُسے فوراً صحیح کاموں میں استعمال کرلیاجائے ،ورنہ پتہ نہیں کب یہ سنہراموقع ہاتھ سےنکل جائے اور افسوس کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ بچے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے چھٹیوںکی شکل میںجب یہ خوبصورت پل ہمیں دیے ہیں تو کیوںنہ ہم ان قیمتی پلوں کا صحیح استعمال کچھ اس طرح کریں کہ چھٹیاںبھی بہتر انداز سے گزرجائیں اوراِن چھٹیوں کا مزہ بھی دوبالا ہوجائے۔دوسرے لفظوں میں اس کو یوں بھی سمجھاجاسکتاہے کہ اگر ہمیںچھٹیوں کا یہ اچھا اور سنہرا موقع ملا ہے تو ہم اُسےمحض دنیاوی سکون وراحت حاصل کرنے میں ہی نہ گزاردیں،بلکہ کچھ ایسا عمل کریں جو دنیامیں بھی ہمارے لیے چین وسکون کا باعث بنے اور آخرت کے اعتبار سے بھی ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے۔اب چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوجسم وروح دونوں کامجموعہ بنایاہےاورروح کوامیرکادرجہ دیاہےتولازمی طورپر جسم کےحقوق کی طرح روح کے حقوق بھی ہم پر ہیں۔ ہم سال بھر جسمانی حاجتوں کی تکمیل اوردنیاوی حقوق کے حصول میں لگے ہوتے ہیں،اگر کبھی روح کی حاجت اوراس کے حقوق کی ادائیگی کرتے بھی ہیں تو بہت ہی کم ،جب کہ روح ،اصل ہےاوراس کو روحانی غذادیناانتہائی لازم ہے، کیوں کہ جسمانی حقوق کی ادائیگی سے صرف دنیابہترہوتی ہے، جب کہ روحانی حقوق کی ادائیگی سے دنیامیں بھی سکون حاصل ہوتاہےاورآخرت میں بھی فلاح وکامیابی کے دروازے کھلتے ہیں،چنانچہ دنیاوآخرت کی بہتری کے لیےہم صبح و شام اللہ تعالیٰ سے یہ دعابھی مانگتے ہیں :
اے ہمارے رب!ہمیں دنیاوآخرت میں بہتری عطافرمااور عذابِ جہنم سے محفوظ فرما۔(بقرہ:۲۰۱)

لہٰذاہماری ذمےداری ہے کہ ہم جسمانی سکون کی تکمیل کے لیےملنے والی چھٹیوں کوروحانی حاجتوں کوپوراکرنے اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں گزارنے کی کوشش کریں۔اس طرح روح کاحق بھی اداہوجائے گا اورسیروتفریح کے لیے جانے کا جو مقصد سکون حاصل کرناہے،وہ بھی پوراہو جائے گا۔

اِن چھٹیوں کے موقع پرعموماًیہ ہوتاہے کہ عوام وخواص ہفتہ ،دس،پندرہ دن،یا مہینہ بھر کے لیے اپنے اپنے پسندیدہ مقامات پر نکل جاتے ہیں ، جہاںوہ اپنے دوست واحباب ،یاپھر اپنی فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی اور چین وسکون کی زندگی گزارتے ہیں،بلکہ ایسے موقع پربہت سے لوگ تواپنے عوامی رابطے والے فون/موبائل نمبرتک بندکرکے رکھ دیتے ہیں ،تاکہ کوئی انھیں پریشان(Disturb) نہ کرسکے،کیوں کہ اس وقت انسان جسمانی اورذہنی دونوں اعتبارسے سکون کی تلاش میں رہتا ہے۔

