پاکستان کا مٹاپے میں عالمی ریکارڈ دنیا میں نواں نمبر

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباً 19 فیصد مرد اور 25فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ تعداد 2015 تک مردوں میں 27 اور خواتین میں 34فیصد ہوجائے گی۔

کہاں کی غربت اور کہاں کی بھوک ، پاکستان نے تو اب ایک اور ریکارڈ قائم کردیا ہے ، یعنی مٹا پے میں بھی ہم نویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ دنیا کے ہر تیسرے بالغ اور ہر چوتھے بچے کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہونے سے صحت عامہ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔صحت عامہ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موٹاپا لوگوں کی صحت کے لیے سگریٹ سے بھی بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ عالمی ’فوڈ انڈسٹری‘ کو بھی تمباکو کی صنعت کی طرح کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔اس بارے میں تحقیق کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سہ 2005 میں موٹاپے اور وزن کی زیادتی کی وجہ سے 26 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ پانچ سالوں میں یعنی سنہ 2010 تک یہ تعداد بڑھ کر 34 لاکھ ہوگئی۔شائداسی وجہ سے اب ڈاکٹر ااور محقیقین یہ سراغ لاگا رہے ہیں کہ مٹاپے کی وجوہات کیا ہیں۔ ’لانسیٹ‘ نامی طبی جریدے میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوئیشن ادارے کے محققوں کی ٹیم نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں دو ارب سے زیادہ افراد مجموعی طور پر یا موٹے ہیں یا پھر معمول کے وزن سے زیادہ ہیں۔اس تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1980 کے بعد سے کوئی بھی ملک اس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے عصر حاضر میں عوامی صحت کو درپیش مسائل کا اب تک کا جامع مطالعہ کیا ہے جو سنہ 1980 اور 2013 کیدرمیان 188 ممالک سے حاصل کیے جانے والے اعدادو شمار پر محیط ہے۔ مٹاپے کے بارے میں عام طور پر اب تک اس کا تعلق کھاتے پیتے خوش حال گھرانوں سے سمجھا جاتا تھا لیکن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے موٹے لوگوں میں سے 62 فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک میں ہیں۔چین دوسرے نمبر پر ہے تو بھارت تیسرے نمبر پر۔ جب کہ موٹاپے سے متاثر ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر جبکہ امریکہ نمبر ایک پر ہے۔ روس چوتھے، برازیل پانچویں، میکسیکو چھٹے، مصر ساتویں، جرمنی آٹھویں، اور انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کویت، لیبیا، قطر اور سماؤ میں 50 فی صد سے زیادہ خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سستے، چربی دار، میٹھے، نمکین اور زیادہ کیلری والے جنک فوڈ اور آرام طلب طرز زندگی سے بڑھتا ہے۔یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ آف ہلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوئیشن کے ڈائرکٹر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے کہ ’موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر عمر اور آمدنی کے لوگوں کو دنیا بھر میں متاثر کر رہا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔‘انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر عوامی صحت کے اس بحران کے تدارک کے لیے فوری طور پر اقدام نہیں کیے گئے تو کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں آمدنی میں اضافے کے ساتھ اس میں متواتر اضافہ ہوگا۔‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن والے لوگوں کو ہمیشہ دل کی بیماریوں، کینسر، ذیابیطس، گٹھیا اور گردے کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے موٹاپے میں اضافے سے ان عارضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے ہیلتھ کیئر نظام بڑے دباؤ میں ہے۔اس تحقیق کے مصنفوں کا کہنا ترقی یافتہ ممالک میں ایک چوتھائی اور ترقی پذیر ملکوں میں 13 فی صد بچے زیادہ وزن یا موٹے کی قطار میں کھڑے ہیں۔ سنہ 1980 میں یہ شرح 16 اور آٹھ ہوا کرتی تھی۔

