برگر ۔۔۔

صاحب کراچی کی طارق روڈ اور اسی طرح کی کم معروف یا غیر معروف جگہوں پہ آنے والے تقریبا آدھے لوگوں کا تعلق ونڈو شاپنگ سے ہوتا ہے۔ یہ تناسب وقت، موسم، تہوار اور “حالات“ کی مناسبت سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ لوگ کھڑکی سے خریداری کرتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ شاپنگ کرنے کم اور تاڑنے زیادہ آتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں برگر زیادہ ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ ٹھیلوں اور دکانوں پر ذرا کم لیکن فٹ پاتھ اور دکانوں میں چلتے پھرتے زیادہ ۔۔۔۔۔ مگر اب طارق روڈ کی وہ انفرادیت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ کراچی کے دوسرے شاپنگ سینٹرز نے خود کو خربوزہ ثابت کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ اب یہ برگر آپ کو ہر شاپنگ سینٹرز میں نظر آجائیں گے ۔

خیر ۔۔۔۔۔ آج اپنے گھر کے قریب ایک بازار میں ایک خاتون کو دیکھ کر بہت عرصہ پہلے طارق روڈ پر پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا-

ہم گھر والوں کے ساتھ خریداری کی غرض سے وہاں گئے تھے اور ایک دکان کے باہر کھڑے تھے کہ دو لڑکوں کی جوڑی میں سے ایک سے بہت بچنے کے باوجود اس کا کندھا ٹکرا بیٹھے ۔۔۔۔۔ موصوف سامنے کم اور ایک قریبی دکان کو زیادہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ معذرت تو انہوں نے خاک کی الٹا ڈھٹائی سے دانت نکالتے آگے بڑھ گئے ۔۔۔۔۔ لمحہ گزرا ہوگا کہ یہی حرکت ایک بزرگ قسم کی شخصیت نے ہم پہ دہرائی اور گردن سیدھی کرکے چلتے بنے ۔۔۔۔۔۔ ہمیں بڑی کوفت ہوئی ۔۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر ہمیں وہیں کھڑے رہنا تھا کہ فیملی دکان کے اندر خریداری میں مصروف تھی اور اس میں بہت رش تھا ۔۔۔۔۔۔ ابھی ہم پاس موجود ایک ستون کی آڑ لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ تیسرا واقعہ پیش آ گیا ۔۔۔۔۔ وہ صاحب بھی بنا کسی معذرت و افسوس گردن سیدھی کرکے چلتے بنے ۔۔۔۔۔ اب مزید سوچنے کا موقعہ نہیں تھا ہم نے فورا ستون کی آڑ لی اور آس پاس کے لوگوں کی نظروں اور گردن کے زاویہ کا پیچھا کیا تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی وجہ سمجھ میں آ گئی ۔۔۔۔۔ وہ ساتھ والی دکان کے باہر کھڑی کسی چیز کا انتہائی سرسری انداز میں جائزہ لے رہی تھی جو شیشے کے پار دکان کے اندر رکھی تھی ۔۔۔۔۔ اس پہ نظر پڑنا تھی کہ ہم نے ان تینوں کو کھلے دل سے معاف کر دیا کہ سو فیصد قصور ان کا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہاں سے گزرنے والا ہر اہلِ نظر ۔۔۔۔۔ پہلی نظر کی چھوٹ سے استفادہ کرنے میں مصروف تھا۔

اِک حسن کا پیکر اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔ بڑی کمال کی لڑکی تھی صاحب ۔۔۔۔۔ ہر لحاظ سے متناسب ۔۔۔۔۔ پردے میں بھی نہیں تھی اور ستر سے باہر بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ مجال ہے جو آپ اسے جلد سمیت ہائی نیک سے اوپر چہرے اور کلائیوں سے نیچے ہاتھ اور ٹخنوں سے نیچے پیروں کے علاوہ دیکھ سکیں ۔۔۔۔۔۔ کپڑوں کے سلسلے میں بھی نہ بخل نہ اسراف ۔۔۔۔۔ ستر چھپی رہے ۔۔۔۔۔ اتنے کپڑے میں کوئی کنجوسی نہیں کی لیکن خواہ مخواہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے یا کوئی اضافی اور غیر ضروری کپڑا پہن کر اسراف بھی نہیں کیا تھا۔

اسے دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ لبادہ اس نے بہرحال گھر ہی میں زیبِ تن کیا ہوگا ۔۔۔۔۔ تو کیا اس کے گھر میں ماں باپ یا بھائی بہن ٹوکنے والا نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس بات کا جواب ہمیں فورا ہی مل گیا کہ لڑکی نے اپنے ساتھ کھڑے شخص سے کہا ۔۔۔۔۔ “ڈیڈی! چلیں ‘ آگے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ابھی لڑکی نے مڑ کر پہلا قدم ہی لیا تھا کہ کسی وجہ سے لڑکھڑا گئی ۔۔۔۔۔ بیٹا! سنبھل کر چلو۔ باپ نے پیار سے تنبیہہ کی۔

اس موقعہ پر ہمارے لئے اس ستون سے سر ٹکرا لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم نے ایسا کیا نہیں ۔۔۔۔۔۔ بھلا بتائیے! جن باپوں کے نظر میں سنبھل کے چلنے کا مطلب یہ ہو ان کی اولادیں جو نہ کریں وہ کم ہے ۔۔۔۔۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ آخر ایسا کیا تھا اس لڑکی میں ۔۔۔۔۔۔ تو صاحب کھل کر کیا کہیں ۔۔۔۔۔

Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 10 Articles with 5520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.