ما ہِ شعبان کی اہمیت و فضیلت

شعبان کا مہینہ آتے ہی دلوں میں رمضان المبارک کا احساس بے دارہوتاہے۔ اس ماہ کی فضیلت وبرکت مومنوں کے قلوب کو تازگی بخشتی ہے ،جس سے ایمان کوقوت ملتی ہے جوحلاوت ایمان کی دلیل ہے۔نبی کریم ﷺ کو اس ماہ سے بے حد لگاؤ تھا۔آپﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزہ رکھاکرتے تھے۔حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی کریمﷺرمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے تھے اور ماہ شعبان میں زیادہ ترروزے رکھتے تھے۔(متفق علیہ) اس مہینے کو رمضان کی تیاری کا مہینہ بھی کہہ سکتے ہیں جیسا کہ شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں:ماہ رجب کا شتکاری کا مہینہ ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینہ ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینہ ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان میں اعمال کی کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے؟اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبیﷺ اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔اگرگزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تو فوراًاس کی قضا شعبان کے مہینے میں کرلینی چاہیے۔ابوسلمی ؒکہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ کو کہتے ہوئے سنا:میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتاتھا تومیں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔(متفق علیہ)

شعبان کو اس معنی سے بھی فضیلت حاصل ہے کہ اس ماہ کی ایک بہت ہی بابرکت رات ہے جسے’’ شب برأت‘‘کہتے ہیں ،یعنی درگزر،چھٹکارے کی رات۔جس کی بڑی فضیلت ہے۔بے شماراحادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔اس سلسلے کی مشہورروایت جسے امام بیہقی نے شعب الایمان کے تحت ذکرکیا ہے جو دوسرے طرق سے بھی وارد ہے:حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے:ایک دن رسول کریم ﷺ میرے یہاں آرام فرماتھے،اچانک رات میں میری نیندکھلی تومیں نے دیکھا کہ رسول خداﷺ تشریف فرمانہیں ہیں،آپ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھے شیطانی وسوسے آنے لگے کہ کہیں ایساتونہیں کہ آپ دوسری ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہوں،اسی خیال سے میں اپنے حجرے سے باہر نکلی اورآپﷺکو ڈھونڈنے لگی،جب جنت البقیع پہنچی تودیکھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ بارگاہ الٰہی میں درازہیں اورزبان مبارک سے یہ کلمات جاری ہیں۔اے اﷲ !قبرستان بقیع کے تمام مرحومین کی مغفرت فرما۔حضرت عائشہ ﷺ فرماتی ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ رسول اکرم دعائے مغفرت میں مشغول ہیں تومیں الٹے پاؤں دوڑی اپنے حجرے میں واپس لوٹ آئی، اتنے میں اچانک رسول اﷲﷺ حجرے میں داخل ہوئے ،اس وقت میری سانس پھول رہی تھی،آپﷺ نے دریافت کیا :اے عائشہ !بات کیاہے۔عائشہ ؓ نے فرمایا:آپ کو موجودنہ پاکر گھبراگئی اورمجھ پر شیطانی وسوسے آنے شروع ہوگئے اورمیں آپﷺکوتلاش کرنے لگی قبرستان بقیع میں آپ کو موجودپاکرتسلی ہوئی اورمیں واپس لوٹ آئی ،رسول اکرمﷺ مسکرائے اورفرمایا:کیاتم ڈرتی ہوکہ اﷲ اوراس کے رسول تم پر ظلم کریں گے۔پھرارشادفرمایا:اے عائشہ میرے پاس جبریل ﷺ تشریف لائے تھے اورفرمایا: اے اﷲ کے حبیب آپ کو معلوم ہے یہ کون سی رات ہے ؟میں نے پوچھا :کون سی رات ہے؟توانھوں نے فرمایایہ رات شعبان کی نصف رات ہے،اس رات کو’’شب برأت ‘‘کہتے ہیں۔اس رات میں اﷲ تعالیٰ قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کے برابرمخلوق کوجہنم سے آزادفرماتے ہیں جن پر جہنم واجب ہوچکی تھی۔اس رات اﷲ مشرک،بغض وعداوت اورقطع تعلقات کرنے والے لوگوں، والدین کی حقوق کی پامالی کرنے والے پر اورشرابی کی طرف نظرالتفات نہیں کرتا۔(بیہقی شعب الایمان)

