بااختیار کا اختیار

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے یونہی زندگی تمام ہوتی ہے نہ جانے کب شروع ہوا اور کب اخیرکو پہنچا اور میسج پیکج کا ہفتہ اپنے اختتام کو پہنچا اور پھر صاحب پتہ بھی نہ چلا اور مہینے بعد فون کا بل ہاتھ میں پہنچا ،اب کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا اور خود کو سمجھائیں کیا ،کہ کس کس شے کا خرچ اٹھائیں اور کس کس سےدل نہ بہلائیں۔ دل کے بلانے کو خیال اچھا مگر آج بہت سی چیزوں کے بغیر رہنا محال اب مشکل کے ساتھ ساتھ ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ہر امی کی زبان میں ایک موا موبائل اور ہر استاد کی نظر میں فیس کی کتاب اور ہر ابا کی نظر میں ٹیلیویثن کا چوکھٹا۔

مغربی دنیا میں جہاں کے سائنسدانوں کو تحقیق کا خبط ہے وہاں بیسویں صدی میں ہی تسلیم کیا جانے لگا تھا کہ ٹیلیویژن عوام سے سوچنے کی کھجنے کی اور پرکھنے کی صلا حیت چھین رہا ہے ٹی وی چوں کہ ذہن کو آرام دینے کا اور صرف آرام کے قابل ہی چھوڑ دینے جوگا بناتا جارہا ہے کیونکہ اب کے انساں کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دماغ کو اپنے آُ سے ذیادہ آرام دینا نصیب ہو گیا ہے اور جب ایک دفعہ آرام نصیب ہو جائے تو بے آرامی کی عادت واپس ڈالنا ممکن نہیں رہتا۔

اسی طرح اکیسیویں صدی میں ایک تحقیق نے یہ بتایا ور سمجھایا کہ آج کے بچے گوگل سے پوچھ پوچھ کر گوگل سے کریدنے کے بعد خود یاد رکھنے کے قابل نہیں رہے بلکہ اب یہ خطرہ ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دنیا میں ایجادات کا سلسلہ بند ہونے کو ہے کیونکہ آج کی نسل گوگل کی ذہنی غلام ہو گئی ہے اور اسی لئے اس نسل کو واپس کھوج اور سوچ کی طرف لانا خاصا مشکل ہے۔

ایک اور تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ کھانا کھانا اور دیگر جسمانی خصوصیات کا جس طرح خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح بڑھتے بچوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ انکو کہانیاں سنائی جائیں جو کہ انکی ذہنی نشوونما اور سوچ بچار کی صلا حیت کو بڑھانے کے لئے اکثیر کا درجہ رکھتی ہے۔ جو بچے کہانیاں سنتے ہیں انکو چیزوں کو بیان کرنے اور جانچنے کے لئے اپنی دماغ میں انفارمیشن ڈالنے کی صلاحیت خاصی مختلف اور با کمال ہوتی ہے ۔

ایم اور ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہےکہ ہر وقت آئی پیڈز اور فونز پر جھکے رہنے سے گردن کی جھریوں میں اضافہ اور گردن ڈھلکنے کا وہ بھی درزی عمر سے پہلے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور خواتین کی بیوٹی میں گردن خاصی اہمیت کی حال ہے جسکا کہ یہ فونز بیڑا غرق کرنے پر تُلے ہیں۔

کبھی بھی کسی بھی چیز میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ انسان کو پکڑے اور مجبور کرے کہ مجھے استعمال کرو اور اتنا کرو کہ اپنا نقصان کرنے لگو۔ اختیار بیسویں صدی میں بھی اور اکیسیویں صدی میں بھی انسانوں کے اختیار میں ہی ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 274963 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More