اجالے کا سفر

تبصرہ نصرت عزیز(اٹک شہر)
’’آج کی نسل اپنے تاریخی ہیروزطارق بن زیاد، محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، صلاح الدین ایوبی ، نورالدین زنگی، سلطان فتح محمد ٹیپو اور ان جیسے نامور سپہ سالاروں کے جنگی کارناموں کو محض فسانہ یا کاغذوں میں بند تحریر سمجھتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ نہیں بل کہ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے مطالعہ کا ذوق و شوق ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ لائبریریاں نادر کتب سے بھری پڑی ہیں جو دیمک کی غذا بن رہی ہیں لیکن آج کا طالب علم صرف اپنے مطلب منشاء کے نصاب سے استفادہ کرتا ہے ، جو تعلیم کے میدان میں یا آئندہ چل کر معیشت کے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکے ۔ نسل نو کو نہ ناول ، افسانہ، شاعری ، تاریخ اور فلسفہ سے دل چسپی ہے اور نہ اس کے مطالعہ کی ضرورت۔ آج کا دور محض پیسے کی دوڑ میں آگے نکل جانے والوں کا دور ہے۔ ہر کس و ناکس اپنے بینک بیلنس کو بڑھاوا دینے کی سعی میں سرگرداں ہے ۔ خواہ اس کے لیے جائز ذرائع استعمال کیے جائیں یا ناجائز۔۔۔‘‘

یہ وہ فکر ، پریشانی اور احساس ہے جس کو سامنے رکھ کرمحترمہ ساجدہ اکبر نے اپنا فن ، شاعری کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز کو اس امت تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔محترمہ ساجدہ اکبر بھی چاہتیں تو بیشتر افراد کی طرح امت کی موجودہ حالت اور شان دار ماضی سے فراموشی پر صرف گلہ شکوہ ہی کرتی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہوتی مگر انھوں نے ایسا نہ کیا اور ایک کوشش ’’اجالے کا سفر ‘‘ کی صورت میں کی۔

امت کی موجودہ بے کسی اور بے راہ روی دیکھ کر محترمہ کا دل جس درد مندی و فکر مندی کامنبع دکھائی دیتا ہے اس کی گواہی محترمہ کی نظم ’’مرا لفظ لفظ لہو لہو‘‘ دیتی ہے :
؂ مرے درد دل کی ہے داستاں
مرا لفظ لفظ ، لہو لہو

لیکن محترمہ نے اپنی فکر مندی کو صرف شکوؤں اور گلوں تک محدود نہیں رکھا بل کہ غیرت ایمانی جگانے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ امت کے لیے نصیحتوں کا دامن بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا:
؂ یہ جو تہذیب نوی بہتی ہے اپنے خون میں
زہر قاتل کا ہے گویا خونِ مسلم پر خرام
؂ اب دل میں برا کہنا چھوڑواور ظلم کو ہاتھوں سے روکو
ہمت ہو تو رستے کا پتھر ٹھوکر سے ہٹایا جاتا ہے

اقبال کے شاھین کو دور حاضر میں پرکھ کرخوب صورت اور فکر انگیز نظم ’’اقبال کے شاھین‘‘کے نام سے ہی لکھ کر اقبال کے شاھین کی موجودہ حالت کو نمایاں کیا اور ایک فکر کو اجاگر کیا:
؂ وہ کانوں میں بالی سجانے لگا
وہ ہاتھوں میں کنگن چڑھانے لگا

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی نے اقبال کو پڑھ کر اقبالیات میں اعلیٰ ڈگری لی ہو تو وہ اقبال کے فلسفہ خودی کو چھوڑ دے ۔ اقبال کا فلسفہ خودی امت مسلمہ کے لیے ایک جذبہ ایک جوش ہے جس کا سمجھنا تمام امت کے لیے لازمی تب ہے کہ یہ امت مسلمہ کے خون میں تحریک کا باعث ہے ۔محترمہ ساجدہ اکبر نے فلسفہ خودی کو اساس بنا کر امت مسلمہ کے جوش اور غیرت کو جگانے کی کوشش کی۔
؂ خودی ، خود پسندی میں بدل گئی
بلندی تھی پستی میں بدلی گئی
خودی کے بھی اب وہ نہ قائل رہے
تڑپتے تھے جو بے خودی کے لیے

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر قوم کو جگانے اور غلامی کے اندھے کنوئیں سے نکالنے کے لیے شاعرہ نے جس سوز اور درد کو ’’اجالے کے سفر ‘‘ میں نمایاں کیا وہ ہر لفظ لفظ سے چھلکتاہے:
؂ من و سلویٰ اب نہیں اترے گا تیری قوم پر
چھن رہی ہیں نعمتیں اس کا بھی تجھ کو غم نہیں؟

سوئی ہوئی غیرت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عافیہ صدیقی جو کہ اس قوم کی بہن بھی ہے ماں بھی ہے اور بیٹی بھی، درندوں کے ہاتھوں قید ہے۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ اسی قوم نے کہ جس کی یہ بہن ہے ، ماں ہے اور بیٹی ہے، نے عافیہ کو درندوں کے حوالے خود کیا۔محترمہ کی نظم ’’عافیہ صدیقی کے نام‘‘ اس کتاب ’’اجالے کا سفر‘‘ کا ایک شاہکار ہے بل کہ یوں کہا جائے کہ اس کتاب کا دل ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا:
؂ اس بے نوا سے تم یہ تعلق نہ توڑنا
بیٹی ہے قوم کی، اسے تنہا نہ چھوڑنا

’’عافیہ کے نام‘‘ پڑھ کر میرے قلم میں اتنی سکت نہیں کہ میں ان جذبات اور ان احساسات کا احاطہ کر سکوں جن سے مزین ہوکر محترمہ نے یہ شاہکار نظم زینت ورق کی۔اس نظم کی تشریح میں ایک کتاب بھی لکھ دی جائے تو شاید شاعرہ کے جذبات و احساسات کی ٹھیک طرح سے عکاسی نہ ہوسکے۔ اس نظم کا ایک ایک لفظ پریشانی و اضطرابی کا مجموعہ ہے ۔یہ نظم جہاں ایک سوچ ہے وہاں ایک فکر بھی ہے:
؂ امت کے پاس کیا ہے خراج اس کے واسطے
رویا نہیں ہے کوئی بھی آج اس کے واسطے
کیا عصمتیں بھی دار پر کھینچی گئیں کبھی
کیا مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں بیچی گئیں کبھی ؟

چوں کہ یہ کتاب’’اجالے کا سفر‘‘ امت کے لیے ایک فکر اور ایک سوچ کے ساتھ ساتھ ایک نصیحت بھی ہے اس لیے عافیہ کے بارے میں شاعرہ امت کو نصیحت کچھ یوں کرتی ہیں:
؂ بن قاسم اب نہ آئے گا چھوڑویہ انتظار
کرنا نہ دشمنان رہ حق پہ اعتبار
قربانی عافیہ کی جو امت پہ قرض ہے
اس کو چھڑانا قید سے، امت پہ فرض ہے

’’اجالے کا سفر‘‘کا ایک ایک لفظ شاعرہ کے خلوص اور فکر کو نمایاں کرتا ہے جو یقیناً شاعرہ کی سخت محنت اور جاں فشانی کے ساتھ ساتھ امت کے ساتھ محبت اور امت کی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ ایسی کتب شاذو نادر ہی آنکھوں کو ڈھونڈنے سے ملتی ہیں تو اس میں سچ ، مبالغہ آرائی سے مبراء ہو گا۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78724 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Ujalay ka safar - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Ujalay ka safar and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Ujalay ka safar.