شب برأت ایک بہت ہی مبارک رات ہے۔اس رات کوعبادات اوراذکار میں اپنا وقت صرف کرنا چاہیے۔درج ذیل روایت سے اس رات کے اعمال کی اہمیت واضح ہوتی ہے:حضرت علیؓ سے منقول روایت ہے فرماتے ہیں:جب شعبان کی پندرہویں شب (شب برأت) آجائے تواس رات میں قیام (نفلی نماز)کرو، دن میں روزہ رکھو۔ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات آسمان دنیا پر آتاہے اورفجرتک اعلان کرتاہے :ہے کوئی مغفرت کا طلبگارجسے میں بخش دوں،ہے کوئی رزق کا طلبگارجسے میں روزی عطاکروں،ہے کوئی پریشان حال جسے میں عافیت بخشوں۔(ابن ماجہ)

اسلام ایک معقول اورقابل فہم مذہب ہے۔ جس سے انسان کو صحیح رہنمائی ملتی ہے۔اسلام میں بدعات وخرافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلام میں ایک جامع شریعت ہے ،انسا ن اسی شریعت کی اطاعت سے سربلندی سرخروئی حاصل کرسکتا ہے۔رسم ورواج کی پیروی کرتے ہوئے دین میں کمی اوربیشی کرکے کبھی فلاح نہیں پاسکتا ہے۔اسلام ان ہی رسومات و بدعات کو ختم کرنے کے لیے اپنا جامع تصورپیش کرتاہے اورلایعنی غیرمناسب افعال واعمال کو مستردقراردیتاہے۔ایسے میں اس بابرکت رات کو خودساختہ تہوار بناکر جشن منانا غیراسلامی اورناجائزعمل ہے۔ جس سے اجتناب کرنا ہرمسلم کے لیے ضروری ہے۔ اگرہم معاشرے کا جائزہ لیں تواس رات میں لوگ قبرستان کو ایک میلے کی شکل دیتے ہیں جس میں غیرشرعی اعمال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔قبروں کوسجاتے ہیں ،گھروں کومختلف قسم کے قمقموں اورمومبتیوں سے چراغاں کرتے ہیں۔مختلف قسم کی شیرنی بناکر گھرواوردیواروں پر پْروَجوں(مرحومین)کے لیے رکھ دی جاتی ہے ، تاکہ ان کی روحیں ان سے استفادہ کریں۔بے جا اسراف اورحدسے زیادہ غلو کرنا ان کوشرک جیسے اعمال پر بھی آمادہ کر دیتے ہیں جس کا اس رات مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔شرک اﷲ کو پسند نہیں ہے اوراس رات اﷲ تعالیٰ مشرکوں کی طرف نظرالتفات نہیں کرتاجب قبروں پر نادانستہ اوردانستہ طورپر شرکیہ کارنامے انجام دیے جاتے ہیں اورلوگ طرح طرح کی خرافات میں لگ جاتے ہیں۔

اس رات کو بکثرت عبادت ، ذکروتلاوت،دعائے مغفرت اورخداسے دنیا وآخرت کی بہتری کی دعا کرنی چاہنے۔ انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہیکہ ا س کی مغفرت ہوجائے اوراس کی توبہ بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوجائے۔یہ رات مقبولیت دعا کی رات ہے ،اس لیے اس رات میں توبہ کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے مؤمنو!تم سب مل کراﷲ سے توبہ کرو،توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے(النور:31)توبہ سے متعلق نبی کریمﷺ کا ارشادہے : اے لوگو! اﷲ سے توبہ کرو،میں دن میں سو بار توبہ کرتاہوں(مسلم)۔اگرمسلمان شعبان کی اہمیت اورفضیلت کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان کی تیاری کرے اورشب برأت کی برکت کے حصول کے لیے نبی کریمﷺ سے منقول اعمال انجام دے تواس نے شب برأت کی برکت حاصل کرلی ورنہ یہ رات بھی ہمارے لیے عام رات کی طرح ہوگی اور ان خرافات کے سبب یہ رات ہمارے لیے رحمت کے بجائے زحمت ثابت ہوگی۔
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 225 Articles with 250586 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More