پِیشّ : بلوچ ثقافتی خام مال ، ایک تجزیاتی مطالعہ

1.1 پیشّ کی تعریف:
بلوچستان کے پہاڑوں میں ایک خاص قسم کی خودرو بوٹی پائی جاتی ہے اور ہر موسم میں لہلاتی رہتی ہے۔ بلوچی زبان میں مختلف علاقوں میں اُسے داز ، گیڈ اور کولڈکے نام سے پہچاناجاتاہے۔ اُسی خودروبوٹی کے پتّے کو پِیشّ کہتے ہیں۔پیشّ اپنی ساخت کے لحاظ سے ایک چوڑا،پتلا اور مضبوط پتا ہوتا ہے۔ جس سے بلوچ قدیم زمانوں کے روایتوں سے اپنی ضرورت زندگی کے مصنوعات بناتے آرہے ہیں۔اس سے بنے ہوئے مصنوعات کو بلوچ اپنے پاؤں میں چپل سے لے کر لحدکو بندکرنے کے لیے چٹائی کی شکل میں بھی استعمال کرتے ہیں، یوں کہا جائے تو بہتر ہے کہ بلوچ کی زندگی اور پیشّ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔روزمرّہ کے کثرت استعمال اور ضرورت زندگی کے سستے مصنوعات پیشّ سے ہی بنائے جاتے ہیں اسی لیے بلوچ دیہی معاشرے میں پیّش کو ایک ثقافتی مصنوعات کی صنعت میں خام مال کی حیثیت حاصل ہے۔

1.2پیشّ بُرّ:
وہ لوگ جن کاذریعہ معاش پیشّ کے پتّے کاٹنا اور اُس سے مصنوعات بنا کر بیچنا ہے مقامی زبان میں اُن کا کوئی نام مخصوص نہیں ہے لیکن میں انہیں پیشّ بُرکہتاہوں۔ بلوچ معاشرے میں پیش کاٹنا اُن سے روزمرہ کے مصنوعات بناکر ان کی ترسیل کرنا ایک جائز اور عام روایتی بلوچی پیشہ ہے جس پر کوئی قانونی، مذہبی، اخلاقی یا معاشرتی پابندی نہیں ہے۔ کیونکہ پیشّ کے انسانی معاشرے پر کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوتے اور اُس کے استعمال سے سماج کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اِسی لیے پیشّ بُر اس کو ایک باعزت پیشہ سمجھ کر صدیوں سے اپنی روزی روٹی کا ذریعے بنائے ہوئے ہیں۔یہ خانہ بدوش لوگ ہوتے ہیں جن کا گزر بسر صدیوں سے اِسی پیشے سے وابستہ ہے۔پیشّ بُر عام آزاد منش خانہ بدوش ہوتے ہیں اور اپنے مہمانوں کی بلوچی روایتی انداز میں خاطرتواضع اور دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے ہیں۔پیشّ بّروں کے علاوہ ضرورت زندگی کے لیے عام لوگ بھی اُس وقت پیشّ کاٹتے ہیں جب اُن کو ضرورت پڑتی ہے۔

1.3 پیشّ بُرّوں کے علاقے:
پیشّ چوں کہ ایک خود رو پہاڑی بوٹی کا پتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں کثرت سے پایاجاتاہے کسی فارم یا کھیت میں اُسے کاشت نہیں جاسکتا۔پیشّ بُرّ جن علاقوں میں رہتے ہیں وہ علاقے صدیوں سے اُن کے مسکن ہیں اسی لیے وہاں کی ہرپیداور اور ذرائع معیشت پر پہلا حق اُن کا ہے ۔پہاڑی علاقوں میں رہنے والے خانہ بدوش اسی لیے پیّش کے پیشے سے منسلک ہیں کیونکہ وہاں اور کوئی ذریع معیشت نہیں ہوتاہے اورصدیوں سے پیشّ کے مصنوعات بنانے کے خالق اور مؤجد بھی وہی ہیں اور یہی اُن کا قدیم روایتی اور ثقافتی روزگار ہے۔جن پہاڑی علاقوں میں وہ رہتے ہیں تو آس پاس کے تمام پودوں کے فطری مالک بھی وہی ہیں۔ اُن کے علاقوں میں کسی شہری کا جاکر پیّش کاٹنا بغیر اُن کی اجازت کے ممکن نہیں ہے۔ جن علاقوں میں خانہ بدوش نہیں رہتے تو وہاں بغیرکسی کی اجازت کے پیشّ کاٹنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اگر کسی نے اُن کے علاقوں میں جاکر دیکھا ہے تو وہ بخوبی جانتاہے کہ وہاں کتنی مقدار میں پیّش کاٹا جاتاہے اور اُسے سُکھانے کے لیے وہ کیا کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔پیشّ کے کاروبار کرنے والے خانہ بدوش چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہتے ہیں، جن کے مسکن پیشّ اور لکڑیوں سے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔پوری بستیوں میں رہنے والے خانہ بدوش یا تو ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر آپس میں رشتہ دار ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے تما م پہاڑی علاقوں میں خانہ بدوش اُسی صورت حال میں رہتے ہیں۔اُن کی زندگی کا دارو مدار بارشوں پر منحصر ہے۔ جہاں بھی بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں وہ وہاں کا رُک کرتے ہیں۔ پیشّ اور لکڑیوں کے کاروبار کے علاوہ وہ بھیڑبکریاں بھی پالتے ہیں اور انہیں بیچ کر اپنی روزی روٹی حاصل کرتے ہیں۔

1.4پیشّ کے روایتی مصنوعات:
بلوچ معاشرے میں پیّش سے بنے مصنوعات کی صدیوں سے اہمیت اور ضرورت رہی ہے۔پیشّ سے بنے مصنوعات بلوچ سماج کے ہر پہلو میں ضرورت زندگی کا اہم حصّہ مانا جاتاہے۔ جتنی مصنوعات بلوچ قوم صدیوں سے لے کر آج تک پیشّ سے بناتے اور استعمال کرتے آرہے ہیں کسی اور قوم میں اُس کا استعمال شاید نہ ہو۔ کھجور کو محفوظ کرنے کے لیے پیشّ سے جومصنوعات بنائے جاتے ہیں ، اّن میں ’’پات‘‘ جو ایک خاص قسم کا مستطیل نما، تھیلا ہوتاہے جس میں کھجور کو رکھا جاتاہے جس میں سالوں تک وہ محفوظ رہتاہے، اس کے علاوہ ‘‘گورپات‘‘ ’’پاچک‘‘’’گرکو‘‘ ’’کپات‘‘ بھی کھجور کو محفوظ کرنے کے مصنوعات ہیں۔روزمرّہ زندگی میں استعمال ہونے والی ایک خاص قسم کی ٹوکری جسے’’سُند‘‘ کہتے ہیں، جو سودا سلف لانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ کھجورکے درخت پر چڑھنے کے لیے ایک خاص قسم کی مضبوط رسی اورایک پٹّہ بنایاجاتاہے جس پر آسانی سے کھجور کے درخت پر چڑھا اور اُترا جاسکتاہے، جسے ’’تور‘‘ کہتے ہیں۔’’اُوہند‘‘ ایک لمبی سی رسّی ہوتی ہے جس سے کھجورکے درخت سے کھجوروں کو نیچے اتاراجاتاہے۔اس کے علاوہ پاؤں میں پہننے کے لیے روایتی چپّلوں کے کچھ اقسام بنائے جاتے ہیں جن میں ایک سواس ہے جس کو پاؤں میں رسّیوں کی مددسے باندھی جاتی ہے۔اسی سے ملتاجُلتا ایک اور قسم بھی ہے جسے ’’ترکل‘‘ کہتے ہیں۔ ’’بزبانی‘‘ بھی پیشّ سے بنی ہوئی ایک پاپوش ہے جو نہایت مضبوط ہے اور بارشوں میں پہننے کے لیے نہایت آرام دہ ہے۔