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں یہ رجحان مشرق وسطیٰ کے ممالک اور شمالی افریقی ممالک میں نظر آتا ہے اور بطور خاص لڑکیوں میں زیادہ ہے۔امریکہ میں 13 فی صد بچے موٹے ہیں اور اگر معمول سے زیادہ وزنی بچوں کا شمار کیا جائے تو یہ شرح 30 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔موٹاپے کی جانب مائل خواتین کی شرح سب سے زیادہ مصر، سعودی عرب، عمان، ہونڈوراز اور بحرین میں ہے تو مردوں میں یہ رجحان سب سے زیادہ نیوزی لینڈ، بحرین، کویت، سعودی عرب اور امریکہ میں ہے۔صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے سنہ 2025 تک موٹاپے کی جانب مائل اس رجحان پر روک لگانے کا ہدف رکھا ہے جس کے بارے میں اس نئی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہدف انتہائی حوصلہ مندانہ ہے اور بغیر مجموعی کوششوں اور مزید تحقیق کے اس کا حصول ناممکن ہے۔‘رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک مقابلے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، وسطی امریکہ، بحرالکاہل کے ممالک اور کریبیائی جزائر میں موٹاپے کی جانب تیز میلان جاری ہے۔عالمی سطح پر موٹاپے کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے حوالے سے برطانوی محققین نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ لگ بھگ تیس برس کے عرصے میں ترقی پذیر دنیا میں فربہ افراد کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ترقی پذیر ممالک میں وزنی یا فربہ افراد کی کل تعداد تقریباً ایک ارب تک جا پہنچی ہے۔'اوورسیز ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ ' کی جائزہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک شخص وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہے لیکن گذشتہ تین دہائیوں میں امیرملکوں کے مقابلے میں غریب ممالک میں وزنی اور موٹے افراد کی تعداد میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دنوں برطانوی روزنامہ دی گارڈین نے فیوچر ڈائٹ نامی رپورٹ میں 1980 کی دہائی سے 2008 کے دوران دنیا بھر کے لوگوں کے کھانے پینے کے اعداد و شمار پر مبنی ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پچھلے برسوں میں ترقی پذیر ممالک میں موٹاپا کسی وبائی مرض کی طرح پھیلا ہے اور 2008 کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ نسبتاً خوشحال ممالک میں 25 ماس انڈیکس سے زیادہ رکھنے والوں کی تعداد 904 ملین تک جا پہنچی ہے جبکہ 1980 میں کم ترقی یافتہ ملکوں میں فربہ افراد کی تعداد 250 ملین بتائی گئی تھی اس کے برعکس بلند آمدنی رکھنے والے ممالک میں وزنی یا فربہ افراد کی کل تعداد 557 ملین ہے۔ریسرچ کے مصنف اسٹیو ویگنز نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ وزن اور موٹاپے کی بڑھتی ہوئی شرح خطرناک ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔لوگوں کے کھانے پینے کے موجودہ رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ، عالمی سطح پر کئی موذی امراض مثلا کینسر کی بعض اقسام، ذیا بیطس، ہارٹ اٹیک اور اسٹروک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔" ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ موٹاپے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن خوراک کا انسان کی صحت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پرجن ممالک کے متوسط طبقے کی شہری آبادی کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے وہ اپنی من پسند خوراک کھانا پسند کرتے ہیں جو زیادہ تر فاسٹ فوڈ پر مشتمل ہوتی ہیں اسی طرح اشتہارات کی بھر مار نے لوگوں کو وقت بچانے اور جلد تیار ہوجانے والی ایسی ریڈی میڈ چیزیں کھانے کی طرف مائل کر دیا ہے جن میں نشاستہ اور چربی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ نشاستہ اور چکنائی کا استعمال آہستہ آہستہ لوگوں کو موٹاپے کی جانب دھکیل رہا ہے۔