شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

٭مفتی محمدتوقیر بدر القاسمی
استاذ افتا وقضا المعھد العالی امارت شرعیہ پٹنہ ،بہار
آج کے کالم کے توسط سے مجھے بھی ان حقیقی عوامی جمہوری افراد میں شامل ہونے کاموقع مل رہا ہے جنہوں نے اپنی اپنی بات بے لاگ لپیٹ نظریاتی طور پہ اپنے شہری کے بیچ رکھنا اپنا قومی فریضہ اور انسانی ورثہ سمجھا،اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے متوقع حکومت سے ان کے دعوے اور منشور کی بنیاد پہ ترقیاتی وملکی استحکام نیز ’ملکی تکثیر ی تہذیب وتمدن سے عدم چھیڑ چھاڑ‘کا ملک کے مفاد میں مشورہ بھی دیا ۔

چناچہ سینئر ومعمر بزرگ صحافی کلدیپ نیر نے صاف صاف جہاں یہ بات کہی ’’میں نظریاتی وجوہ سے نریندر مودی کو ہندوستان کا وزیر اعظم بنتے دیکھنا نہیں چاہتا تھا ،ملک کو مرتکز کرنے کی ان کی کوشش ملک کے مفاد میں نہیں ہے ؛لیکن رائے دہندگان کی پسندکی بات الگ ہے ،مودی نے منصفانہ اور آزادانہ انتخاب میں جیت کر حکومت کرنے کا حق حا صل کرلیا ہے اور وہ اپنے منشور پہ عمل درآمد کے حقدار ہیں جو خود ان کے الفاظ میں انتقام کے بجائے ترقی کی سیاست پیش کرتا ہے ‘‘۔ وہیں انہوں نے واضح طور سے اپنے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے جناب مودی کو یہ مشورہ بھی دیا ہے’’تاہم مودی کو وسیع تر تصویر یعنی ہندوستان کے تصور کو ذہن نشین رکھنا چاہئے ،ہندوستان کا تصور نہ علاقائی ہے نہ نظریاتی ،اسے اقتصادیات اور سیاسیات سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے ،اس ملک کا تصور اس کی فضا جیسا کہ ہم آزادی کی جد وجہد کے دوران سمجھتے رہے ہیں ڈیمو کریسی ،تکثیریت اور مساوات پسندی سے عبارت ہے ‘‘۔

اسی طرح موہن داس کرم چند گاندھی کے ایک ہونہار پوتے گوپال کرشن گاندھی نے اپنے کھلے خط کے ذریعے مودی صاحب کو لکھا ہے ’’محترم نامزد زیر اعظم ! آپ کو دلی مبارک باد دیتے ہوئے میں یہ کہہ رہا ہوں ،میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کو مبارک باد دیتے ہوئے تہہ دل سے اور پوری طرح سے سنجیدہ ہوں حالانکہ میرے لئے اتنا آسان نہیں ہے؛ کیونکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو آپ کو اس اعلیٰ عہدہ پر دیکھنا چاہتے تھے ،جہاں آپ پہونچے ہیں ۔اس بات سے آپ بخوبی واقف ہونگے اور آپ کو احساس بھی ہوگا کہ جہاں لاکھوں کی تعداد میں عوام یہ دیکھ کر جشن ومسرت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم آپ ہونگے وہیں لاکھوں ایسے بھی ہیں جو اس حقیقت سے ذہنی طورپریشان ہیں اور بہت زیادہ پریشان ہیں ،میں ابتک ان کی باتوں پر یقین کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھا جو یہ کہہ رہے تھے کہ آپ اس عہدے کی طرف کی پیش قدمی کررہے ہیں ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ نے پیش قدمی کردی ہے اور آپ اس گدی پہ بیٹھنے والے ہیں جس پر کبھی جواہر لال نہرو بیٹھے تھے‘‘۔

آگے اسی سلسلہ کلام کو جاری رکھا ہے اور ان ہوں نے بھی ان کو جو مشورہ دیا ہے وہ ان کے لئے مفت ہی سہی مگر بڑا قیمتی ہے وہ تحریر کرتے ہیں ’’ مودی صاحب میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ اقلیتوں کے تعلق سے آئین ہند کا جو نظریہ ہے اس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا اس میں کمی یا اس میں سے کچھ تحلیل کرنے کی کوشش نہ کریں ! یہ آپ کے لئے ایک تاریخی فتح ہے مودی جی !جس کے لئے آپ کو ایک مرتبہ پھر مبارک باد ! یہاں سے آپ ایک تاریخی شروعات کرسکتے ہیں ! آپ ذہین اور باصلاحیت ہیں اور آپ اپنے سے پہلے کی نسل کے ایک شخص کے مشوروں کا برا بھی نہیں مانیں گے ! جس طبقے نے آپ کی حمایت کی ہے اورآپ کا ساتھ دیا ہے اس طبقے کے لئے آپ ضرور اچھا کریں لیکن اس طبقے کا اعتماد بحال کرنا آپ کی بڑی ذمہ داری ہے جنہوں نے آپ کی حمایت نہیں کی ۔‘‘