اس وقت ایک انسان کے اندردنیاسے کنارہ کشی کا جذبہ ابھرتاہے اور کچھ دنوں ہی کے لیے سہی دنیاکے بہت سارے جھمیلوں سے دورہوجاتاہے اورایک بچے کی طرح خالی ذہن ہوکر بس اپنی دھن میں مگن رہتاہے ،اگرہم تھوڑی سی توجہ دیں تو اپنی ان چھٹیوں کو بھی درج ذیل طریقے پر روحانی حقوق کی ادائیگی کا ذریعہ بناسکتے ہیں :
۱۔جب ہم میںسےکوئی سیروتفریح کے لیے نکلےتوزیادہ سے زیادہ دینی حقوق کی طرف توجہ دےاور بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انمول ارشادذہن میں رکھے جس میںمومن،مجاہداورمہاجر کی پہچان بتائی گئی ہے،آپ فرماتے ہیں کہ سن لو!مومن وہ ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی جان ومال محفوظ رہیں اورمسلم وہ ہےجس کی زبان وہاتھ سے لوگ سلامت رہیں،مجاہد وہ ہے جو اللہ کی طاعت کے ذریعے اپنے نفس سے جہاد کرے اورمہاجر وہ ہے جو خرافات وگناہوں کو چھوڑدے۔ (مسنداحمد،فضالۃ بن عبیدانصاری)

یعنی بندہ اگر تھوڑی کوشش کرلے تو وہ ایک ہی وقت میں مومن،مسلم،مجاہداورمہاجرکی صفت سے متصف ہوسکتاہے وہ اس طورپرکہ کسی کی جان ومال کو نقصان نہ پہنچائے،بلکہ اس کی حفاظت کا باعث بنے،تووہ مومن ہے۔جب بھی زبان وہاتھ سے لوگوں کو تکلیف دینے کاارادہ دل میں آئے،تواس پر فوراً کنٹرول کرےاورنفس کوقابومیںرکھے،اگراس میں کامیابی مل گئی تو سمجھ لے کہ وہ گناہوںسے بھی بچ گیااوراس کی زبان وہاتھ سےدوسروں کو سلامتی بھی پہنچ گئی ،تووہ مسلم ہے،پھراگر نفس کوطاعتِ الٰہی میں مشغول رکھنے کی کوشش کی اور اُس میں کامیاب بھی ہوگیا،تووہ مجاہدہےاوراگراُسےگناہوں سےنجات بھی مل گئی،تووہ مہاجرہے۔

۲۔ان چھٹیوں کو اوربہترطریقے پر گزارنے کاایک دوسراقابل رشک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کو’’روحانی ٹور‘‘کی شکل دے دی جائے،وہ اس طورپرکہ اللہ تعالیٰ نےسال کے تین سو پینسٹھ دن کی جونعمت ہمیں عطا کی ہے اس کی زکاۃ نکالی جائے۔تین سو پینسٹھ دنوں کا ڈھائی فیصد تقریباً نودن کچھ گھنٹے بنتے ہیں،چنانچہ سال میں کم سے کم دس دن کے لیے تو ضرورکسی تفریحی مقامات پر جانے کے بجائے کسی اہل اللہ کی بارگاہ میں جایاجائے ،تاکہ جسمانی صفائی ستھرائی کے ساتھ قلبی پاکیزگی بھی حاصل ہواور اللہ کے اس حکم پر عمل بھی ہوجائے جس میں فرمایاگیاہے:
اے مومنو!اللہ سے ڈرواورصادقین کے ساتھ رہو۔(توبہ:۱۱۹)
اور گرمی کی چھٹیوں(Summer Vocation)سے بہترموقع ’’روحانی ٹور‘‘کے لیے اورکون ساہوسکتاہے؟

اہل اللہ کی مجلسوں میں جانےاور اُن کی باتیں سننے سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتاہے، بلکہ کبرونخوت ،کینہ وحسداور اخلاقی برائیوںسے نجات بھی ملتی ہے،نیزاللہ کی معرفت کاپتہ بھی یہیںسےملتا ہے۔جس طرح ایک انسان آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے اوراس میں جوکچھ گندگی پاتاہے اُسے صاف کرکےچہرے کو گندگی سے پاک کرتاہے ،ٹھیک اسی طرح اہل اللہ آئینہ ہوتے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: ایک مومن،دوسرے مومن کا آئینہ ہے(اَلْمُؤْمِنُ مِرْأَۃُ الْمُؤْمِنِ)۔ انھیںدیکھ کر انسان اپنے تعلق سے یہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہوجاتاہے کہ وہ اب تک جو زندگی بسرکر رہا تھا وہ صحیح تھی یاغلط ،اگروہ اپنے قلب و ذہن میںکچھ گندگی پاتاہے ، تو اِن اہل اللہ کو دیکھ دیکھ کر اپنے قلب وذہن سے اس گندگی کودورکرتارہتاہےاور اس طرح جب وہ پورے طورپراپنے آپ کو ظاہری اورباطنی اعتبارسے پاک کرلیتاہے توپھر دھیرے دھیرے اس کے قلب میںاخلاص کا پوداجو خواہشات تلے دباہوتاہے،وہ تناوردرخت کی شکل اختیارکرنے لگتاہے اور ایک دن وہ بھی آتاہے کہ تجلیات الٰہی اس کو اپنی آغوش میں لےلیتی ہیں اوراُس کے قلب وجگرمیں معرفت الٰہی کی صبح نمودار ہونے لگتی ہے۔

