انسانی فطرت

سپریم کورٹ میں ایک نجی ٹی وی چینل کے بارے میں کیس کی سماعت کے دوران وکیل صفائی نے محترم جواد ایس خواجہ جو سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج ہیں کی توجہ اسلام آباد میں ان کے خلاف لگنے والے بینروں کی طرف دلائی اور درخواست کی کہ بینر لگانے والوں کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ ایک انتہائی ذہین اور زیرک جج ہیں۔ انہوں نے درخواست گزر کی زبانی درخواست کو رد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان بینروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عزت اور ذلت اﷲ کے اختیار میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی کو شکایت ہے تو تحریری درخواست دے۔

جناب جسٹس جواد ایس خواجہ انتہائی با صلاحیت جج ہیں۔ جنہیں قانون سے کھیلنے پر پورا عبور ہے اور وہ قانون کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی جانتے ہیں جو زبانی درخواست کرنے والے وکیل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ توہین عدالت کی کارروائی اس شخص کے خلاف ہو سکتی ہے جو عدالت کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرے۔ کسی فیصلے کو نہ مانے یا عدالت کے کسی فیصلے پر غیر ضروری تنقید کرے مگر ایک جج، جج ہونے کے علاوہ ایک عام آدمی بھی ہوتا ہے جس سے عام آدمی کے طور پر کوئی غلطی بھی سرزد ہو سکتی ہے اور عام آدمی ایسی صورت میں بتکِ عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ توہین عدالت کا نہیں۔

گو عزت اور ذلت اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کو اندازہ ہے کہ اس قسم کی باتوں کا جس قدر بھی برا منایا جائے ذلت کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے چپ رہنا ہی بہترین علاج ہے۔ ویسے بھی اگر وہ کوئی قدم اٹھاتے تو پنڈورہ بکس جو پہلے ہی کھلا ہے، مزید کھل جاتا۔ دیوان گروپ والے دیوان ضیا کا ذکر بھی آتا جو سنا ہے کہتے ہیں کہ جب تک جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر نہیں ہوتے وہ پاکستان نہیں آئیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ انصاف ان کا دشمن ہے اور انہیں نقصان پہنچائے گا۔ لوگ دیوان ضیاء اور ان کی بہن کے خاندانی جائیداد کے تنازعے کا ذکر بھی کریں گے۔ دیوان ضیا کی بہن کی میر شکیل الرحمن اور جسٹس جواد ایس خواجہ سے کیا رشتہ داری ہے اس کا ذکر بھی چھڑ جائے گا۔ اس لئے چپ رہنا بہت سے مسائل کا حل ہے۔ عزت اور ذلت کے حصول میں انسان کے اپنے کرموں کا بھی بہت دخل ہوتا ہے اور یہ کرم مجبور کرتے ہیں کہ انسان اﷲ سے بھی اور انسانوں سے بھی ڈر کر ہی رہے۔

28-09-2012 کو ریٹائر ہونے والے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ایس ایچ کپاڈیہ انتہائی درویش صفت اور اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے ابتدا ایک درجہ چہارم کے ملازم کے طور پر کی اور مسلسل محنت اور جانفشانی کے سبب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اپنی ذات کے حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا کو انتہائی وقار بخشا۔ وہ عوامی جگہوں اور میڈیا میں جانے سے کتراتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں میڈیا سے پیار کرنے والے جج خود نمائی کا شکار ہوتے ہیں وہ انصاف کا بھلا نہیں کرتے بلکہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ مارچ 2011؁ء میں انہوں نے ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے اقرار کیا کہ جج اپنی پسند اور ناپسند کو معاشرے میں تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ججوں کو ایک خاص مقام سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے اور خصوصاً عوامی جگہوں پر جانا اور وہاں بات چیت نہیں کرنا چاہیے۔

جناب جسٹس کپاڈیہ کا یہ کہنا بہت ٹھیک ہے۔ انسانی فطرت متعصب ہے اور تعصب سے بچنے کے لئے خود کو امتحان میں ڈالنا۔ یہ کام عام آدمی کو بھی نہیں کرنا چاہئے مگر ججوں کو تو اس راہ کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہئے۔ جج کا یہ کہنا کہ وہ انصاف کرتے وقت اپنی عزیز داری کو بالائے طاق رکھ سکے گا۔ خام خیالی ہے۔ یہ چیزیں انسان کی فطرت کا حصہ ہیں اور انسان اس معاملے میں مجبور۔ فرانس کا مشہور مجسمہ ساز فریڈرک آگسٹے جب امریکہ کا آزادی کا مجسمہ بنا رہا تھا تو جسم کے ماڈل کے طور پر اس نے اپنی بیوی کو اور چہرے کے ماڈل کے طور پر اس نے اپنی ماں کا چہرہ مجسمے کی ساخت میں استعمال کیا۔ دنیا میں اس وقت بے پناہ خوبصورت جسم اور خوبصورت چہرے والی عورتیں تھیں مگر ایک فطری تعصب تھا کہ اسے کوئی دوسرا پسند ہی نہیں آیا۔

جہاں انصاف کمزور ہوتا ہے وہاں انصاف کے بارے بہت سے لطیفے جنم لینے لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمسایہ ملک سے کچھ دوست آئے ہوئے تھے۔ عدالتوں کی بات چلی تو بتانے لگے کہ ایک کسان وہاں کی ہائی کورٹ میں جناب چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوا اور عرض کی ’’بھگوان آپ مائی باپ ہیں۔ درخواست دے رہا ہوں بہت غریب آدمی ہوں بس کچھ مدد کر دیں آپ کی بہت کرپا ہو گی۔ بچے بھی دعا دیں گے۔‘‘
جج صاحب نے پوچھا کہ کوئی وکیل ہے تمہارے ساتھ؟
کسان نے جواب دیا کہ حضور غریب آدمی ہوں وکیل تو بہت پیسے مانگتے ہیں کہاں سے لاؤں؟
جج صاحب نے کہا ’’میں تین دن کا وقت دے رہا ہوں باہر جاؤ اور کوئی سستا سا وکیل کر لو۔ چار پانچ ہزار دے دینا۔ وہ تمہاری بات بہتر بتائے گا۔ تمہارا بھلا ہے۔‘‘
تین دن بعد کسان پھر موجود تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا وکیل لائے؟ کسان نے کہا جناب پانچ ہزار دیکھ لیں جیب میں لئے پھرتا ہوں مگر کوئی وکیل نہیں ملتا۔ جس سے پانچ ہزار کی بات کرتا ہوں کہتا ہے پانچ ہزار لینے والے سارے وکیل جج ہو گئے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 453533 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More