متحدہ عرب امارات کے شب و روز

فہد کو یہاں متحدہ عرب امارات میں آئے بمشکل ایک سال نو ماہ ہوئے ہیں اور وہ مشکل سے ایک تعمیراتی کمپنی میں نوکری حاصل کر سکا ہے۔چند دن پہلے اسے اطلاع ملی کہ اس کے والد محترم وفات پاگے،فوتگی کی اطلاع اسے بروقت مل تو گئی لیکن وہ دلی خواہش اور کوشش کے باوجود اپنے ہی والد کی آخری رسومات میں شرکت نہ کر سکا کیونکہ اس کے پاس سفر کرنے کے لیے جس سفری دستاویز ’’پاسپورٹ‘‘ کی ضرورت تھی وہ نہ تھا۔عرب ممالک میں تعمیراتی کمپنیوں میں کام کرنے والے ہنر مندوں کے پاسپورٹ عام طور پر اسی کمپنی کے پاس امانتاً یا سیکورٹی کے طورپر جمع ہوتے ہیں جس نے ویزہ جاری کیا ہوتا ہے یوں ایمرجنسی میں پاسپورٹ واپس لینا ایک مشکل کام ہے خاص کر تعطیلات یا ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران، چناچہ فہد کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جس دن اسے پاسپورٹ کی ضرورت تھی اس دن متحدہ عرب امارات میں چھٹی تھی یوں وہ بے بس تھا۔اس طرح وہ صبر وشکر کر کے اگلے روز پھر ڈیوٹی پر چلا گیا۔ یہ ایک فہد کی کہانی ہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں تعمیراتی کمپنیوں سے جڑے لاکھوں غیر ملکیوں کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔اس خطے کی تقریباً اسی فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے جن میں بڑی تعداد سارک ممالک کی ہے۔ماضی کی نسبت اب نوجوان زیادہ اس خطے کا رخ کرتے ہیں چناچہ ان غریب ممالک کے نوجوانوں کی اکثریت اپنی جوانی کا بڑا حصہ عربوں کی معشیت سنوارنے اور اپنے مستقبل کے ادھورے خواب پورے کرنے میں گذار دیتی ہے۔اس کشمکش میں انہیں کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں ایک لمبی کہانی ہے۔

متحدہ عرب امارات بدستور ترقی کی راہ پر گامزن ہے،یوں تو اس کی ساری ہی ریاستیں اپنے وسائل خود پیدا کرتی ہیں لیکن ان میں زیادہ ترقی دبئی اور ابوظہبی نے کی ہے ،اس کے بعد العین ،شارجہ اور عجمان آتے ہیں جو تیزی سے اس دوڑ میں شامل ہیں۔دبئی باقی ریاستوں پر اسقدر حاوی ہے کہ اب کئی ممالک کے شہریوں نے متحدہ عرب امارات کا نام ہی دبئی رکھ لیا ہے،یہ سہولتوں،ترقی اور خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے بارہ شہروں میں شامل ہے اور مقامی حکومت کی خواہش ہے کہ یہ جلد ہی دنیا کے پہلے چھ نمبروں والے شہروں میں شامل ہوں ، سال 2020 میں یہاں ہونے والی ایکسبو اس خواہش کی تکمیل میں کردار ادا کر سکتی ہے۔اس ایکسبو 2020 میں خیال ہے کہ دنیا بھر سے 75 لاکھ تاجر اور سیاح شرکت کریں گے جن کو سہولیات پہنچانے کے لیے ایک نئے تعمیراتی دور کا آغاز ہونے والا ہے،ہزاروں کی تعداد میں فائیو اور سیون سٹار زہوٹل تعمیر ہوں گے،جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہنرمند بھرتی ہوں گے۔یہ ایکسپو یو اے ای نے سخت مقابلے کے بعد حاصل کی ہے۔ دبئی کی عمارات، تعمیرات کا ایک ایسا شاہکار ہیں کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔یہ عمارتیں محض بلند و بالا ہی نہیں ہیں بلکہ منفرد ڈیزائن میں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں ۔یہاں قانون کی عملداری بہت زیادہ ہے،ادارے مضبوط اور بااختیار ہیں۔پویس کے عام اہلکار کو بھی اتنے اختیارات دئیے گے ہیں کہ شاید اس کے سامنے حکومت بھی بے بس ہے لیکن عام طور پر یہ اہلکار اپنے اختیارات کا بے جا استعمال نہیں کرتے۔آپ کو کسی بھی شاہراہ یا ’’پبلک پلیس‘‘ پر کوئی پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے نظر نہیں آئے گا لیکن اس کا خوف ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔یہاں آباد غیرملکی نہ چاہنے کے باوجود بھی قانون کا احترام کرتے ہیں کیونکہ یو اے ای کی حکومت یہ احترام کروانا جانتی ہے جس کے لیے بڑا واضع نقشہ تیار کیا گیا ہے۔یو اے ای کی حکومت اپنے اور اپنے شہریوں کے مفادات کی خاطر آئے روز ان قوانین میں تبدیلی کرتی رہتی ہے جس کی زد میں غیر ملکی آتے ہیں اور وہ مشکلات سے دوچار بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان قوانین کو اپنے ملک سے بہتر تصور کرتے ہیں کیونکہ یہاں باقی کچھ ہو نہ ہو کم از کم انسان کی