اکیسویں صدی میں جہاں ربڑ اور چمڑے سے بنے ہوئے جوتے اور چپّلوں کے نت نئے اقسام پہنے جاتے ہیں تو بلوچ معاشرے میں خانہ بدوش سے لے کر دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اُسے پہنتے ہیں۔بلوچ خواتین کشیدہ کاری کے دوران کپڑے رکھنے کے لیے پیشّ سے بناہوا ایک گول تھیلا استعمال کرتے تھے جسے ’’کٹور‘‘ کہتے ہیں۔’’کٹور‘‘ سے ملتاجُلتا پیشّ سے بنا ایک اور بڑا تھیلا جسے ’’مَلو‘‘ کہتے ہیں ۔ خانہ بدوش عورتیں اپنے روایتی سنگھار کے سامان اور کپڑے اُس میں رکھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں گھوم کر ضرورتِ زندگی کے مصنوعات ڈال کر بیچنے کے لیے ایک گول ٹوکراا ستعمال کیا جاتاہے جسے ’’سپت‘‘ کہتے ہیں ۔اونٹ اور گدوں پر بردباری کے لیے مخصوص قسم کے بڑے تھیلے جسے ’’کچ‘‘ اور ’’لچ‘‘ کہتے ہیں۔روایتی چارپائی کی رسیوں سے لے کر دیگر کئی اقسام کی رسّیاں بھی بنائی جاتی ہیں ۔ مختلف اقسام کی خوبصورت چٹائیاں بھی بنائی جاتی ہیں ، اس کے علاوہ چھوٹے بچوں کے لیے ہرن، کشتی، کتے اور دیگر جانوروں کے نمونوں کے کھیلونے بھی بنائے جاتے ہیں۔

پیشّ سے بنائے ہوئے مصنوعات کی فہرست بہت طویل ہے جنہیں صدیوں سے لے کر آج تک بلوچ دیہی معاشرے میں استعمال کیاجاتاہے۔ آج کل روایتوں سے ہٹ کر اُن میں جدّت پیداکرنے کے لیے اُن پررنگین پشم اور جانوروں کے بالوں سے ہلکی سی خوبصورت روایتی کشیدہ کاری بھی کی جاتی ہے۔

1.5 پیشّ کے کاریگر:
بلوچ معاشرے میں پیشّ سے بنے مصنوعات کی کاریگری نہایت شفاف اور خوبصورتی سے کی جاتی ہیں ۔ اس کے لیے سرکاری یا پرائیویٹ ادارے نہیں ہیں۔ یہ ایک روایتی فن ہے جو بلوچ نے صدیوں سے خود ہی ایجادکی ہے۔پیشّ سے بنے مصنوعات کے کاریگر عموماً دیہی اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والی بوڑھی عورتیں اور مرد ہوتے ہیں۔یہ فن اُن میں نسل درنسل منتقل ہوتاہوا یہاں تک آن پہنچاہے۔ خانہ بدوشوں اور دیہی علاقوں کے ادھیڑ عمر کے مرد اور خواتین کے علاوہ اُن کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی پیشّ سے مصنوعات بنانے میں مہارت رکھتی ہیں۔یہی کاریگری اُن کا روزگار اور شوق ہے۔ گھرکے دیگر کام کاج کے علاوہ وہ اکثر اپنے جھونپڑیوں اور درختوں کے سایے میں بیٹھ کر اپنے فن میں مصروف نظرآتے ہیں۔اُن کی کاریگری کو دیکھ یہ تصوّر نہیں کیاجاسکتاکہ یہ انہی کے ہاتھ کی بنی ہوئی مصنوعات ہیں۔اپنے ہاتھوں کی اسی کاریگری کو عملی جامہ پہنانے کے بعد وہ اپنی روایتی مصنوعات شہرمیں لے جاکر بیچتے ہیں اور اپنی روزمرہ زندگی کو سادگی سے گزارتے ہیں اور یہی اُن کا ذریعہ معاش ہے اس کے علاوہ شہروں میں پیشّ سے بنے مصنوعات کی خریدو فروفت کے ذریعے یہی خانہ بدوش اور پہاڑی لوگ ہیں اور اصل بلوچ تہذیب و ثقافت کے امین بھی ہیں۔