امریکی جاسوس کی رہائی اورہماری آزادی وغیرہ کی حقیقت

کراچی پولیس نے ایف بی آئی ایجنٹ جیول کاکس کو عدالتی احکامات کے بعد رہا کردیاہے۔ عدالت نے جیول کاکس کی جانب سے 10لاکھ زرضمانت عدالت میں جمع کروانے کے بعد رہائی کا باقاعدہ حکم نامہ بھی جاری کردیا جس کے بعد پولیس نے جیول کاکس کو آرٹلری تھانے کے عقبی دروازے(Back door)سے باہرنکالااورامریکی قونصل خانے کے حوالے کردیا۔

جیول کاکس نامی اس شخص کو5مئی2014ء کو اسلام آباد جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ سے اس وقت گرفتارکیاگیاجب اس کے سامان میں سے نائن ایم ایم پستول کی 15گولیاں ، میگزین، تین چاقو، جاسوسی کیمرے اوردیگربرقی آلات برآمدہوئے۔ ائیرپورٹ پولیس نے سندھ آرمزایکٹ2013ء کے سیکشن 23(ا) کے تحت اس کو حراست میں لیا۔ ایس ایس پی انورنے میڈیا کو بتایا کہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ جوئیل ایک امریکی شہری ہے جو ویزے پر پاکستان آیا ہے۔ گرفتاری کے چندگھنٹے بعدامریکی میڈیا نے یہ دعویٰ کیاکہ جوئیل کاکس ایف بی آئی ایجنٹ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے واشنگٹن کے سرکاری ذرائع کی وساطت سے بتایاکہ جیول کاتقرر ایف بی آئی میامی کے فیلڈآفس میں ہے پاکستان میں وہ عارضی ڈیوٹی پر گیا تھا۔ اخبارنے جیول کے والد کے بیان کا حوالہ بھی دیاہے۔ جس نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جیول کاکس ایف بی آئی کا ایجنٹ ہے اور وہ تین مہینوں کے لیے دفتری کام کے سلسلے میں پاکستان گیا تھا،البتہ یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سپوکس پرسن جِن ساکی(Jen Psaki)نے ابتدا میں ایک نیوزبریفنگ کے دوران یہ بات بھی کی کہ ایف بی آئی کا اہل کار جیول اسلام آبادمیں امریکن ایمبیسی کے فوجی اتاشی کے دفترکے ساتھ معاونت کے لیے پاکستان گیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیول مسلح نہ تھا، میگزین ، گولیاں اور چاقووغیرہ غلطی سے اس کے سامان میں رہ گئے تھے۔ انھوں نے ساتھ یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ ایف بی آئی اور دیگر یو ایس ایجنسیوں کے اہل کارپاکستان میں اسلحہ ساتھ رکھ سکتے ہیں۔

جیول کومنگل کے روزایک مقامی عدالت میں پورے پروٹوکول کے ساتھ پیش کیا گیا اور ان پر انسداددہشت گردی کے مقامی قانون کے تحت جہازمیں ایمونیشن اور اسلحہ لے جانے کا فردجرم عائدکیاگیا(حالانکہ اس کا کیس واضح طور پر جاسوسی کا تھا)۔ جج نے مزیدتفتیش کے لیے 10مئی تک ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کردیا۔ لیکن اس دوران اسلام آبادمیں امریکن ایمبیسی سے لے کر واشنگٹن کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک امریکی حکومت حرکت میں آگئی۔ امریکی اہل کاروں نے کہاکہ یہ معاملہ چونکہ ’حساس‘نوعیت کا ہے اس لیے مذکورہ شخص کے نام کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔ امریکن ایمبیسی کے سپوکس پرسن میغان گریکونیس کا کہنا تھا کہ امریکی اہل کار پاکستانی اتھارٹی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا ۔وہ یہ بات نہ بھی کہتی تب بھی ہمیں پتا تھا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے یہ تسلیم کیا کہ مذکورہ شخص کا تعلق ایف بی آئی سے ہے لیکن سندھ پولیس کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں۔

ایک جوڈیشل مجسٹریٹ نے چاردن کا ریمانڈدیا۔اگلے دن ضمانت کی درخواست جمع ہوگئی۔ شَنیدہے کہ مذکورہ امریکی جاسوس کی درخواست ضمانت سندھ حکومت کے ہوم سیکرٹری اور اعلیٰ پولیس اہل کاروں نے خود سیشن کورٹ میں جا کر دائرکی ۔درخواست ضمانت میں دلیل یہ درج تھی کہ اس کے پاس کوئی اسلحہ نہ تھا۔ اس لیے اس کو ضمانت پر رہاکردیا جائے۔ پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسرنے خیر اس کی کیامخالفت کرنی تھی۔ لہٰذا 10لاکھ کے مچلکے جمع کرنے پر عدالت نے اُسے ضمانت پر رہا کردیا۔ یوں دودن کاانتظارگواراکیاگیانہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کواس ضمانت کی اطلاع دینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ عدالتی حکم نامے میں ملزم کو فیصلے تک قیام و تفتیشی حکام سے تعاون کا پابندنہیں کیاگیا۔ تازہ خبر ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے جیول کاکس کو 19مئی کو مذکورہ عدالت میں پیش کیا جائے۔ہوگا کیا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

