اسلامی انقلاب کیا اور کیسے؟

اسلامی انقلاب کی بات جب آتی ہے تو عموماً مسلمان اسے کوڑوں کی سزاء، پردے اور مولوی کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی نقیب جماعتیں ابھی تک عوام کو اس کا درست مفہوم سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی ایک وجہ تو ان جماعتوں کا خواص سے باہر نہ نکلنا ہے، دوسرے کارکنان، داعیان کی تربیت اس نہج پر نہیں ہوسکی کہ یہ مفہوم عام اور سادہ الفاظ میں کیسے بیان ہوسکتا ہے۔ دوسری وجہ محنت کی کمی ہے۔ تیسری وجہ قیادت کا فقدان ہے جو عوام کو اسلامی انقلاب کی آواز کی پشت پر جمع کرسکے اور متحرک رکھ سکے۔

مفہوم
اسلامی انقلاب کا سادہ الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کا بھیجا ہوا قانون اور طرز زندگی جو قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی سنت میں بیان کردیا گیا ہے۔ جس میں کوئی مولوی، کوئی فقیہ اور کوئی پیر کمی یا اضافہ نہیں کرسکتا۔ جو امن ، اخوت، تعمیر، ترقی اور فقید المثال کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ وہی نظام ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے اپنے دور میں قائم کیا اور جس کی مثال پوری دنیا نہیں دے سکی۔ کافر اور مشرک بھی اس نظام کی برکات کے قائل ہیں۔

اسلامی انقلاب کیوں ضروری ہے
اسلامی ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔ انسان مسلمان تب ہی ہوتا ہے جب وہ اللہ تعالیِ کو اپنا رب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کو اپنا رھبر اور نبی مانتا ہے۔ اللہ تعالی کو رب اور حضور کو نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالی اور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق گزارے گا۔ زندگی کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے الگ، الگ قانون کی پابندی نہیں کرے گا بلکہ پوری زندگی اسلامی نظام کے مطابق گزارے گا۔

اگر یہ اسلام ہے تواس پر عمل کسی معاشرے یا ملک میں نافذ کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ انفردای معاملات تو انسان کسی نہ کسی طرح پورے کرنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ اجتماعی معاملات میں جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہوگی تو وہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کہاں سے کروائے گا۔ وہ اسلامی نظام تعلیم سے کیسے استفادہ کرے گا، وہ اسلامی نظام معیشت سے کیسے مستفید ہو سکے گا۔

اگر اسلام نافذ نہیں ھوگا، تو انسان اس کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکیں گے اور اس کے نتیجے میں وہ جنت کے حقدار بھی نہیں ہوں گے۔

اسلامی سزائیں
اسلام نے معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھنے اور انسانوں کے لیے عزت اور احترام سے زندگی بسر کرنے کے لیے مجرموں کے لیے سخت سزائیں قائم کررکھی ہیں۔ اسلام سزا دینے سے پہلے معاشرے میں تعلیم عام کرتا ہے، نیکی اور بدی کی پہچان دیتا ہے، انسان کو زندگی بسر کرنے کے لیے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ہر انسان کو جائز طریقے سے روزی کمانے کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح اسلامی انسان کو قناعت پسندی کی تعلیم بھی دیتا ہے اور معاشرے کو قناعت پسندی کی عملی تصویر بنا کر بھی پیش کرتا ہے۔ اسلام دولت جمع کرنے، اس کی نمائش کرنے اور فضول خرچ کرنے سے بھی روکتا ہے۔ معاشرے میں برائی کی اصل وجہ چندلوگوں کے پاس سرمایہ کا جمع ہوجانا اور عام انسان کو انصاف نہ ملنا ہے۔ جب ایک انسان کو عزت سے روٹی کمانے کے ذرائع ختم ہو جائیں، جب سرمایہ دار مزدور کا حق مارنے لگیں، جب ریاست معاش کے وسائل انصاف سے تقسیم کرنے کے بجائے مخصوص لوگوں کو نوازنے لگے اور عدالتیں انصاف فراہم کرنے کے بجائے انصاف بیچنے لگیں تو معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے، اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے اور غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظام میں سب سے پہلے انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا انتظام ہوتا ہے اور ظلم، نا انصافی ، کرپشن اور اقربہ پروری کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کو مجرمانہ ذہنیت جرم کرنے پر اصرار کرے تو پھر اسے آہنی ہاتھوں سے روکا جاتا ہے تاکہ معاشرے کے پرامن شہریوں کی جان ، مال اور عزت سے کوئی نہ کھیل سکے۔ دنیا میں انصاف اور امن قائم کرنے کے لیے سزا ضروری ہے ورنہ ہر انسان اپنی مرضی سے دوسروں کے مال، عزت اور جان پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب اور جہاں اسلامی نظام قائم ہوا، وہاں سے جرائم بتدریج ختم ہوئے اور انسانوں کو پرامن اور باوقار زندگی گزارنے کے مواقع میسر آئے۔