انہی کی وجہ سے شہروں میں بھی کچھ لوگ پیشّ سے بنے مصنوعات کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ پیشّ کے انہی کاریگروں کو اگر کچھ رقم اپنے فنکاری کی وجہ ملتا ہے تو دوسری طرف اس کو آگے ترسیل کرنے والے دکانداروں کو بھی کچھ ملتاہے۔شہروں سے پیشّ اور پیشّ کے بنے مصنوعات اُن دیہی ، میدانی علاقوں اور جنگلوں میں رہنے والے لوگ خریدکرلے جاتے ہیں جن کے علاقوں میں پیشّ نہیں پائی جاتی ہے۔ پیش کی دُکانیں اکثر چھوٹے شہروں کے مچھلی مارکیٹ ، سبزی مارکیٹ اور بکرا منڈی یاپھر روایتی فرنیچرزاور لکڑ مارکیٹ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔جہاں دوکاندار بلوچی پگڑی سرپرباندھے رسیاں اور ٹوکریاں بناتے ہوئے بھی نظرآتے ہیں۔بلوچستان میں تربت ، گڈانی،بیلہ ، حب ،وندرسبّی اور دیگرشہروں میں پیش سے بنے مصنوعات کی مارکیٹیں پائی جاتی ہیں جہاں انہی خانہ بدوش کاریگروں کے روایتی فن کی جھلک شہرسے گزرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔سرکاری سرپرستی نہ ہونے اورجدید مشینی دریافت سے خانہ بدوشوں کے روایتی فن کو ماضی کے مقابلے میں کم مارکیٹنگ کا سامنا ہے۔ ثقافتی اداروں کو چاہیے کہ وہ ان کاریگروں کو مالی مددفراہم کریں تاکہ وہ اپنی مصنوعات کو شہری منڈیوں تک پہنچاسکیں۔

1.6پیشّ کا ثقافت میں کردار:
صدیوں سے جب بلوچ قوم نے اپنے پیروں کو ننگامحسوس کیا تو پیشّ سے چپّل بناکر پہننا شروع کردیا ، جب اُس نے سونے اور بیٹھنے کے لیے بستر اورقالین کی ضرورت محسوس کی تو پیشّ سے چٹائی بناکر اُس کو بچھانا شروع کردیا۔ جب اُس نے رہنے کے لیے گھر کی ضرورت محسوس کی تولکڑیوں کے ساتھ چٹائی باندھ کر اور اُس کی چھت پر پیش ڈال کر اپنا مسکن تعمیر کرلیا۔جب مسکن کی صفائی کی ضرورت پیش آئی توپیشّ سے جاڑو بناکراُس میں پھیردیا۔ جب اُس نے نمازاور ذکر پڑھنے کی ضرورت محسوس کی توپیشّ کو خاص اصولوں سے ترتیب دے کر مصلیٰ بنا کر اُس پر عبادت کرنا شروع کردیا۔ جب اُس کو اپنے قبروں کے لحد بند کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت پڑی تواُسی چٹائی کو لحدپر رکھ کر مٹی ڈال دیا۔یوں پیشّ بلوچ ثقافت میں اس قدر رچ بس گیا کہ صرف اُسی کا ہی پہچان بن کر رہ گیا۔ اور صدیوں سے لے کر آج تک بلوچ قوم کے ہر شعبہ زندگی میں پیشّ کو خارج نہیں کیا جاسکتاہے۔بلوچ قوم کے علاوہ کسی اور قوم میں پیشّ کو کوئی ثقافتی اہمیت حاصل نہیں ہے۔اِسی لیے پّیش بلوچی دیہی ثقافت کی علامت کے طورپر پہچاناجاتاہے۔