اس بات کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب لاہورمیں ریمندڈیوس نامی شخص نے دونوجوانوں کو دن دیہاڑے سرِ بازار فائرنگ کرکے قتل کردیاتھا پھر فرارہونے کی کوشش میں ایک اور نوجوان کو گاڑی تلے کچل دیاتھا۔ تاہم پولیس نے اسے گرفتارکرلیا۔ امریکانے پہلے اسے اپناسفارت کار قراردیابعدمیں خفیہ اداروں کا ٹھیکیدار تایا۔ پھر اُسے پورے پروٹوکول کے ساتھ وی آئی پی حراست میں رکھا گیا۔ بڑی لے دے ہوئی۔ شورمچ گیا۔ جانے نہ پائے۔ ہم جانے نہیں دیں گے۔ بالآخر امریکا اسے لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔ تب پاکستان کا عام آدمی اپنی بے بسی اورغلامی پر شرمندہ تھا۔ اس کا وقارخاک میں مل گیاتھا۔ تب پوری قوم کا سرشرمندگی سے جُھک گیا تھا۔حکمران اور اپوزیشن وغیرہ کوالبتہ اس شرمساری سے استثنا حاصل ہے۔

لوگ جیول کاکس کے معاملے کوبھی ریمنڈڈیوس کی قسط ۲ سمجھ رہے ہیں لیکن ہمارے وزیرداخلہ کاکہنا ہے کہ یہ بات درست نہیں کیونکہ ریمنڈڈیوس کا کیس مختلف تھا۔ شایدان کا خیال ہے کہ ریمنڈڈیوس تین افرادکو قتل کرچکاتھا جبکہ جیول کو اس کا موقع ابھی نہیں ملا۔ یاللعجب

ریمنڈ اور جیو ل کو پاکستان کا راستہ کس نے دکھایا؟یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں۔جنرل (ر)پرویزمشرف کے دورمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی جاسوسوں کو راہ دے دی گئی پھر2008ء میں زرداری کے دورحکومت میں امریکا میں پاکستانی سفیرحسین حقانی کی مہربانی سے ایسے لوگوں کا سیلاب آگیا۔ اسلام آباد، پشاور، لاہور اوردیگرشہروں میں سیاہ شیشوں والی کئی گاڑیوں کو جب روکاگیاتوان میں جدیدترین اسلحے سے مسلح اور جاسوسی آلات سے مزین افرادپائے گئے۔ یہ امریکی گاڑیوں سے اترنے اور سکیورٹی حکام سے بات کرنے تک سے انکار کرکے بڑی رعونت کامظاہرہ کرتے اور ہمارے ہی ملک میں ہماری آزادی وخودمختاری کا سرعام مذاق اڑاتے ۔ایسی خبریں بھی آئیں کہ ایف بی آئی، بلیک واٹر اور دیگر امریکی خفیہ اداروں کے افرادنے بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں کرائے پر کوٹھیاں حاصل کررکھی ہیں اور وہاں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس بہترین گاڑیاں اور اسلحہ بھی ہیں۔

آج کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ جیول کاکس کس مقصد کے لیے پاکستان آیا تھا؟ جیول اگرایف بی آئی سے تعلق بھی رکھتا تھا تواس کے متعلق امریکی حکام نے پاکستانی سکیورٹی اداروں کو آگاہی کیوں نہ دی ؟ اور اس کو ہوائی سفر کے دوران اسلحے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟

میں کہتا ہوں کہ اس طرح کے سوالات کے جوابات نہ ہمیں پہلے ملے ہیں نہ مستقبل قریب وبعید میں ملنے ممکن ہے۔سچ بات یہ کہ ایک عام آدمی کو ایسے سوالات سے کیا لینا دینا؛اور غم تھوڑے ہیں؟البتہ میرے ذہن میں جو اہم سوالات اس وقت ہیں وہ یہ کہ کیا کسی پاکستانی شہری کو بھی کھبی کسی دوسرے ملک میں اس طرح کا پروٹوکول نصیب ہوا ؟یاکبھی ہوگا؟ دوسرے ملک کی بات توچھوڑیں کیا ہمارے اپنے ملک میں عام آدمی اس طرح کے پروٹوکول کا سوچ سکتا ہے ؟کیاہوم سیکرٹری اورآئی جی کسی پاکستانی شہری کی ضمانت کے لیے خودپہنچ جائیں گے یا اس طرح کے اعزازحاصل کرنے کے لیے گوری چمڑی اور امریکی شہریت شرط ہے؟اجازت ہو کچھ اور سوالات بھی پوچھ لوں:
اس وقت کہاں گئی حکومتی رٹ؟ کہا ں گئے وہ ادارے اور ان کا وقار؟کہاں گئے وہ ’’دانش ور‘‘ ؟جب اپنے ہم وطنوں کی بات آتی ہے توکہتے ہیں کہ آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے۔ ان کو کچل دیاجائے ،یہ وحشی ہیں ،درندے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ نہ جانے زبان وبیان کیسے کیسے جادوچلائے جاتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے ریمنڈڈیوس کی یاجیول کاکس کی تو بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ پھریہ بڑے’’مہذب‘‘ بن کر خاموش رہتے ہیں۔ اور وہ آزاد عدلیہ اور سب سے بڑھ کر شور جس کا سنتے تھے ،آزاد میڈیا اب کہا ں ہیں ؟یہ ہے ان لوگوں کے وقار، عزت نفس ،آزادی اوردانش کی حقیقت ۔ بقول علامہ اقبال․
وہ گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16245 views Editor,urdu at AFAQ.. View More