میڈیا کے بدمست ہاتھی کو قابو کرنے کا سنہری موقع

جیو گروپ ایک کے بعد دوسری مصیبت میں پھنستا جارہا ہے، بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معمول کی بات نہیں، بلکہ اللہ کی پکڑ ہے، جس کی لپیٹ میں ان دنوں جیو آیا ہوا ہے۔ خود اس گروپ کے سرکردہ رکن جناب انصار عباسی نے بھی اپنے کالم میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ حامدمیر پر حملہ ایک بھیانک واقعہ تھا مگر اس واقعے نے جیو کی ریٹنگ کو آسمان تک پہنچا دیا تھا، پورے ملک میں اس کے لیے ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوگئی تھی مگر یہ ہمدردی پانی کا ایک بلبلہ ثابت ہوئی، کیونکہ حملے کے کچھ دیر بعد ہی جیو پر آئی ایس آئی کے سربراہ کو جس طرح ٹارگٹ کلر کے طور پر پیش کیا گیا اسے عوام نے پسند نہیں کیا۔ ابھی جیو اس مہم جوئی کے اثرات سے لڑنے میں مصروف تھا کہ شائستہ لودھی کے پروگرام نے تو گویا قیامت ہی برپا کردی۔ رہی سہی کسر اس گروپ کے رپورٹروں نے کیبل آپریٹروں پر چڑھائی کرکے پوری کردی۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی میڈیا گروپ کے خلاف عوام اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آئے ہیں، روزانہ جلسے، جلوس اور مظاہرے ہورہے ہیں، وکلاءعدالتوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں، حتیٰ کہ اسکولوں کے طلبہ بھی بیگ اٹھائے جلوسوں میں شریک ہیں، عجیب منظر ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف جیو ہے اور دوسری طرف باقی ملک ہے، جو لوگ جیو کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ بھی خوف یا مصلحت کی وجہ سے اپنی بات نہیں کرپارہے۔ معاملہ پیمرا، عدالتوں اور تھانوں تک پہنچ گیا ہے۔ صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو اس مسئلے نے تقسیم کردیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے، اب تو یہ خوف بھی ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ معاملہ تشدد کا رخ نہ اختیار کرلے۔

جیو اور آئی ایس آئی کا معاملہ بھی سنگین تھا مگر اس میں مثبت پہلو یہ تھا کہ اس جنگ کو قانون کے دائرے میں لڑا جارہا تھا، فوج نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے پیمرا سے رجوع کیا تھا لیکن شائستہ لودھی کے پروگرام نے خودکش بمبار کا کردار ادا کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی مذہبی معاملات میں بہت حساس ہیں، اس لیے توہین آمیز پروگرام پر عوامی ردعمل توقع کے عین مطابق ہے، اس پروگرام سے عوام کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں، ہر انصاف پسند شخص ملزمان کو سزا دینے کی ضرور حمایت کرے گا، یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں مگر ہمیں اس سارے معاملے کا ایک اور رخ سے بھی جائزہ لینا چاہیے۔

جیو کا توہین آمیز پروگرام دراصل میڈیا کے بے لگام ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ جس چیز کی بنیاد پر آج جیو کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے، اسی طرح کی حرکت دیگر ٹی وی چینل بھی کرتے رہے ہیں۔ اے آروائی کے مارننگ شو میں شادی بیاہ کی رسومات دکھاتے ہوئے ایک سے زاید بار یہ قوالی چلائی گئی۔ قارئین کو یاد ہوگا اسی چینل پر چند ماہ قبل ”سرعام“ نامی پروگرام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے، جس پر اہل سنت والجماعت کے سینکڑوں کارکنان نے اس کے دفتر کا گھیراؤ کیا، چینل نے اس واقعے پر باقاعدہ معافی مانگی جو باربار نشر کی گئی۔ اسی طرح ایک اور چینل سماءپر بھی شادی کی رسومات کے موقع پر یہ قوالی چل چکی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں کھلے عام اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے، چونکہ بات بہت لپیٹ کر کی جاتی ہے، اس لیے عام آدمی سمجھ نہیں پاتا۔ اسی میڈیا پر کھلے عام حدود اللہ کے خلاف مہم چلائی گئی، یہ ہی وہ میڈیا ہے، جس نے شادی کی عمر سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش کی آڑ لے کر اسلامی تعلیمات پر جملے کسے۔

