ایک ناقابل فراموش شخصیت "اشرف قدسی"

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شہرت ٗ دولت اور منفعت عہدوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کرکے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ دنیا والوں کو ان کی علمی ٗادبی اور تحقیقی کامیابیوں کا اس وقت علم ہوتا ہے جب ایسے لوگ دنیا میں نہیں رہتے ہیں لیکن پھر سوائے تعریفی مضامین اور جذبات سے لبریز تحریروں کے سوا اور کچھ نہیں کیاجاسکتا ۔ایسی نابغہ روزگار شخصیات میں اشرف قدسی صاحب شامل ہیں ۔اشرف قدسی صاحب سے میرا پہلا تعارف 1975ء میں اس وقت ہوا جب میں انٹرویو دینے کے لیے تعلیم بالغاں کے دفتر 90 ریوارز گارڈن لاہور پہنچا ۔1971ء میں میٹرک کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں اس قدر پریشان رہا کہ کبھی چپس بنانے والی دکان پر ٗ کبھی اون لپیٹنے والی فرم میں ٗ کبھی سلائی مشینیں بنانے والی کمپنی پائلٹ انجینئرنگ میں ٗ تو کبھی ہیکو آئس کریم کی فیکٹری میں بطور مزدور اور ہیلپر کام کرتا رہا۔اردو ٹائپ شارٹ ہینڈ مرکزی اردو بورڈ سے سیکھنے کے بعد بہت سے اداروں میں انٹرویو دیا سفارش اور رشوت نہ دینے کی بنا پر ملازمت نہ مل سکی۔روزانہ دس کلومیٹر سائیکل چلاکر دفترروزگار شام نگر چوبرجی جانا پھر مایوس لوٹ آنا میرا معمول تھا۔ایک دن پہلے تنگ آکر میں نے زیر تعمیر ریوازگارڈن فلیٹس میں چوکیدارکی حیثیت سے ملازمت کرنے پر حامی بھر لی لیکن قدرت مجھ پر مہربان ہوئی تو اشرف قدسی صاحب کے قدموں میں پہنچا دیا۔ میرے علاوہ چھ سات اور نوجوان بھی انٹرویو میں شامل تھے ۔اشرف قدسی صاحب اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ایڈیٹر پندرہ روزہ" خدمت "کی حیثیت سے تعلیم بالغاں کے ڈائریکٹویٹ میں تعینات تھے انہوں نے مجھے سٹینوگرافر ساتویں سکیل کے لیے منتخب کرلیا لیکن اگلی صبح جب میں دفتر پہنچا تو ڈائریکٹر ملک اشرف (مرحوم ) کا رقعہ لیے ایک اورنوجوان قدسی صاحب کے پاس موجود تھا اس رقعے میں یہ تحریر درج تھی کہ اس نوجوان کو ملازمت دی جائے یہ میرا حکم ہے ۔یہ دیکھ کر میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی کیونکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٗ اپنے باس ڈائریکٹر کے فیصلے سے کیسے اختلاف کرسکتا ہے لیکن اﷲ تعالی جن لوگوں کوہمت ٗ قوت فیصلہ اور جرات اظہار عطا کرتا ہے وہ طوفان سے کہاں ڈرتے ہیں قدسی صاحب نے رقعے کی پشت پر یہ لکھ کر نوجوان واپس کردیا کہ سٹینوگرافر نے میرے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے میں جس کو کام کا اہل سمجھتا ہوں اسے ہی ملازم رکھوں گا ۔یہ میری زندگی کا بہت بڑا ٹرننگ اور مثبت پوائنٹ تھا جو قدسی صاحب کی وجہ سے مجھے حاصل ہوا اس طرح ساتویں سکیل میں ملازم ہوگیا ۔میں نے اس محکمے میں تین سال ملازمت کی اس دوران اشرف قدسی صاحب اختلاف رائے رکھنے اور کرپشن کا حصہ نہ بننے کی بنا پر کتنی بار زیر عتاب آئے ۔تعلیم بالغاں کی کتابوں کی اشاعت کا ٹینڈر لاکھوں روپے مالیت کا تھا جسے کمیشن کے چکر میں ایک خاتون بیگم ستنام محمود کو دے دیاگیا جس نے کتابوں میں ہندوانہ الفاظ اور واقعے کو شامل کرکے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ۔جب یہ بات قدسی صاحب تک پہنچی تو انہوں نے توثیق سے انکار کیا جس پر انہیں معطل کردیاگیا سارے افسرایک طرف اور قدسی صاحب ایک طرف تھے بھلا اس مشکل گھڑی میں ٗ میں اپنے محسن کو کیسے تنہا چھوڑ سکتاتھا ۔افضل کہوٹ اور عبداللطیف مرزا جیسے دیانت دار افسروں کی وجہ سے ملازمت تو بچ گئی لیکن بہت عرصے تک چپقلش چلتی رہی ۔مجھے ان کے ساتھ 1975ء کے سیلاب میں چکوال ٗ لالہ موسی ٗ گجرات ٗ کلر کہار ٗ چوا سیدن شاہ جانے اتفاق بھی ہوا ۔ اس دوران میں نے انہیں ایک ہمدرد ٗ شفیق اور عزت کرنے والا اعلی صفات کا حامل انسان پایا ۔اگر وہ چاہتے تو سیلاب زدگان کے لیے ملنے والی امداد پر ہاتھ صاف کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ہر قسم کی بدعنوانی ٗ کرپشن اور ہیرا پھیری سے خود کو بچائے رکھا ۔اشرف قدسی صاحب 1938ء میں بھارتی پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں میاں وال الراعیاں میں چوہدری غلام محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کرکے ہڑپہ ضلع ساہیوال کے نزدیک چک نمبر 10/2 میں منتقل ہوگیا ۔ 1956ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعدآپ نے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لے لیا ۔ادبی ذوق کی اٹھان تو سکول کے زمانے سے ہی جاری تھی جہاں آپ اشرف جالندھری کے نام سے شعر و نثر کہا کرتے تھے کلاس میں اشرف نام کے چار طالب علم موجود ہونے کی بنا پر استاد نے آپ کو اشرف کے ساتھ قدسی لکھنے کا حکم دیا اس وقت سے آج تک قدسی آپ کے نام ساتھ منسلک ہے۔ دوران تعلیم کالج میں بہت سے شفیق اساتذہ کرام سے رہنمائی حاصل ہوئی جوشعر و ادب میں مزید نکھار کا باعث بنی ۔کالج ساتھیوں میں مسٹر جسٹس شیخ اعجاز نثار ٗ میاں منظور احمد وٹو شامل ہیں ۔اسی دوران پروفیسر انور شبنم دل کی ترغیب پر آپ نے لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ" نصرت" کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ساہیوال میں قیام کے دوران ممتاز اور معروف شاعر مجید امجد سے رہنمائی اور استفادہ کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔آپ نے مجید امجد پر بہت ساتحقیقی کام بھی کیا ہے بلکہ آپ مجید امجد کو اس دورکا عظیم شاعر قرار دیتے ہیں ۔لاہور میں عباس اطہر (مرحوم) اور رشید بٹ کی رفاقت میں بھی کچھ وقت گزرا۔1961ء میں ضلع کونسل ساہیوال کی زیر اہتمام نکلنے والے پندرہ روزہ رسالے "منٹگمری گزٹ"کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بعد میں اس رسالے کا نام" فردا" رکھ دیاگیا۔ 1964ء میں آپ کو بزم فکر و ادب ساہیوال کا سیکرٹری منتخب کرلیا گیا اور دسمبر 1969 تک اس عہدے پر فائز رہے ۔آپ نے ساہیوال سے متعلق کئی کتابیں تالیف کیں ۔جنوری 1970ء میں استعفی دے کر لاہور تشریف لے آئے ۔ 1973ء میں تعلیم بالغاں ڈائریکٹویٹ کے رسالے پندرہ روزہ" خدمت" میں بطور ایڈیٹر تعینات ہوئے ۔ بعدازاں ایڈیٹر ماہنامہ "مقامی قیادت" ٗ انفارمیشن افسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے 1984ء تک کام کرتے رہے ۔ 1985ء میں آپ پاسکو میں سنئیر پبلک ریلیشنز آفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے کر 1997ء میں ریٹائر ہوگئے ۔مضبوط اعصاب اور پاکیزہ کردار کے حامل انسان اشرف قدسی صاحب کی تحقیق و تخلیق کی دنیا میں کئی تخلیقات موجود ہیں ان میں شب گل نمایاں ہے آپ امہات المومنین ؓ اور نبی کریم ﷺ کی سیرت پر تحقیقی کام بھی کررہے ہیں ۔2003ء میں آپ کی شخصیت اورفن پر پنجاب یونیورسٹی ( اورنیٹیل کالج ) کی جانب سے ایم اے کی طالبہ عائشہ صوفی نے ایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا جو آپ کی زندگی اور فن کا احاطہ کرتا ہے ۔ ایک بات جو قابل ذکر ہے کہ اگر اشرف قدسی صاحب اپنے سنئیر سے ٹکر لے کر مجھے بطور سٹینوگرافر ملازم نہ رکھتے تو آج شاید میں کسی جگہ چوکیدار ہوتا ۔ان کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھلاسکتا ۔اﷲ تعالی انہیں صحت کاملہ اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 672243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.