اسی کے ساتھ ساتھ راقم خط نے ان کو ۳۱ فیصد ملنے والے اور۶۹ فیصد نہ ملنے والے ووٹوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یادہا نی کراتے ہوئے نہرو ،مہارانا پرتاپ ،مغل بادشاہ اکبر ،ساورکر اور امبیڈکی تقلید کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اس بات پہ اپنی بات ختم کی ہے ’’آپ کی رگوں میں ہندوتوا ہے تو آپ آرایس ایس کے کارکن کی طرح بھی رہیں لیکن ب سے بڑھ کر آپ ’ہندوستان کے وزیر اعظم ‘ بنیں اور ۶۹ فیصدلوگ آپ کو ایسا ہی دیکھنا چاہیں گے جنہوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا ہے ۔‘‘

مذکورہ بالا سطور میں جو باتیں رقم ہیں اگر ان کا خالی الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک حقیقی جمہوری کے پرستار اور غیر جذبا تی مگرشعوری فکر بردار انسان کے لئے ،ایک ایک لفظ اس کا ترجمان نظر آئیگا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نتائج یہی بتاتے ہیں کہ اس پارٹی کو کل ۳۱ فیصد ووٹ ہی ملے ہیں، جس کا صاف مطلب ہے کہ ۶۹ فیصد ووٹ کہیں اور پڑے جو ان کی جھولی میں نہیں آسکے ۔مگر جمہوری ملک میں ہوتا یہی ہے کہ مد مقابل میں سے جسے زیادہ ووٹ ملے ہیں وہی فاتح اور وہی ملک کا گدی نشیں !چناچہ یہاں بھی یہی ہو ا یہ ۳۱ فیصد لاکر بھی فاتح اس لئے رہے کہ بقیہ ۶۹ فیصد ووٹ خود ۷۳ نام نہاد سیکولرازم کے پرچارک میں جاکر ۳۱ کا مقابلہ تو کیا خاک کرتے وہ ۱۱ (گیارہ) پانے اور کہلانے کے بھی حقدار نہیں رہے ۔ بعد ازاں ان کی اس پہ بے شرمی اور منھ زوری ایسی کہ الاماں !

کون نہیں جانتا کہ قنوج یوپی میں زوجہ اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ یوپی ڈمپل یادو بہو ملائم سنگھ نے وہاں سے فتح اس لئے حاصل کی کہ وہاں سے کوئی کانگریس کا امیدوار نہیں تھا ۔اور بدلے میں سماج وادی پارٹی نے امیٹھی اور رائے بریلی میں اپنا امیدوار نہیں اتارا تو وہاں سونیا گاندھی زوجہ آنجہانی راجیو گاندھی اور راہل گاندھی پسر راجیو گاندھی نے جیت درج کی ،جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جب اقربا پروری کے جذبے اور خویش پرستی کے نقطہ نظر سے انتخاب جیتنا تھا تو اس کے لئے حکمت عملی اپنائی، لین دین ہوا ،بند دروازے پلانننگ کی گئی اور کامیاب ہوئے ۔اے کاش وطن پرستی کے جذبے میں بھی اس فارمولے کو لاگو کیا جاتا ! اور آج عوام کو منھ دکھا پاتے !

اب وہ دور نہیں رہا کہ الیکشن کو جنگ کا اکھاڑا بنا کے پبلک کے سامنے چہرے پہ سیکولرازم کا مکھوٹہ لگائے ووٹ کاارتکاز اپنے حق میں کرلیا جائے،یقینا جنگ میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک مد مقابل پہ دس مل کر ٹوٹ پڑیں تو اس کا چت ہونا اور راہ فرار اختیار کرنا ایک لازمی اور فطری بات ہے؛ مگر الیکشنی جنگ میں اس کلیہ کو منطبق کرنا یا تو سیاسی خودکشی کہلاتاہے یا دماغ پہ سیاست کا وہ بخار جس میں مریض کومہ میں جاکرسامان عبرت بن جا تا ہے!