مزید یہ کہ اہل اللہ کی مجلس میں بیٹھناگویاجنت میں بیٹھناہے ،کیوں کہ ان کی مجالس کو جنت کی کیاریوںمیں سے ایک کیاری قراردیاگیا ہے، اگرکوئی پل بھر کے لیے سہی ،اُن کے پاس چلاجائےاوربس یوںہی اُن کی مجلس میں بیٹھ جائے، تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتاہے،کیوں کہ:
یہ ایسی جماعت ہے جس کے ساتھ بیٹھنے والااِن کی برکتوںسے محروم نہیں رہتا۔(بخاری،باب فضل الذکر)
یوں توجب بھی موقع ملے اہل اللہ کی مجلسوںمیں جانا چاہیے، لیکن بالخصوص تعلیمی وتجارتی اداروںسےملی چھٹیوںکواہل اللہ کی مجلسوں اورمحفلوں میں گزاریں توہم ایک ساتھ کئی نعمتوں کے حقدارہوسکتے ہیں :
۱۔وقت کا صحیح استعمال ۲۔ گناہوںکاخاتمہ ۳۔نیکیوںمیں اضافہ ۴۔ظاہری اورباطنی امراض سے پاکی

۵ ۔روحانی سکون اورقلبی تفریح
کیوںکہ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ’’مجمع البحرین‘‘ہونے کا شرف حاصل ہے،جہاںسےمعرفت الٰہی کا سراغ بھی ملتاہے اور صراط ِمستقیم کے واضح نشانات بھی،جن کے درسے قلبی شفابھی حاصل ہوتی ہے اورآپسی محبت واخوت بھی،جن کی صحبت میں دلوں کوخوشی بھی ملتی ہے اور روح کو تسکین بھی،جو بیک وقت مسیحائی کا فریضہ بھی انجام دیتےہیں اورخضر وقت بن کر نفس کشی کی اہم ذمے داری بھی نبھاتے ہیںاوریہ کہنے میںحق بحانب ہوتے ہیں:؎
ہر طالبِ صادق کے لیے بے شک و شبہ
تا جلوہ گہ ناز میں اک سیدھی سڑک ہوں

اس لیے عوامی مقامات پر سیروتفریح کے لیے جانے سےبہترہے کہ اہل اللہ کی مجلسوںکا رخ کیاجائے ،تاکہ اللہ ورسول سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہو،قلبی سکون میسرہو،دل سےکبرونخوت دورہو،آپسی الفت ومحبت بڑھے،نفس امّارہ (شیطانیت)کاخاتمہ ہو، نفس مطمئنہ(روحانیت) حاصل ہو اوردنیاکوآخرت کی کھیتی بنانے کاہنرسیکھاجاسکے۔

آج بھی خانقاہیں ملکی سطح پر سمرکلاسیز
(Summer Classes)کا اہتمام کرتی ہیں جن کا مقصد طلباوعوام کو دینی معلومات سے آگاہ کرنااوراُن میںروحانی بیداری لاناہوتاہے،چنانچہ ایسی خانقاہوںمیں جاکر ،یا وہاں کے ذمے داروں سے رابطہ قائم کرکے ان کورسیز سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیاجاسکتاہے۔(مدیرماہنامہ خضرراہ الہ آباد
 
Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 52239 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More