بھارت میں سیکولرازم کی شکست

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نریندر مودی کی حکومت میںپاک بھارت تعلقات اور بھارتی مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا، لیکن بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی کی تاریخی کامیابی نے بھارتی حکمرانوں کے اس دعوے کی نفی ضرور کردی ہے کہ بھارت ایک سیکولرا سٹیٹ ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی آبادی رکھنے والی ریاست بھارت اپنے آئین کو سیکولر قرار دیتی ہے، لیکن انتخابات میں ایک انتہا پسند متعصب شخص کی کامیابی نے یہ واضح کردیا کہ یہ ریاست اپنے سماج کو Secularize کرنے میں عملی طور پر ناکام رہی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت کا سیکولر چہرہ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے ہے،لیکن ”حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے“سچ یہ ہے کہ بھارتی عوام پاکستانی عوام سے کہیں زیادہ انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ اسی لیے پاکستانی سیاست میں مودی طرز کا کوئی انتہا پسند سیاست دان کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا، کیونکہ عوام اسے مسترد کردیتے ہیں، یہاں مذہبی جماعتوں کے بارے میں انتہا پسندی کا تاثر دیا جاتا ہے، اسی لیے یہ جماعتیں آج تک ملک میں حکومت بنانے میں ناکام رہی ہیں، لیکن بھارت میں عوام انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے ہیں اور انتہا پسندی سے دور کجریوال جیسے سیاست دان کو پورے بھارت سے صرف چار سیٹیں ہی مل پاتی ہیں۔انتخابات میں بھارتی میڈیا نے بڑھ چڑھ کر انتہاپسند نریندر کا ساتھ دیا، جو بھارتی عوام کی سوچ کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے۔

نریندر مودی کا بھارت کا وزیر اعظم بننا کسی طور بھی انتہا پسندی سے خالی تصور نہیں کیا جاسکتا۔نریندر مودی کی نظریاتی اور سیاسی پرورش آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے اور انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مودی نے جوانی میں ہی ہندو انتہاپسند تنظیم ”آر ایس ایس“ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے ہندو پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے تھے، جبکہ بی جے پی کی سیاست کا روز اوّل ہی سے محورومرکز پاکستان دشمنی اور مسلم بیزاری رہا ہے۔ اس جماعت کی بنیاد ”ہندوتوا“ پر ہے۔ اسی جماعت کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے 1992ءمیں ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے رتھ یاترا کی تھی۔ مسجد کی شہادت کے بعد پورے بھارت میں مسلم کش فسادات کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا، پھر مودی کے دور حکومت میں 2002ءمیں گودھرا سٹیشن کے واقعہ کو جواز بنا کر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا اور اس دوران مختلف واقعات میں ہزاروں مسلمانوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اگرچہ نریندر مودی اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر بطور وزیراعلیٰ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس طرح کے واقعات نہ ہونے دیتے۔ عالمی برادری نریندر مودی کو ہندوستان میں مسلمانوں کے قاتل کی حیثیت سے جانتی ہے، اسی بنا پر امریکا نے اپنے ملک میں مودی کے داخلے پر پابندی بھی لگادی تھی۔

بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پر جہاں ایک طرف بھارتی مسلمان سہمے ہوئے ہیں، وہیں دوسری جانب کئی تجزیہ کار مودی کی کامیابی کو بھارتی سیکولر ازم کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور سیکولر بھارت کے مستقبل کے بارے میں متفکر نظر آتے ہیں۔ بھارت کے ایک معتبر دانشور، سابق سفارتکار اور دو بھارتی ریاستوں کے سابق گورنر گوپال کرشنا گاندھی نے نریندر مودی کے نام اپنے کھلے خط میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جہاں لاکھوں لوگ مسرور ہیں کہ آپ وزیراعظم بن رہے ہیں، وہیں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ اس بات سے پریشان ہیں، بلکہ بہت زیادہ پریشان ہیں۔“ ”آپ نے 31 فیصد لوگوں کی توجہ ضرور حاصل کی ہے، لیکن 69 فیصد لوگوں کا یہ خیال نہیں ہے کہ آپ دیش کے بہترین رکھوالے ہیں۔ ان لوگوں نے تو ”دراصل“ اس بات سے بھی اختلاف کیا ہے کہ ہمارے دیش کی ہئیت کیا ہے اور جناب مودی! دیش کا تصور ہی وہ بات ہے جہاں اصل اہمیت ہمارے آئین کی ہے۔ میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ ”دیش“ کے نظریہ پر نظرثانی فرمائیے۔ اقلیتوں کے بارے میں آئین کے وڑن کو اپنائیے، اسے تبدیل، کمزور یا اپنے لیے موافق مت بنائیے۔ اقلیتوں کو یقین دہانی کروائیں، ان کے سرپرست مت بنیں، ترقی تحفظ کا نعم البدل نہیں ہے۔ آپ نے ”ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیپ ٹاپ“ یا کچھ ایسی ہی بات کی، لیکن ان تصاویر نے اقلیتوں کو احساس تحفظ نہیں دیا، کیونکہ اس کے جواب میں سامنے آنے والی تصاویر نے انہیں خوفزدہ کر دیا ہے، جن میں ایک غنڈے نے ایک ہندو کا روپ دھار رکھا ہے اور اس کے ایک ہاتھ میں ہندو صحیفے کا ڈی وی ڈی ہے اور دوسرے میں دھمکی آمیز ترشول۔ کچھ ماہ قبل مظفر نگر میں 42 مسلمانوں کی ہنگاموں میں ہلاکت نے اقلیتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ”خبردار! تمہارے ساتھ یہ کیا جائے گا۔“” ایک جمہوریت میں کسی کو بھی اس دھمکی کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ صرف مسلمان ہی نہیں، تمام اقلیتیں زخموں سے چور ہیں۔ دلت اور ادی واسی، خصوصاً عورتیں، اپنی زندگی کا ہر لمحہ ذلت اور استحصال میں گزار رہے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ آپ سے منسوب ایودھیا میں رام مندر اور ہندو مسلم پناہ گزینوں کے فرق کے بیانات خوف پیدا کرتے ہیں، ناکہ اعتماد۔ اجتماعی خوف مملکت بھارت کی خوبی نہیں ہو سکتا۔“

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے چیلنج کے سامنے اس ملک کا سیکولر ازم مختلف قسم کے خوابوں اور امیدوں میں جیتا رہا۔ ایک امید تو کانگریس جیسی پارٹی سے رہی کہ وہ کتنی بھی کمزور اورضعیف ہوجائے، لیکن وہ ملک کو مذہبی جنونیت سے بچا ہی لے گی، کیونکہ اس کے اندر مہاتما گاندھی ، نہرو ، پٹیل ، مولانا آزاد مرحوم اور آزادی کی جدوجہد کے دیگر رہنماؤں کی وراثت دفن ہے، جووقتا فوقتا کھڑی ہو جاتی ہے۔ دوسری توقع علاقائی عصبیت میں مبتلا جماعتوں سے وابستہ رہی،جو وقتاً فوقتاً بی جے پی کی مخالفت میں کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ تیسری امید اس ملک کے عوام سے تھی، جنہیں سیکولرازم کا نعرہ سنایا جاتا رہا ہے،لیکن ان سے سیکولر جماعتوں سے زیادہ ہندو نظریاتی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس دوران ایک اور امید اس نئی نویلی پارٹی ”عام پارٹی“ سے بھی وابستہ رہی جو سیاست کی نئی گرامر لکھنے کا دعویٰ کر رہی تھی۔مجموعی طور پر سیکولر ازم کو امید تھی کہ اس ملک کی قوموں ، ثقافتوں اور زبانوں کی مختلف قسم کے ہندوتوا کی” سونامی“ کیخلاف ایک دیوار کی طرح کام کرے گی اور اس کی بنیادپر اقلیتوں کی یکجہتی تیار کرے گی، لیکن سیکولرازم یہ بھول گیا کہ اس کاروکھا پھیکارنگ روپ لوگوں کو مشکل سے ہی متوجہ کرتاہے اور جو خوبی عوام کے لیے کشش کا باعث تھی، وہ معدوم ہوچکی ہے، بھارت کے عوام کے لیے اصل کشش کا باعث مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان مخالفت ہے۔ یہی سوچ بھارت میں سیکولرازم کی عمارت کو دھڑام سے نیچے گرانے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.