لٹریچر کے کمالات

یہ اب سے تقریباَ 40سال قبل کی ہے میں لیاقت آباد کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے گیا ۔مسجد میں خطیب صاحب تقریر کر رہے تھے میں نے دیکھا کہ وہ کچھ پڑھ رہے ہیں اور غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک کاپی میں سے کچھ پڑھ رہے ہیں ۔یہ مسجد بریلوی مکتب فکر سے منسلک تھی اور جس آبادی کے درمیان تھی وہاں خواندگی کی شرح نسبتاَکم تھی ۔میں ان کی تقریر جو وہ کاپی سے دیکھ کر پڑھ رہے تھے بغور سننے لگا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ باتیں میں نے کہیں پڑھا ہے کیونکہ الفاظ اور جملے مانوس سے لگ رہے تھے اور بات آگے بڑھی تو یہ یقین ہو گیا کہ یہ مولانا کی خطبات کتاب کی تحریر ہے ۔مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک ایسی مسجد جس کی کمیٹی میں کوئی فرد بھی ہمارا نہیں اور ایک بڑی اکثریت بریلوی مسلک کے لوگوں کی ہے یہاں پر مولانا کی کتاب پڑھ کر سنائی جارہی ہے ۔میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہورہا تھا میں مسجد میں رک گیا جب تقریباَ مسجد خالی ہو گئی تو خطیب صاحب سے ملاقات کر کے اپنا جماعت اسلامی کے ایک حلقے کے ناظم کی حیثیت سے تعارف کرایا اور پھر پوچھا کہ یہ آپ مولانا مودودی کی خطبات میں سے پڑھ رہے تھے نا،انھوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے اثبات میں جواب دیا اور کہا کتاب تو لا نہیں سکتا اس لیے ہر جمعہ کو جتنا مجھے پڑھنا ہوتا ہے اتنا اس کاپی پر لکھ لاتا ہوں۔میں نے ان کی وہ کاپی بھی دیکھی تو اس طرح کی تحریر تھی جیسے پرانے زمانے کے مدرسے کے پڑھے ہوئے لوگ کچھ کھینچ تان کر اردو کے الفاظ بنانا سیکھ لیتے تھے میری والدہ محترمہ بھی ایسا ہی لکھتی تھیں اس طرح کی لکھائی بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے ۔میں نے سوچا کہ ان بزرگ کو تو اس کے لکھنے میں بھی دقت پیش آتی ہو گی بہر حال ان کا جذبہ قابل قدر تھا اس وقت ہی ان کی عمر ستر اور اسی کے درمیان رہی ہوگی ،بعد میں بھی ان سے کچھ ملاقاتیں رہیں پھر وہ کہیں نظر نہیں آئے اگر وہ حیات ہوں تو اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انھیں صحت و تندرستی دے اور اگر انتقال فرما چکے ہوں تو اﷲ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اس واقعے سے مولانا کے لٹریچر کی تین ایسی خصوصیات نظر آئیں جو کسی اور کتاب کے پڑھنے میں نظر نہیں آتیں پہلی بات تو یہ مولانا کی تحریر پڑھنے سے ایمانی حرارت کے ساتھ ایسا جوش وجذبہ پیدا ہوتا ہے طبیعت کو بے چین رکھتا ہے دوسرے یہ کہ یہ کیفیت ہر عمر کے لوگوں میں پیدا ہوتی ہے اور تیسری بات یہ کہ یہ لٹریچر اپنی وسعت کا راستہ خود سجھاتا ہے ۔