زندہ لوگوں کی پہچان

وقت ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتا ہے اس کی لگام اگر ہاتھ سے نکل جائے تو پھر یہ قابو میں نہیں آتا اور تیز رفتاری سے سب کو اپنے پاوں تلے روندتا ہوا چلا جاتا ہے ۔اور اگر اس کی لگام قابو میں آجائے تو پھر یہ ایسا مریض بن جاتا ہے کہ اس سے جو مرضی کام کروا لو یہ غلام کی طرح ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا ہے ،وقت کو اگر قابو نہ کیا جائے تو یہ انسان کو اپنا غلام بنادیتا ہے آج وہ لوگ ،وہ ملک جو غلام ہیں اصل میں انہوں نے وقت کی لگام کو ٹھیک طرح سے نہیں پکڑا،وقت کو غلام بنانے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں ،آج میری ایسے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جس نے اپنے وسائل ،ماحول اور حالات میں رہتے ہوئے وقت کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے نہیں جاننے دیا بہت سے مسائل کے باوجود بھی اس نے اسے قابو میں رکھا اور آج وہ اپنے حلقہ احباب ،ماحول معاشرے میں عزت کی زندگی نہ صرف گزار رہا ہے بلکہ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش ہے ،میں ان کو زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں ،یہ الگ بات ہے کی قریبی مراسم نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ ملنا جلنا نہ تھا ،آج جب میں ان سے ملا تو بڑی خوشی ہوئی ان سے سیر حاصل گفتگو ہوئی بلکہ بہت سی ایسی معلومات بھی ملی جو ایک اچھے کامیاب انسان کی پہچان ہوتی ہے یہ شخص کوئی دور کا نہیں بلکہ باغ کے ایک صحت افزا اور سیاحتی مقام سدھن گلی کا رہائشی سردار عاشق خان ہے جو ایک پرائیویٹ بینک میں اچھے عہدے پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں یہ ان کی کامیابی نہیں بلکہ ان کی اصل کامیابی وہ فلاحی کام ہیں جو یہ بلا کسی لالچ اور غرض سے کرتے ہیں ۔دوہزار پانچ کے زلزلے کے بعد ان کے علاقے سدھن گلی میں باقی تباہی کے ساتھ سکول بھی تباہ ہو گئے تھے اگر کوئی ایک آدھ پرائیویٹ سکول تھا بھی تو وہ ہاں سے کچھ مسائل اور حالات کی وجہ سے منتقل کر دیا گیا تھا جس سے نہ صرف عوام علاقہ کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو رہا تھا بلکہ وہاں کے چھوٹے بچے جو دور دراز کے علاقوں میں نہیں جا سکتے تھے مکمل طور پر تعلیم سے محروم راہ گئے تھے ۔یہ گاؤں سیاحت ،صحت افزا،مقام ہونے کے ساتھ ساتھ باغ اور مظفرآباد کے سنگم میں ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔سردار عاشق خان نے جب یہ دیکھا کہ ان کے علاقے کے بچے ،قوم کا مستقبل ،تباہ ہو رہا ہے تو انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک نرسری سکول کی بنیاد رکھی ،جس میں وہ بچے جو سردی میں یا عام حالات میں زیادہ دور نہیں جا سکتے تھے ان کو تعلیم کی سہولت فراہم کی،وقت اور حالات کی مشکلات کا سامنا کرتے رہے کٹھن دور میں بھی ہمت اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑاان کا یہ سفر جاری رہا وہاں سے بچے ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ،وہ اس قابل ہو جاتے کہ وہ دور کے علاقے میں جا سکتے ہیں ،وقت بھی ضائع نہیں ہوا اس طرح تعلیم کا انمول تحفہ یہ بچوں کو دیتے رہے،اور آج وہ پرائمری سکول مڈل سکول کا درجہ رکھتا ہے ہاں پر آج نہ صرف نرسری بلکہ ساتویں ،آٹھویں کلاس تک پڑھایا جاتا ہے اور ساتھ دینی تعلیم بھی بچوں کو دی جاتی ۔