مصیبت خان بمقابلہ ہیبت خان

ہمارے محلے میں ایک آدمی رہتا تھا جو ہر ایک سے لڑتا تھا ۔اصل نام تو کچھ اور تھا ہم نے فرضی نام مصیبت خان اس لیے رکھا ہے وہ محلے میں ہر ایک کے لیے ایک طرح سے مصیبت ہی تھا ۔ویسے وہ پانچوں وقت کا نمازی بھی تھا لیکن اس کی بدمعاشی سے سب لوگ ڈرتے بھی تھے اور پریشان بھی رہتے تھے ۔چونکہ وہ 14سال پولیس ڈیپارٹمنٹ میں رہ چکا تھا بلکہ وہ خراب کارکردگی کی وجہ سے نکالا جاچکا تھا اس سے آپ اس کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ،مسجد میں اگر کسی بچے نے کوئی حرکت کی جیسا عام طور سے بچے کرتے ہی ہیں یہ ان کو اتنی زور سے مارتا تھا کہ بچے بلبلا کر رہ جاتے تھے گھر کے لوگ شکایت کرنے آتے تو یہ ان سے بھی لڑتا تھا کوئی زیادہ منہ کو آتا تو اپنے بچوں کے ساتھ ان کی پٹائی بھی کردیتا تھا ،چونکہ پولیس میں اس کی جان پہچان تھی اور مخالفین کو کس طرح جھوٹے مقدمات کے چکر میں پھنسایا جا سکتا ہے ان تمام ٹیکنک سے وہ اچھی طرح واقف تھا اس لیے اس سے ہر کوئی بچنے کی کوشش کرتا تھا محلے والے بظاہر تو اس کی عزت کرتے تھے لیکن اس کے شدید مخالف تھے اگر کوئی فرد یا خاندان ایسا نکل کے آجاتا جو اس سے اس ہی کی زبان میں بات کرتا اور اس سے بھر پور مقابلہ کرتا تو مصیبت خان مقابلے سے پیچھے ہٹ جاتا اور اس کو پھر اپنا دوست بنالیتا اس کی ساری ہیکڑی اپنے سے کمزوروں پر چلتی تھی ۔اتفاق سے اس محلے میں ایک شخص ایسا آگیا جو مصیبت خان کے ٹکر کا تھا اس کا نام کچھ اور تھا ہم نے فرضی نام اس کا ہیبت خان رکھا ہے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ایم کیو ایم قائم نہیں ہوئی تھی ،اس لیے کہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد محلوں کی چھوٹی چھوٹی بدمعاشیاں بھی ختم ہو گئیں اور بدمعاش بھی ختم ہو گئے۔مصیبت خان اور ہیبت خان کی آئے دن لڑائیاں ہوتی تھیں اور محلے والوں کی اخلاقی ہمدردیاں ہیبت خان کے ساتھ ہوتیں اور جب مصیبت خان کی پٹائی ہوتی تو محلے کے لوگ بہت خوش ہوتے ۔ اس لیے کہ ہیبت خان اکڑو بھی تھا اور میدان پکڑو بھی ۔اس زمانے میں جھگڑوں کی ابتدا زبانی منہ ماری پھر گالم گلوچ سے ہوتی جو آگے بڑھ کر ہاتھا پائی اور لاٹھی ڈنڈے تک پہنچ جاتی اس لڑائی کی آخری حد چاقو کا استعمال ہوتا ۔پسٹل ، ریوالور یا بندوق کے استعمال کا کوئی تصور نہیں تھا حالانکہ مصیبت خان کے پاس لوگوں نے دیکھا تھا کہ پسٹل ہے اور وہ اس کو بوقت ضرورت اپنے ساتھ لگا کے بھی رکھتا تھا ،لیکن محلے میں اس نے جتنے بھی جھگڑے کیے کبھی پسٹل استعمال نہیں کی ۔مصیبت خان اور ہیبت خان کی لڑائی کی خاص بات یہ ہوتی کہ ان دونوں میں کہیں بھی اور کسی بھی بات پر کوئی جھگڑا ہوتا یہ دونوں یہ کوشش کرتے کہ پہلے ہم تھانے پہنچ جائیں اور اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروادیں ایک دفعہ مصیبت خان اور اس کے لڑکوں نے ہیبت خان کو اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہو کر اسپتال جا پہنچا تھوڑی دیر میں پولیس آگئی اس کو گرفتار کرنے کے لیے زخمی حالت میں وہ پولیس کے پہرے میں رہا اس لیے کہ جھگڑے کے بعد مصیبت خان جو خود بھی تھوڑا بہت زخمی ہوا تھا سیدھے تھانے پہنچا اور ہیبت خان کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرادیا ہیبت خان کی ضمانت ہوگئی اور یہ کیس چلتا رہا ہیبت خان نے اپنا بدلہ اس طرح لیا کہ ایک دن جب عدالت میں پیشی تھی مصیبت خان بھی آیا ہو تھا ہیبت خان نے بھری عدالت میں جج کے سامنے مصیبت خان پر چاقوسے پے درپے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا مصیبت خان مضبوط اور توانا شخص تھا اس لیے وہ بچ گیا لیکن اس واقع کی بڑی دھوم مچی اور پورے محلے میں ہیبت خان کا نام ہو گیا اور مصیبت خان پر ایک قسم کی بہت عرصے تک اس کی ہیبت بھی قائم رہی کہ صرف چھ ماہ بعد ہیبت خان اس کیس سے رہا ہو کر آگیا تھا پولیس موقع کا کوئی گواہ پیش نہ کرسکی اس کے بعد بہت عرصے تک محلے میں امن قائم رہا ۔ اس قصے میں اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ جھگڑا کر کے پہلے تھانے پہنچ کر اپنا مقدمہ درج کرانے کی کوشش کرتے تھے۔یہ واقعہ مجھے نئی دہلی میں نواز ومودی ملاقات کے موقع پر نریندر مودی کی طرف سے پاکستان سے پانچ مطالبات کرنے کے حوالے سے یاد آیا کہ جن کی اپنی آستینوں سے گجرات کے دوہزار معصوم مسلمانوں کا لہو ٹپک رہا ہو جنھوں نے کشمیر میں ہزاروں نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہو جنھوں نے بابری مسجد شہید کی ہو جو یہ کہتے ہوں کہ مجھے مسلمان کے مرنے کا اتنا ہی افسوس ہوتا ہے جتنا ایک کتے کے پلے کے مرنے کا ہوتا ہے جو اپنے ان عزائم کا برملا اظہار کرتے ہوں کہ ہندوستان میں ہندو بن کے رہنا ہوگا وہ بیٹھتے ہی اپنا مقدمہ پہلے درج کراتے ہیں کہ پاکستان بمبئی حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دے جب کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے شہیدوں کا لہو آج بھی فریاد کررہا ہے کہ ان کے قاتلوں کو سزائیں دی جائیں جو خود عادی مجرم ہیں وہی بے قصوروں کیخلاف ایف آئی آر کٹوا رہے ہیں جو قاتل ہیں وہ مقتولوں کے اور جو ظالم ہیں وہ مظلوموں کے خلاف تھانے میں رپٹ لکھا رہے ہیں ۔بہت سارے تجزیہ نگار اس مرحلہ پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف پر شدید تنقید کررہے ہیں کہ انھیں اس کا جواب دینا چاہیے تھا اور انھیں بھی کشمیر کا مسئلہ گجرات کے ہندو مسلم فسادات کا اور بابری مسجد کا مسئلہ اٹھانا چاہیے تھا ۔میرے خیال میں نواز شریف صاحب نے نریندر موری کے مطالبات کے نکات پر کوئی بات کرنے اور جوابی مطالبات رکھنے کے بجائے مستقبل میں مذاکرات کے کانٹوں بھرے راستوں کو صاف کرنے کے حوالے سے تلخیوں کو بھلانے کی بات کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کو اس پہلو سے بھی دیکھیں کہ شکایت شکست کا دوسرا نام ہے بمبئی واقع میں انڈیا کی تمام ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی کھل کر سامنے آگئی اس لیے وہ اس کی شکایتیں کرتے پھر رہے ہیں ۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مطالبات ہمیشہ کمزور لوگ طاقتوروں سے کرتے ہیں ایک ارب سے زائد ٓابادی والے ملک کے سربراہ نے اپنے سے پانچ گنا کم آبادی رکھنے والے ملک کے سربراہ سے مطالبات کر کے اپنی کمزوری کا اظہار کیا ہے ۔پاکستان نے ان مطالبات پر کوئی توجہ نہ دے کر پوری دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کے نزدیک ان مطالبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس سارے تناظر میں ہمیں بھارت کا کردار اپنے محلے کہ مصیبت خان کے مانند لگتاہے جو اپنے پڑوسی ممالک کے لیے ایک مستقل مصیبت ہے اور پاکستان کا کردار ہیبت خان کے مانند ہے جس کی ہیبت سے مصیبت خان ایک ایسے انجانے خوف کا شکار ہے جو اسے اٹھتے بیٹھتے چین نہیں لینے دیتا۔ہندوستان کے موجودہ انتخابات اوراس کے نتائج اسی ہیبت کی نشاندہی کررہے ہیں -
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.