دوسرا واقعہ ہندوستان کے عالم اور بزرگ کا ہے جن کے بہت سے شاگرد تھے ان کے شاگردوں میں سے کوئی مولانا مودودی کی کوئی کتاب پڑھ کر جماعت سے متاثر ہو گیا وسیع لٹریچر کے مطالعہ کے بعد اس کو یہ فکر لا حق ہو گئی کہ کسی طرح اپنے ان استاد عالم صاحب کو یہ کتابیں پڑھوادے جبکہ وہ عالم صاحب مولانا مودودی کے سخت مخالف تھے ،یہ صاحب کسی دوسرے شہر میں رہتے تھے لیکن ہفتے میں ایک دن وہ اپنے ان عالم صاحب سے ملنے ضرور آتے تھے ۔ایک دفعہ وہ آئے تو ان کے ہاتھ میں کتاب دینیات تھی لیکن وہ اسے لیے بیٹھے رہے اور حسب معمول جو باتیں کرتے تھے اسی طرح ملاقات بات چیت کر کے وہ واپس اٹھے اور کتاب دینیات اسی طرح بغل دبا کر واپس چلے گئے اس طرح کا عمل انھوں دو تین بار کیاکہ ہر دفعہ کتاب لے کر آتے اور ایسے ہی لے کر واپس چلے جاتے ۔آخر کار ایک مرتبہ ان بزرگ عالم صاحب نے اپنے شاگرد سے یہ پوچھ ہی لیا کہ میاں یہ کیا اور کون سی کتاب ہے جو تم ہر دفعہ لاتے ہو اور ایسے ہی واپس لے جاتے ہو شاگرد صاحب نے کہا محترم میں نے جب سے یہ کتاب پڑھا ہے دماغ بہک گیا ہے اور کچھ اشکالات ذہن میں پیدا ہوئے ہیں میں ہر دفعہ یہ کتاب لے کر آتا ہوں لیکن آپ سے بات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی انھوں نے کتاب مانگ لی لاؤ دیکھتے ہیں ،کتاب ہاتھ میں لیتے ہی انھوں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ان کی کتابیں پڑھو گے تو بہک جاؤ گے بہر حال تمھارے ذہن جو سوالات پیدا ہوئے ہیں ان کے جوابات تو دینا ہے ،لہذا تم اے چھوڑ جاؤ اگلے ہفتے آؤ گے تو اس پر بات ہوگی ۔وہ شاگرد صاحب خوشی خوشی لوٹ گئے کہ ان کا تو کام ہو گیا ۔اگلے ہفتے جب وہ ملنے کے لیے آئے تو ان بزرگ نے اس کتاب کے بارے میں اپنے شاگرد سے کہا کہ میں نے یہ کتاب پڑھا اس کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ دین تو اب سمجھ میں آیا ہے اب تک تو ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے دیکھیے اس کارکن شاگرد نے کس طرح حکمت تدبراور صبر کے ساتھ اپنے استاد عالم کو کتاب پڑھوانے کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ اگر یہ عالم صاحب قابو میں آگئے تو ان کے توسط سے ایک بڑی تعداد جماعت کے قریب آسکتی ہے ۔تیسراواقعہ ایک تحریکی ساتھی کاہے کہ وہ اپنے بھائی کو جماعت کی کتب پڑھانا چاہتے تھے ۔وہ بھائی صاحب دنیا بھر کی کتابیں پڑھتے تھے لیکن دینی کتب بالخصوص مولانا مودودی کی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے ،لیکن مطالعہ لٹریچر کا شوق جنون کی حد تک تھا ،ویسے کوئی دینی ذہن بھی نہ تھا ۔ایک دفعہ ان تحریکی ساتھی کے والدین کا حج پہ جانے کا پروگرام بن گیا اور ساتھ میں ان تحریکی ساتھی کو بھی اپنے والدین کے ساتھ جانا تھا لیکن کچھ ایسے مسائل ہو گئے کہ ان تحریکی ساتھی کا جانا رک گیا اور قرعہ فال اسی بھائی کے نام نکلا جس کا دینی مزاج اس طرح کا نہ تھا جیسا کہ ان تحریکی ساتھی کا تھا ۔ان صاحب نے حج پر جانے سے پہلے اپنی کتابوں کا ایک باکس الگ سے بنایا کہ وہاں تو بہت زیادہ فرصت ہوگی اس لیے کتابوں کے مطالعے سے وقت پاس ہو جائے گا ۔