مولویوں کی حکومت؟
ہمارے ہاں بہت سارے مسائل کے علاوہ علماء کرام کا کردار بھی قابل توجہ ہے۔ عام لوگ علماء کے طرز عمل سے نالاں رہتے ہیں۔ مناسب تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ، گلی محلوں میں بنی ہوئی یونیورسٹیوں [جامعہ فلاں، فلاں] سے چن ماہ یا چند سال گزار کر علماء کے روپ میں دولت کے پچاری جہاں چاہتے ہیں مسجد اور مدرسہ بنا لیتے ہیں۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ چند ٹکوں کے عوض جس طرح کی سند درکار ہو یا جس قسم کا فتوی مطلوب ہو مل جاتا ہے۔ چرس اور افیون تلاش کرنی مشکل ہے، جعلی فتوی اور سند تلاش کرنی آسان ہے۔ اس کے علاوہ تعویز، گنڈے،کرائے پر قرآن خانیاں اور قبروں پر تلاوت جیسے کاموں کے یہ طبقہ چند ٹکوں کے عوض دستیاب ہوتا ہے۔ علم ، حکمت اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ان کم بختوں نے علماء کے طبقے کو بدنام کررکھا ہے۔ علماء کو تو نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے اپنا وارث قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود اسلامی حکومت سے مراد علماء کی حکومت نہیں بلکہ مسلمانوں کی حکومت ہے۔ عوام اپنے ووٹ سے جن افراد کو منتخب کریں گے، وہی حکومت کریں گے۔ اسلام میں علماء کو قانون سازی کا حق نہیں دیا گیا۔ وہ اسلامی قانون کی تشریح تو کرسکتے ہیں لیکن قانون سازی نہیں۔ اس لیے علماء سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اسلام کا نظام مثالی ہے
اسلام جب تک غالب رہا ہے، اس نے عدل، انصاف، معیشت اور فروغ علم کی عالمگیر مثالیں قائم کی ہیں۔ آج دنیا بھر کے غیر مسلم اس پر متفق ہو چکے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ داری اور سودی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور معیشت کی بقا اور ترقی کے لیے اسلام کا غیر سودی نظام معیشت اختیار کرنا ہوگا۔ اس طرح اسلام کا نظام عدل، نظام تعلیم، نظام معاشرت اور نظام حکومت ہر قسم کی آلائشوں سے پاک اور صاف ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کا بنایا ہوا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اور نظام انسان کو عزت، امن اور ترقی دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ انسانیت کی فلاح اور بقا اسی میں ہے کہ اسے اسلام کا مثالی اور آفاقی نظام فراہم کیا جائے۔

اسلامی نظام کی فرضیت
اللہ تعالٰی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض عائد کیا ہے کہ وہ دن رات محنت کرکے دنیا پر اسلام غالب کریں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مسلمان نماز، روزہ، حج، زکواۃ کی ادائیگی اور چند وضائف اور صدقات دے کر جنت کا حقدار بن جائے گا، یہ غلط تصور ہے۔ اسلام پوری دنیا کے انسانوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلاکر اللہ کی بندگی اور غلامی میں دینے کا نام ہے۔ اسلام معاشرے سے ہرطرح کے ظلم کو ختم کرنے، عصبیتوں کو جڑ سے اکھاڑ دینے اور ناانصافی کا خاتمہ کرنے اور عدل اجتماعی قائم کرنے کا نام ہے۔ جہاں انسانوں اور حیوانوں سب کو برابر زندگی گزارنے کا موقع میسر ہو، کوئی کسی کی طرف میلی آنکح سے نہ دیکھ سکے، کوئی کسی کا حق نہ مار سکے۔ کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہ ہو۔ شاہ اور گدا دونوں کے لیے ایک طرح کی سہولتیں اور ایک ہی طرح کا قانون ہو۔رنگ، نسل، جغرافیے اور تاریخ کے تمام امتیازات مٹا کر ہر ایک کو ایک جیسے حقوق فراہم کرنا ہم مسلمانوں کا فرض ہے، جو ہم اسلامی نظام زندگی قائم کرکے یعنی حقیقی اسلامی ریاست قائم کرکے ہی ادا کرسکتے ہیں۔ اسلام خطہ ارضی سے ہر طرح کے ظلم کو مٹا کر انسانوں کو پرامن، یکساں اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع دینا چاہتا ہے۔ وسائل کو چند انسانوں کے تسلط سے نکال کر ہر انسان کے لیے قابل حصول بناکر ترقی کے تمام راستے واہ کرنے کا نام ہے۔

اس لیے بھی اسلام کا نفاذ ضروری ہے کہ دنیا میں مسلمان موجود ہوں اور وہاں انسانوں سے بیگارلی جاتی رہے، انسانوں کے حقوق سلب کیے جاتے رہیں، انسانوں کی عزتیں غیر محفوظ ہوں، طاقتور کمزوروں کا کھانے کے درپے رہیں۔ وسائل پر قبضہ کرکے دوسرے انسانوں کو محروم کیا جاتا رہے۔ تو پھر کسی مسلمان کو اس دنیا میں موجود رہنے اور نہ رہنے میں کوئی فرق ہے۔ مسلمان تو انسان اس وقت ہوتا ہے جو وہ دنیا سے ظلم کے خاتمے کا علم بلند کرے، وہ دنیا میں اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے قانون کو نافذ کرے اور ہر طرح کے ظلم، جبر اور ناانصافی کا خاتمہ کردے۔ اس لیے مسلمانوں کی بخشش اسلامی نظام حکومت کے قیام میں مضمر ہے۔ مسجدوں اور مدارس کی تعمیر، نمازوں کی ادائیگی اور حج و صدقا ت سے عوض خود کو جنتی قرار دینے والے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے اللہ سے توبہ کریں۔ سیکولر جماعتوں کے ساتھ اپنا وقت لگا کر جہنم نہ خریدیں بلکہ متحد اور منظم ہو کر اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہو جائیں۔
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105754 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More