اگر کوئی کمی ہے تو وہ وسائل کی ہو سکتی ہے تعلیم،نظریے ،جذبے اور ہمت کی نہیں موسم کی ہر سختی کو برداشت کر کے اس فلاحی کام میں مصروف ہیں۔سردار عاشق خان کی تعلیمی لگاو اور دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے سکول کے اساتذہ کو ہر اس تعلیمی سر گرمی میں پارٹی سپیٹ کرواتے ہیں یہاں سے اساتذہ کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ،اور ان کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے سکول میں بھی ایسی ورک شاپس کروائی جائیں جن سے بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی صلاحتیں ابھر کر سامنے آئیں تاکہ یہ معاشرے کے مفید اور کامیاب انسان بنیں۔ان کی یہ کاوش،سوچ،خیال،اس لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے کہ انہوں نے دولت کے اس مقابلے کے دور میں یہاں ہر شخص بزنس یعنی پیسہ کمانے کے چکر میں ہوتا ہے اس نظریے کو لات مار کر فلاح و بہبود کے نظریے کو فروغ دیتے ہوئے عوام علاقہ کو بلا امتیاز تعلیم کے زیور سے آرستہ کر رہے ہیں ۔سردار عاشق خان کی ان کوششوں کو سراہتے ہوئے میں اور بھی بہت سے لوگوں کے ضمیر کو آواز دونگا کہ وہ بھی معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے ہمیشہ افراد کے بل بوتے پر چلتے ہیں افراد کی مثبت سوچ خطے میں تبدیلی لاتی ہے ۔ایسے لوگ قوم و ملک کا قیمتی سرمایا ہوتے ہیں،دنیا میں اقوام کی ترقی میں سکول کا قلیدی کردار ہے یہی وہ ماں کی گود کے بعد ابتدائی ادارہ ہے جو قوم و ملک کی تقدیر سنوارتا ہے ۔سکول ،اساتذہ، ان کا نظم و ضبط،ان کا طریقے کار معاشرے کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے ،سکول بلا تفریق ایک نسل کی پروش ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی شخصیت کی خراش تراش کر کے اس کوآنے والے وقت کی باگ دور سنبھالنے کے قابل بناتا ہے یہ بچے سفید ،یا کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں ان کے ذہن میں ایک بار جو چیز لکھ دی جاتی ہے وہ پھر مٹتی نہیں اس لئے ان پر لکھنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ کیا اور کیسے لکھا جائے اور یہ کام استاد کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو کیسی نسل دیتا ہے ۔اس لئے ان معصوم بچوں کو کار آمد بنانے کے لئے انہیں گھر کا نہیں بلکہ قوم و ملک کا بچہ بنانے کے لئے ان کو رٹے اورڈنڈے کے خوف سے آزاد کر کے ان کی ذہانت کو کھول کر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک بنایا جائے۔آج اگر ہم بچوں کو گھر میں، سکول میں، خوف کا ،ڈر کا، اور محدود سوچ کا، ماحول دے کر ان سے یہ امید بھی رکھے کہ یہ قوم و ملک کا نام روشن کریں ممکن نہیں آج بچہ سکول میں ہے کل وہ کالج اور یونیورسٹی کا طالب علم ہوگا بچے وہی اگے جاتے ہیں جو خود سے کچھ کرنے کی کچھ سوچنے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں بھیڑ چال چلنے والے رٹ کر اچھا ،یاد، تو کر لیتے ہیں وہ اپنی ذات کی حد تک ٹھیک ہوتے ہیں مگر مقابلے کی دوڑ میں وہ پیچھے راہ جاتے ہیں ،ہمارا تعلیمی نظام بھی فرسودہ ہے ہمیں خود سے تبدیلی لانی چاہئے۔سردار عاشق ان اصولوں کو جاری رکھے ہوئے اپنے مشن کو چلا رہا ہے۔یہی زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69584 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.