ان تحریکی ساتھی نے اپنے بھائی کے کتابوں کے باکس میں خاموشی سے مولانا کی ایک کتاب رکھ دی کہ شاید حج کے موقع پر اﷲ توفیق دے دے اور یہ کچھ پڑھ لے ۔وہ صاحب اپنے والدین کے ساتھ حج پر گئے وہاں انھوں نے وہ کتابیں پڑھنا شروع کی تو اس میں مولانا کی کتاب بھی نظر آئی اسے انھوں نے ایک کنارے رکھ دیا اتفاق سے جتنی کتابیں وہ لے کر گئے تھے وہ سب پڑھ ڈالیں بلکہ بعض کتب دو دو بار بھی پڑھ لیں اور مولانا کی کتاب جب بھی سامنے آتی وہ الگ کردیتے ،ایک دن وہ اپنی کتابوں کو چیک کر رہے تھے اب کون سی دوبارہ پڑھنا چاہیے کہ مولانا کی کتاب پھر سامنے آگئی یہ لمحہ شاید ان کے بھائی کی قبولیت دعا کا تھا ان صاحب کے ذہن میں یہ بات آئی ہم دنیا بھر کی کتابیں پڑھتے ہیں چلو آج ایک کتاب مولانا مودودی کی بھی پڑھ لیتے ہیں ،چنانچہ وہ کتاب انھوں پڑھ ڈالی اور جب واپس آئے تو اپنے بھائی سے کہا اب تک جو کچھ میں نے پڑھا وہ سب بیکار لٹریچر تھا کام کی تحریریں تو اب سامنے آئی ہیں اس طرح تحریکی ساتھی کی کوششیں کامیاب ہوگئیں چوتھا واقعہ حسین آباد فیڈرل بی ایریا کے کارکن جناب یونس میمن صاحب کاہے جو ایک ہاتھ سے معذور بھی تھے 1953میں وہ مشرقی پاکستان سے حج کے لیے گئے اس وقت وہ جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے ۔مطاف میں انھوں نے دیکھا ایک کالا حبشی جس کا تعلق کسی افریقی ملک سے تھا وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑکر رو رہاہے چلا رہاہے اور بار بار اپنا سر کعبہ کی دیوار پر مار رہا ہے ۔یونس صاحب اس کے قریب گئے اور اس سے پوچھا Why are you cryingتم کیوں رو رہے ہو ،اس نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا تم کس ملک سے آئے ہو یونس صاحب نے جواب دیا پاکستان سے ۔اس نے مزید حیرت کا شکار ہو کر پوچھا آپ پاکستان سے آئے ہیں اور آپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہاں مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا ہو گئی ہے میں ان ہی کے لیے دعا مانگ رہا ہوں ۔پھر اس نے یونس صاحب کو مولانا کی کتاب "حقیقت حج "دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو ادھر مطاف میں اس طرح بیٹھ کر پڑھنا کہ تمھارا رخ خان کعبہ کی طرف ہو یعنی اس کتاب کو پڑھتے وقت کعبہ تمہارے سامنے ہونا چاہیے ۔پھر یونس صاحب جماعت کے ہوگئے اور ساری زندگی جدوجہد میں گزاری یقیناَ ان کے سارے نیک کاموں کا ثواب اس کالے حبشی کو بھ ملے گا جس نے ان کو یہ راہ دکھائی ۔اس واقع کے بعدیونس صاحب نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ ان کے جاننے والوں جو کوئی بھی حج پر جاتا یونس صاحب حج پر جانے والے ساتھی کو کتاب حقیقت حج یہ کہہ کر دیتے کہ آپ نے یہ کتاب چاہے دس بار پڑھا ہو لیکن میری یہ گزارش ہے کہ آپ اسے ایک دفعہ مطاف میں بیٹھ کر خانہ کعبہ کا سامنے پڑھیں-

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 40124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.