اس تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اگرچہ 1980 سے 2008 کے دوران موٹاپے کی شرح میں 23 فیصد سے 34 فیصد کا اضافہ نظر آیا ہے لیکن دنیا بھر میں فربہ افراد کی تعداد میں سب سے بڑا اضافہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ہوا جہاں موٹاپے کی شرح کا گراف 7 فیصد سے 22 فیصد تک جا پہنچا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انفرادی طور پر فربہ ممالک میں موٹے افراد کی اکثریت خاص طور پر ایسے ممالک میں نظر آئی جہاں آمدنیوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں چین اور میکسیکو سر فہرست ہیں جہاں اس عرصے میں موٹے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا، اسی طرح مشرق وسطی کی زیادہ تر ریاستوں میں تیس برس کے دوران موٹاپے کی شرح میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے.مثلا شمالی امریکہ میں اب بھی بالغ فربہ افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی 70 فیصد ہے اس کے علاوہ 64 فیصد برطانوی شہریوں کو وزن کی ذیادتی یا موٹاپے کا شکار بتایا گیا ہے۔کنسیومرز انٹرنیشنل اور ورلڈ اوبیسٹ فیڈریشن تو موٹاپا بڑھانے والی غذاؤں پر پابندی لگانے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ کھانے کے پیکٹوں پر موٹاپے سے جسم کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ویسے ہی اشتہار شائع ہونے چاہییں جیسے سگریٹ کے پیکٹ پر ہوتے ہیں۔ یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتوں کو اشیائے خورد و نوش پر لازمی اصول لاگو کرنے چاہییں۔ ایسے نئے قوانین کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس میں کھانے کی چیزوں میں نمک، چربی اور چینی کی سطح میں کمی لانے، ہسپتالوں اور سکولوں میں فراہم کیے جانے والے کھانے کے معیار کو بہتر بنانے، اشتہارات پر سخت کنٹرول اور لوگوں کو اس بارے میں آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ مصنوعی ’ٹرانس فیٹ‘ کو آئندہ پانچ سال کے اندر اندر تمام کھانوں اور مشروبات سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ٹی وی پر بچوں کے لیے بنائے گئے پروگراموں کے دوران ’جنک فوڈ‘ کے اشتہارات پر پابندی ہونی چاہیے۔ورلڈ اوبیسٹی فیڈریشن کی ڈاکٹر ٹم لبسٹین کا کہنا یہ ہے کہ ’اگر یہ کوئی متعدی بیماری ہوتی تو اسے روکنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہوتی۔‘لیکن چونکہ موٹاپا چربی اور چینی والے کھانوں کے استعمال سے ہوتا ہے اس لیے پالیسی ساز کارپوریٹ اداروں کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سلسلے میں اقدامات کرنے کے خواہش مند نہیں نظر آتے۔‘مسٹر ویگنز نے حکومتوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فاسٹ فوڈ اور موٹاپا پیدا کرنے والی خوراک میں چربی کی مقدار کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بالکل ویسے ہی اقدامات کرنے چاہیئں جیسے سگریٹ نوشی کے خلاف کئے گئے ہیں موٹاپا جہاں کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے وہیں ایک حا لیہ تحقیق کے مطابق موٹے افراد میں ذہانت کی سطح بھی دبلے افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ فرانسیسی طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق جیسے جیسے جسمانی وزن بڑھتا ہے آ ئی کیو کی سطح کم ہو تی جا تی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے کے باعث جسم میں چربی جمع ہوجاتی ہے جس سے ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو سوچنے سمجھنے والے ہارمونز کی کارکردگی کو سست کردیتے ہیں جبکہ مو ٹاپے کے باعث دماغ کو خون پہچانے والی رگوں میں بھی چکنائی جم جاتی ہے جو دماغ کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔کچھ لوگ مو ٹا پا کم کرنے کے ورزش کو بہترین حل تصور کرتے ہیں۔ لیکن یہ کیا کہ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ زیا دہ ورزش سے معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے۔ برطانوی غذائی ماہر زوئے ہرکومب نے اپنی کتا ب میں خوراک اور ورزش سے متعلق مو جو د عام تصور کو یکسر طور پر رد کرتے ہوئے نئے انکشافات کیے ہیں۔ زوئیکے مطابق بہت زیا دہ ورزش کر نا بھی موٹا پے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ زیادہ ورزش کرنے سے بھو ک زیادہ لگتی ہے اور خورا ک میں اضا فہ ہو جا تاہے۔ زوئے نے اپنی کتا ب میں یہ بھی لکھاہے کہ گو شت کااستعما ل پھلوں سے زیا دہ فائدہ مند ہے کیونکہ پھلوں میں مو جو د چینی جسم میں جا کر چکنا ئی کے طور پر جمع ہو جا تی ہے جبکہ گو شت میں مو جود وٹامن اور منرلز جسم کے لیے نہا یت فا ئدہ مند ہیں۔ کتا ب میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ عام تصو ر کے بر عکس نشا ستے کا زیا دہ استعمال بھی موٹا پے کا با عث بن سکتا ہے۔ہمارے ماہرین بھی اس بارے میں لوگوں اکو متنبہ کرتے ہیں ، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم(آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوھدری کا اس بارے میں کہنا ہے کہ صحت مند انسان کے لئے مٹاپے کا مرض ایک چیلنج ہے، دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مٹاپے کا مرض خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے، دس مہلک امراض میں سے پانچ کا تعلق موٹاپے سے ہے۔جس میں امراض قلب، شوگر، ہائی بلڈ پریشر، فالج، مثانے سے متعلق امراض،سانس کے امراض، کینسر و دیگر امراض بھی شامل ہیں، پاکستان میں مٹاپے کی وجہ شہری علاقوں میں کولیسٹرول والے کھانوں کا کثرت سے استعمال اور ورزش نہ کرناہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباً 19 فیصد مرد اور 25فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ یہ تعداد 2015 تک مردوں میں 27 اور خواتین میں 34فیصد ہوجائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 40کروڑ افراد زائد وزنی ہیں۔ ماہرین مٹاپے سے نجات کے لیئے کہتے ہیں کہ طرز زندگی میں تبدیلی وزن میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔ کولڈ ڈرنک کا بہترین متبادل لیموں پانی اور لسی ہو سکتی ہے۔ فائبر فوڈ یعنی دالوں، کچی سبزیوں اور پھلوں کا غذا میں استعمال شامل کرنے سے بھی وزن کی زیادتی رک سکتی ہے۔ جبکہ اسپغول کی بھوسی کا دن میں ایک مرتبہ استعمال بھی وزن کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ کم از کم 20 منٹ کی واک اور ایکسرسائز ضروری ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اشتہاری دواؤں سے وزن کم کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جو مختلف بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور دوائیں روک دینے کے بعد وزن ڈبل بھی ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق وزن کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھانا کم کھائیں اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے کھائیں، یعنی ناشتے، دوپہر یا رات کے کھانے کے دوران اگر بھوک لگے تو سلاد یا پھل کھالیا جائے لیکن شرط یہی ہے کہ ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا سادہ اور کم کھائیں۔ سبز چائے کا استعمال کریں جو اگر وزن کم نہیں کرتا تو اسے بڑھنے بھی نہیں دیتا۔ برطانیہ کے دنیا مین فربہی کے لحاظ سے سب سے زیادہ شرح کے حامل ہونے کے باوجود ہیلتھ سروس کا ردعمل ناکافی ہے۔ رائل کالج آف فزیشنز والے کہتے ہیں کہ برطانیہ میں بہت سارے ڈاکٹر اور نرسیں اس قدر موٹی ہیں کہ ان مریضوں کے لئے جن کی فربہی کا وہ علاج کر رہے ہیں۔ مثال قائم کرنا ناممکن ہے۔ برطانیہ میں تقریباً 25 فی صد آبادی موٹی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی والٹ ڈزنی نے کہا ہے کہ وہ اپنے ٹیلی ویڑن، ریڈیو اور آن لائن پروگراموں میں ’جنک فوڈ‘ یعنی بازاری کھانوں کے اشتہارات پر پابندی لگائے گی۔کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے بچوں میں موٹاپے کے روز افزوں مسائل سے نمٹنے کے لیے یہ نیا معیار قائم کرنا چاہتی ہے۔لیکن یہ نئے ضابطے سن دو ہزار پندرہ سے قبل نافذ نہیں ہوں گے۔امریکہ میں جنک فوڈ‘ اور میٹھے مشروب بنانے والی کمپنیاں سالانہ ایک ارب ڈالر بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں ۔ڈزنی کے مطابق ایسے کھانے جس میں دس گرام سے زیادہ شکر ہوگی یا ایسا کھانا جس میں چھ سو سے زیادہ کیلوریز ہوں گی وہ اس کی تشہیر نہیں کرے گی۔پاکستان کو بھی اب خطرے کی گھنٹی کا احساس ہونا چاہیئے۔اور اپنے شہریوں کو صحت مند کھانوں کی جانب راغب کرنا چاہیئے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387848 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More