جہاں تک بات ہے ملی ومذہبی قائدین کی سیاسی اپیلیں جاری کر کے ’دوست تو بنا نہ سکے البتہ دشمن کی تعداد بڑھا لی ‘والی کیفیت میں مبتلا ہوکے قوم وملت کا سودا کر کے انہیں متاع کوچہ وبازار بنانے کی ہے تو اب تک اس پہ کافی مذمتی بیانات آچکے ہیں ؛ بلکہ یوں کہا جائے کہ اس بار آزادی کے بعد اس آزاد ملک میں پہلی بار بہت ساری باتیں اس طرح رونما ہوئیں کہ اس کی کوئی نظیر ماقبل میں نہیں ملتی! مثلا یہی کہ پہلی مرتبہ ایسا ہو ہے کہ ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی حلقے یوپی میں ایک بھی مسلم نمائند ہ منتخب نہیں ہوسکا،اسی طرح کانگریس پہلی بار اس حالت میں پہونچی ہے ،نیز یہ کہ آر ایس ایس پہلی بار کھل کر قیادت کی ہے اور اس پارٹی کو اس طرح اکثریت ملنا اول ریکارڈ ہے وغیرہ وغیرہ ،راقم کے نزدیک انہی واقعات میں یہ بھی شامل ہے کہ ایسا پہلی بار ہو ا ہے کہ ان مذہبی حضرات( سیاسی کو چھوڑئیے !وہ تو اس کے عادی ہوچکے ہیں ) کو پہلی بار خواہ وہ کسی مسلک ومشرب سے تعلق رکھتے ہوں اس قدر نشانہ ان کے اپنے مریدین محبین اور مخلصین کے ذریعہ بنا یاگیا ہے ،جس کے یہ یقینا مستحق تھے بھی اور نہ سدھر ے تو رہیں گے بھی !

اب سوال یہ ہے کہ پھر ملک کی قیادت میں مسلمانوں کا کیا رول ہو ؟ ان کی قیادت کون کرے ؟ اس کا جواب راقم کے نزدیک یہی ہے کہ اس سے پہلے یہ طے کی جائے کہ ’قیادت ‘ کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کے لئے مطلوبہ اوصاف کیا ہیں ؟ طریقہ کار وحکمت عملی نیز افراد وکارکنان کون اور کس طرح کے ہوتے ہیں ؟ اس کی تنظیم وترتیب اور استحکام کے لئے کتنی مدت درکار ہوتی ہے؟ جب تک ان تمام شوشے اور گوشے کو کھلے دل ودماغ سے طے نہیں کر لیاجاتا اس وقت تک نہ تو قوم کا بھلا ہونے والا ہے اور نہ ہی آخرت میں ذمہ داری سے سبکدوشی کا امکان ہے ،ہاں دنیا میں کچھ مل ملاجائے ،کنبہ پل پلا جائے تو اس سے انکار نہیں ۔

اب رہ گئی یہ بات کہ جسے آنا ہے وہ آئیگا اسے جمہوری طریقے سے یہ حق حاصل ہو اہے، تو اب ہمیں کرنا کیا ہے اس نکتے پہ سبھی غور کریں اور سیرت کے واقعات سے سبق لیں اگر کہیں ’’صلح حدیبیہ‘‘ آواز دے تو اس پہ بھی لبیک کہنے کو تیار رہیں ، تاکہ خاموشی سے ہم پھر سے خود کو صحیح رخ پہ لانے کے لائق بناسکیں !ممکن ہے کوئی جذباتی اسے بزدلانہ مشورہ قرار دے مگرہم اﷲ پہ بھروسہ رکھنے والے اورامید کے متوالے اس سے صرف یہی کہ سکتے ہیں ’’فعسی ٰ ان تکر ھو اشیا ویجعل اﷲ فیہ خیرا کثیرا ‘‘ ( سورہ نساء۱۹) اس لئے اب کسی بھی عالم یا قائد کو زیب نہیں دیتا کہ بھڑکاو بھاشن اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے وقت بے وقت دیتا پھرے ؛کیونکہ ایسے بھاشن سے وہ پہلے ہی اپنے مقابل کو اکٹھا کرکے اپنے گلے پہ چھڑی چلا چکے ہیں۔ انہیں نمائشی کردار کے بجائے اپنا رول ماڈل عمر فاروق ؓ کو بنا نا ہوگا جنہوں نے کہا تھا ’’امیتو الباطل بالصمت ‘‘کہ باطل کی بیخ کنی خاموش رہ کر پا مردی سے کرو ! یہ شکست نہیں فتح کا پیش خیمہ ہو اکرتا ہے ،یہ فنا نہیں بقا کا اصل مظہر ہے ۔کیا ہم دریا میں خاموش طوفان برپا کرنے والے موجوں سے بھی گئے گذرے ہیں کہ ان کے مسلسل بلا انقطاع بہاؤ سے اپنے استقلال وبقا کوبھی مربوط نہ کر پائیں!اقبال نے ہم سے شاید اس بہاؤ سے یہی سبق لینے کوکہا ہے ۔ع:
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46607 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More