بات صرف توہین آمیز پروگراموں تک محدود نہیں، بلکہ اس مادر پدر آزاد میڈیا نے تو شرم وحیا کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کسی شریف آدمی کے لیے اپنے بچے اور بچیوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ انٹریٹمنٹ کے نام پر چلنے والے ٹی وی چینل ڈراموں کے نام پر جو کچھ دکھا رہے ہیں، اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے شاید ملک کے سب مسائل کا حل صرف لڑکیوں کو ”کوڑی“ پھینکنے کے گر سیکھنے میں ہے۔ ترکی اور بھارت سے ڈھونڈڈھونڈ کر ایسے ڈرامے لائے جارہے ہیں جن میں بے غیرتی کے نئے نئے انداز ہوں۔ سچ پوچھیے تو اس نامراد میڈیا نے ہمارے گھروں کو سینما گھروں میں تبدیل کردیا ہے۔

نیوز چینلوں کا بنیادی کام عوام تک درست خبریں پہنچانا ہے، لیکن اپنے کام میں یہ بری طرح ڈنڈی ماررہے ہیں، یہاںتک کہ خبرناموں میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا معمول کی بات ہے، اگر کوئی اعتراض کرے تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے، جی ہم نے آپ کا موقف بھی تو نشر کردیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ صرف موقف دینا تو کافی نہیں ہوتا، خبر کا سچ ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ نے محض الزامات کی بنیاد پر ایک شخص کو بیچ چوراہے پر بے عزت کردیا اور کہتے ہیں موقف تو دیا تھا۔ اگر کوئی زیادہ شور کرے تو عدالت جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اس لیے ان ٹی وی چینلوں کا ڈسا شخص اپنی ذات پر لگا داغ نہیں دھوپاتا، ہاں اگر کوئی ان صحافیوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر اسی طرح کی ”خبر“ جاری کردے تو انہیں صحافتی اصول یاد آجاتے ہیں۔ گویا خبروں کے نام پر ایک سرکس لگا ہوا ہے، یہی حال ٹاک شوز کا ہے، رات 8 سے 10 بجے تک ہر کوئی اپنی اپنی چاٹ کی دکان کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔

میڈیا کے بارے میں اوپر جو رونا رویا ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے، ایک عرصے سے اس معاملے پر کالم لکھے جارہے ہیں۔ آج کا کالم محض یاد دہانی کے طور پر سپردقلم کیا ہے، جو لوگ آج کل جیو گروپ کے خلاف سڑکوں پر ہیں یا ہر گھنٹے کی بنیاد پر گرماگرم بیانات جاری فرمارہے ہیں، ان سے یہ تو نہیں کہتا کہ وہ کوئی غلط کام کررہے ہیں، البتہ دو باتیں ضرور ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پتا نہیں کیوں یہ تاثر عام ہے کہ شائستہ لودھی کے پروگرام کے خلاف ہونے والا احتجاج دراصل اس پروگرام کے خلاف نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے۔ کوئی کہانی ہے یا نہیں، ہم اس چکر میں نہیں پڑتے، البتہ اگر مظاہرین جیو کے ساتھ ساتھ دوسرے چینلوں کے توہین آمیز پروگراموں کو بھی اپنے ایجنڈے کا حصہ بنالیں تو ان کی طرف اٹھنے والی انگلیاں نیچے ہوسکتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سانپ کے ساتھ ساتھ سانپ کی ماں کو مارنا ضروری ہے، توہین آمیز پروگرام، فحاشی وبے حیائی، الزامات بھرے خبرنامے، پیڈٹاک شوز ان سب خرابیوں کی ماں میڈیا کی بے لگام آزادی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ میڈیا کی آزادی آوارگی کی حدود میں داخل ہوچکی ہے، مظاہرین کو میڈیا کی اس آوارگی کو نشانہ بنانا چاہیے۔

ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ یہاں دھڑادھڑ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے اجازت نامے دیے گئے مگر ان پر نظر رکھنے کے لیے کوئی موثر ادارہ بنایا جاسکا اور نہ ہی کوئی ضابطہ اخلاق ہے۔ اس معاملے میں حکومت کی کوتاہیاں اپنی جگہ مگر خود میڈیا بھی ضابطہ اخلاق کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔ آج میڈیا چھری کے نیچے آہی گیا ہے تو اسے کسی متفقہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے پر آمادہ کیا جانا بھی آسان ہے۔ اس کی اکڑفوں کسی حد تک نکل چکی ہے، اس لیے امید یہی ہے کہ یہ ماضی کی طرح زیادہ ہاتھ پاو¿ں نہیں مارے گا۔ اگر احتجاج کرنے والے ادھر ادھر کی بجائے اپنی توانائیاں میڈیا کو کنٹرول میں لانے کے نکتے پر صرف کردیں تو حکومت بھی اس بدمست ہاتھی پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کرے گی، ورنہ بات صاف ہے، آج نہیں تو کل میڈیا بہرحال اس دباؤ سے نکل ہی جائے گا اور پھر یہی مداری اور یہی قوم ہوگی۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102564 views i am a working journalist ,.. View More