آزادمنش اور خانہ بدوش بلوچوں نے ایک خود روبوٹی کے پتے کو جس طرح اپنے معاشرے میں ایک نجی صنعت کے مقام پرلاکھڑا کردیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔اُن کی وجہ سے بلوچ معاشرے میں ایک روایتی فن وجود رکھتاہے۔جس سے بلوچ دیہی ثقافت کی پہچان نمایاں ہوتی ہے۔ جب بلوچ دنیا بھر میں جہاں بھی کسی ثقافتی پروگرام میں اپنے ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں تو پیشّ سے بنی انہی مصنوعات کو وہاں پررکھ دیتے ہیں۔ جس سے دوسرے اقوام کے مقابلے میں بلوچ قوم کی ایک الگ پہچان برقرار رہتی ہیں۔

1.7پیشّ پر روایتی سیاست:
پیشّ جو کہ پیدائش سے لے کر موت تک بلوچ کے سنگ ہے پھر بلوچ معاشرے کے ہر شعبے کو اُس کا متاثر کرنا ایک لازمی امر بن جاتاہے۔اسی لیے کچھ عرصے سے پیشّ اور اُس کے کاروبار پربلوچستان کے موجودہ سیاسی حالات کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جہاں کچھ روشن خیال لوگ پیشّ کے جائزروایتی اور ثقافتی کاروبار کوخانہ بدوشوں کے معاشی ذرائع اور بلوچ روایتی فن کی ترسیل اور ثقافتی تغیر گردانتے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ پیشّ کے کاروبار کو اسمگلنگ قراردے کر ایک شہر سے دوسرے شہر تک جھونپڑیوں اور مرغ کے فارم ہاؤس کی چھتوں میں استعمال ہونے والے خام پیشّ اور پیشّ سے بنے دیگر مصنوعات کی ترسیل کرنے والے پیشّ بّروں اور کرایے کے ٹرک ڈرائیوروں کو پہاڑوں اور راستے میں دیکھ کر قتل کردیتے ہیں۔ گزشتہ چندسالوں کے دوران کئی پیّش بُر اور کرایے کے ٹرک ڈرائیور بلوچ ثقافت کی ترسیل اور اپنے روایتی وفطری فن اورخاندانی ذریعہ معاش کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹے ہیں۔جس پرایک طرف غریب ،کسمپرس اوربدحال پیشّ بّروں اورخانہ بدوشوں میں اپنی زندگی کے بارے میں تشویش کی لہر دوڑرہی ہے اور بلوچی روایتی و فطری فن اور قدیم پیشے کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں تو دوسری طرف انہیں قتل کرنے والوں کے حمایتی کچھ عجیب قسم کے دلائل دیتے ہیں جس کو سُن کر حیرت ہوتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنے والے بلوچستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور ’’پہاڑوں میں روپوش ہیں ‘‘اگر خانہ بدوش پّیشوں کوکاٹ کر فروخت کرتے ہیں تو’’جنگل ختم ہوتی ہے‘‘ پھرآزادی پسند کہاں چھپ جائیں؟

یہاں پر یہ امر قابل غور ہے کہ ایک قوم پرست کا کام لوگوں کی جان و مال اور ذرائع معیشت اور روزگار کاتحفّظ فن کاری و کاریگری اور تہذیب و ثقافت کی حوصلہ افزائی اور اُس کی ترسیل و تغیر اور اُسے وسعت دینا ہوتاہے۔کیونکہ قوم پرستی کے ماخذات میں قوم اور اُس کے افراد اور وسائل میں اُن کا مکمل اختیار و اشتراک شامل ہوتے ہیں ۔انسانوں کو قتل کرنا اُن کے املاک کو جلانا اور اُن کے روایتی و تاریخی روزگار اور معیشت کے دروازے بند کرناقوم پرستوں کا نہیں نوآبادکاروں کا کام ہوتاہے۔ اس لیے قوم پرست، نوآبادکار اور دیسی نوآبادکارجیسے پیچیدہ فلسفیانہ انقلابی اصطلاحات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ پیشّ اور اُس کے کاریگری اور روزگارپر روایتی سیاست کے منفی اثرات مرتب کرنے کے بجائے اُس کو ترقی پسندانہ سیاست کے ذریعے وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ جدید انسانی معاشروں میں یہ عمل ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ انسانوں کو قتل کرکے، اْن کے املاک کو جلایا جائے ،اْن کے روزگار اور کاریگری و فنکاری ، ثقافتی مصنوعات اور ذرائع معیشت کا خاتمہ کرکے درختوں اور جنگلوں سے پیارکیاجائے۔

1.8 حاصلِ بحث
پیشّ کے مختلف پہلوکے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بلوچ معاشرے میں پیشّ کو ایک نہایت ہی سستا ثقافتی خام مال کے طور پر بلوچ خانہ بدوشوں نے ہاتھ کی فن کاری اور کاریگری سے ضرورت زندگی کے مختلف مصنوعات کے قالب میں ڈھال کراپنے قوم کے لیے کارآمد بنایا۔ جس وقت دنیا لوہے اور چمڑے سے کام لے رہا تھا تو قدیم بلوچ خانہ بدوشوں نے اپنی ضرورت زندگی کا آغاز پیشّ سے کیا۔بعد میں اُسے وسعت دے کر مختلف مصنوعات کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے تک پہنچادیا۔ دنیا میں جہاں آج تک لوگ چمڑے ، لوہے اور دیگر معدنیات سے کام لے رہے ہیں تو بلوچ اُن کے ساتھ ساتھ اب بھی ایک عام پہاڑی بوٹی کے پتے یعنی کہ پیشّ سے کام لے کر اپنی زندگی کی ضروریات کو اپنی بساط کے مطابق پورا کررہاہے۔ اسی وجہ سے پیش کے مصنوعات کو بلوچ دیہی معاشرے میں ثقافتی شناخت کے طور پرپہچاناجاتاہے۔بلوچ ثقافت میں پیشّ کے مصنوعات کے رَچ بسنے سے اُس میں روزگار کے زرائع پیدا ہوگئے بعد میں خانہ بدوشوں نے پیشّ کے مصنوعات سے اپنا ایک نجی صنعت قائم کیا، اُسے ایک جائز اور باعزّت ثقافتی پیشے کے طورپر بلوچ سماج میں رواج دیااور اُسی سے کاریگری اور فن کاری کرکے اُسے دوسرے علاقوں اور شہروں کے مضافات میں بسنے والی آبادیوں تک پھیلادیا۔یوں پیشّ کے مصنوعات اور اس کے کاروبار نے خانہ بدوشوں کی بدولت بلوچ معاشرے میں ایک ثقافتی شناخت کی وجہ سے اپنی ضرورت بھی پیدا کی ۔ جدید صنعتی اور ٹیکنالوجی کا عہد بھی بلوچ معاشرے کی ضرورت یعنی پیشّ کے مصنوعات کے نعم البدل تو پیدا کرسکامگر بلوچ دیہی معاشرے سے اُس کے قدیم صنعت کا مکمل طور پر خاتمہ نہ کرسکا۔لیکن آج کل جس تیزی سے پیشّ کے کاروبار کامختلف طریقوں سے مذمت کی جارہی ہے جس سے مستقبل میں بلوچ معاشرے سے پیشّ کے مصنوعات کی قلت کے علاوہ اُس سے جُڑے افراد کی قدیم روایتی اور ثقافتی پیشہ اور ایک قدیم تاریخی و نجی صنعت کا خاتمہ ہوسکتاہے۔
Shoaib Shadab
About the Author: Shoaib Shadab Read More Articles by Shoaib Shadab: 8 Articles with 8982 views Shoaib Shadab is a Research Scholar and Progressive Writer. He is Founder-President of Liberal Scholars Society, Balochistan .. View More