زندگی محفوظ اور آسائش سے بھرپور ہے،آپ کو یہاں کسی بم دھماکہ،ٹارکٹ کلنگ،دھمکی آمیز خطوط،بجلی کی لوڈ شیڈنگ،گیس کی قلت،چوری،ڈکیتی،مصاربہ سکینڈل کا سامنا نہیں ہے۔

کشمیریوں کی بہت بڑی تعداد یہاں آباد ہے جو مختلیف تعمیراتی کمپنیوں اور پرائیویٹ اداروں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ماضی کی نسبت اب یہ زیادہ بہتر اجرت کے بدلے کام کر رہے ہیں اور زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں لیکن اکثریت اب بھی کم درجے کی مزدوری کر رہی۔تقریباًآٹھ سے دس مہینے طوفانی گرمی پڑتی ہے ،درجہ حرارت پچاس ڈگری سنٹی گریڈ تک پہچتا ہے لیکن ہمارے محنت کش کھلے میدان میں 8 گھنٹے کام کرتے ہیں اور پھر 4x4 میٹر کمرے میں لوہے کی اس چارپائی پر نیم جان ہو کر سکھ کا سانس لیتے ہیں جو ایک دوسرے پرلٹکتی رہتی ہیں ۔ہاں ان کی نیند اس لیے پوری ہو جاتی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے بجلی ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوئی ،ائیرکنڈیشنڈ تواتر کے ساتھ کام کر رہے ہیں،اگر یہ رواج بھی ہمارا اپنا ہوتا تو جانے کب کی یہ ریاستیں ویران ہو جاتیں،ہاں ان محنت کشوں کو اگر کوئی بات ستاتی ہے تو بچوں کی طرف سے کھلونوں اور بیگم کی طرف سے ’’سام سانگ گلسگی ‘‘کے نئے ماڈلز کی فرمائش جلد پوری نہ کرنے کی جو موبائل فونز کی بدولت لمحہ بہ لمہ پہنچتی رہتی ہے۔ تپتی دھوپ میں کام کرنے والے ان لوگوں کوپورا سال اسی حساب کتاب میں گذر جاتا ہے کہ کب اور کس وقت کس طرح گھر جانا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ فہد کی طرح سارے ارمان خاک میں مل جاتے ہیں ۔کاش ان پردیسیوں کی گھر واپسی کی چمک دھمک سے متاثر ہونے کی بجائے حقیقت کو تلاش کیا جاتا تو وہ پردیسی بھی گھر لوٹ آتے جو ان فرمائشوں کو پورا نہ کرنے کے خوف سے کئی سالوں سے ان ہی صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔

Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 38545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.