100فی صدتعلیم یافتہ اورجرائم سے پاک ایک مثالی گاؤں

کسی دور میں اچھی روایات ہوتی ہوں گی لیکن اب تو گاؤ ں کی زندگی بلعموم مشکلات سے بھرپور ہے۔سہولیات کی فقدان اور وسائل کی کمی اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا مسئلہ رویوں کا ہے۔بات بات پر طنز،طعنے ،بدکلامی،گالم گلوچ اور معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے۔سینوں کے اندر حسد اور کینے کی سُلگتی بھٹیاں اور زبانوں پر غیبت اور چغلی کی گرم بازاری۔اپنی دنیا بنانے اور بسانے کے بجائے دوسروں کی بگاڑ کے منصوبے،یہ ہیں یہاں کے روز وشب کے معمولات۔بھائی بھائی کا دُشمن ہے تو باپ بیٹے سے بیزار اور بیٹا باپ سے متنفر۔نہ گھر کے اندر سکوُن نہ گھر کے باہر چین۔

شہر کی زندگی اس سے مختلف اورعجیب و غریب تضادات کا مجموعہ ہے۔وہاں گاؤں جیسا ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے کو گرانے کارواج تو نہیں لیکن گرنے والے کو اُٹھانے اور سہارا دینے کی بھی کوئی ریت بھی نہیں۔پڑوسی پڑوسی سے بے نیاز یہاں تک جنازے میں بھی شرکت ضروری نہیں سمجھا جاتا۔جنازوں میں زیادہ تر خونی رشتہ دار ہی شریک ہوتے ہیں جن کی تعداد 40,30سے تجاوز نہیں کرتی۔ہاں جنازے کو اگر نماز کے وقت پر مسجد کے باہر رکھا گیا ہو تو نمازیوں کی شرکت سے گزارا ہوجاتا ہے۔تدفین کے لیے البتہ رشتہ داروں کے علاوہ پیشہ ور گورکنوں کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔سچ تو یہ ہے شہر میں رہنا ایک معاشی مجبوری کے طور پر ہم جیسوں نے گوارا تو کرلیا ہے لیکن شہرمیں مرنے سے کچھ زیادہ ہی خوف آتا ہے۔ایسے میں اگر آپ کو کوئی یہ خبر دے کہ ایک ایسا گاؤں بھی موجود ہے اور وہ بھی پاکستان میں جہاں لوگ باہم شیر وشکر ہیں وہاں نفرت اور لڑائی جھگڑا نام کو بھی موجود نہیں تو آپ کو یقینا اچھا بلکہ بہت ہی خوش گوار لگے گا۔لیکن ہم اس خبر سے اب تک محروم ہیں سارے نہ صحیح اکثر یقینا محروم ہیں کیوں؟

اس لیے کہ یہ بریکنگ نیوز کا دور ہے۔اخبار کے ادنیٰ سے ادنیٰ رپورٹر سے لے کر الیکٹرانک میڈیا کے نوخیز ،خوبرو اور ہر قسم کے ضابطہ اخلاق سے بے نیاز اینکر پرسن تک سب کو ایک ہی نشہ ہے ایسی بات کہنے کا جس کو پڑھ اور سُن کر سب کے کان کھڑے ہوجائیں ،سنسنی پھیل جائے اور مشرق تا مغرب اُس کی دھوم مچ جائے۔جرنلزم کی اصطلاح میں خبر وہ ہے جس میں کسی انسان نے کُتے کو کاٹ ڈالا ہو۔اس تعریف کی رُو سے دھماکے،خودکُش حملے،اغوا،قتل،ڈکیتی ،عصمت دری وغیرہ جیسی لرزہ خیزوارداتیں ہی خبرکا درجہ پاتی ہیں اور ہمیں تواتر سے ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں البتہ کوئی فائدے کی بات،کوئی مثبت اقدام اور تعمیری کام خبرکی تعریف پرپورا نہیں اترتا ۔یہی وجہ ہے کہ ہم صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کے گاؤں رسول پور کے حالات و واقعات بلکہ نام تک سے بے خبر ہیں۔دو ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل رسول پور نامی یہ گاؤں انڈس ہائی وے پر راجن پور سے 35کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔سرسری نظر سے دیکھا جائے تو یہ عام سا گاؤں ہے ۔غور کیا جائے تو یہ خوش گوار روایات کی حامل ایک مثالی اور منفرد بستی ہے۔اس گاؤں کی شرح خواندگی 100فی صد ہے لیکن یہ لوگ اقوام متحدہ کی وضع کردہ شرح خواندگی کی تعریف یعنی صرف حروف تہجی کو پڑھنے لکھنے اور دستحط کر نے کی استعداد رکھنے والے کو پڑھا لکھا نہیں مانتے ۔ان کے ہاں پڑھا لکھا کم ازکم میٹرک ہے۔اپنی آبادی کے دوسال بعد یعنی 1935میں اس گاؤں والوں نے اپنی مد د آپ کے تحت لڑکوں اور لڑکیوں کے دو الگ الگ پرائمری سکول قائم کیے۔اب یہ دونوں ہائی سکول کا درجہ پاچکے ہیں۔کسی نے درست ہی لکھا کہ رسول پور والوں کی بلی بھی گریجویٹ ہوتی ہے۔پورے بستی میں ایک مرکزی جامع مسجد ہے۔گاؤں کی کوئی گلی ٹیڑھی نہیں۔صفائی کا اتنا اہتمام ہے کہ کہیں کوڑا نظر نہیں آتا،حتیٰ کے بھینسوں کے باڑوں میں بھی۔پوری بستی نو سموکنگ زون ہے۔کوئی چائے کا کھوکھا نہیں۔احمدانی بلوچوں کی یہ بستی 1933میں یہاں بس گئی تھی ،سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ کہ تب سے اب تک 81,80برسوں میں کوئی ایک ایف آئی آر درج کرنے کی نوبت نہیں آئی۔جرائم کی شرح صفر ہے۔(میں سوچتا ہوں وہاں قریبی تھانے والے بے چارے کیا کرتے ہوں گے۔)پوری بستی کے معاملات باہمی مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔اس بستی کے کچھ ضابطے قابل اعتراض بھی ہیں مثلاکسی غیر قبیلے کے فردکو نہ یہاں کاروبار کی اجازت ہے نہ شادی بیاہ اور مکان بنانے کی۔تاہم مجموعی طور پراس بستی کی تعمیر وترقی،اتحاد ،امن وامان اور مشاورت جیسی زریں روایات قابل تقلید ہیں۔کیا ہم کوشش کرکے ایسی جنت نظیر بستیاں نہیں بسا سکتے؟یہ سوال ہے ہم سب کے لیے۔

Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16168 views Editor,urdu at AFAQ.. View More