روٹھے پیا کو مناؤں کیسے؟

اس میں شک نہیں کہ بیوی ہر گھر کا اہم ترین حصہ ہے وہ مکان گھر نہیں کہلا سکتا جہاں کم از کم ایک عدد بیوی موجود نہ ہو ۔ بیوی گھر کا وہ فرد ہے جس سے اکثر گھر جنت اور کچھ گھر جہنم کا نقشہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہاہے کہ بیوی انسانی جسم کا وہ لازمی حصہ ہے جو اگر ہو تو انسان دکھی بھی ہوتا ہے اور اگر نہ ہو تو اس سے بھی زیادہ پریشان ہوتا ہے۔ جس نے غلطی سے شادی کرلی تو وہ اس کے اخراجات برداشت نہیں کر پاتا اور جو شادی کی تمنا رکھتے ہیں وہ شادی کے اخراجات اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کا ہر شریف آدمی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے ۔دنیا کے کسی بھی شوہر کا تنہائی میں انٹرویو کرلیں وہ اپنی بیوی کے بارے میں کبھی خوشی کا اظہار نہیں کرے گا بلکہ اس کانام اگر راز صیغہ راز میں رکھنے کی گارنٹی دی جائے تو دنیا کا شریف ترین شوہر بھی اپنی بیوی کی وہ برائیاں کرے گا کہ توبہ توبہ ........

ایک بادشاہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بہت ڈرتا ہے بادشاہ اپنی اس شہرت سے بہت پریشان تھاوزیر نے اسے یہ کہہ کر خوش کردیا کہ صرف آپ نہیں آپ کی رعایا کے تمام مرد بھی اپنی بیویوں سے آپ ہی کی طرح ڈرتے ہیں۔بادشاہ نے کہا منادی کروا کے سب کو ایک جگہ اکٹھاکروجب مقررہ جگہ پر لوگ جمع ہوگئے تو بادشاہ نے کہا جو لوگ اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں وہ سفید جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوجائیں اور جو اپنی بیویوں سے نہیں ڈرتے وہ سرخ جھنڈے کے نیچے آ جائیں ۔ بادشاہ کا حکم سن کر تمام لوگ سفید جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئے لیکن ایک شخص سرخ جھنڈے کے نیچے کھڑ ا ہوا دکھائی دیا ۔ بادشاہ اس شخص کو دیکھ کر بہت خوش ہوا قریب جا کر اس کاماتھا چوما اور کہا مجھے خوشی ہے کہ میری سلطنت میں ایک ایسا بہادر شخص موجود ہے جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا ۔ بادشاہ کی ستائش کے بعد وہ شخص بولا ۔ عالی جاہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ۔ بادشاہ نے کہا ہاں بات کرو ۔ اس شخص نے کہا عالی جاہ سچی بات یہ ہے کہ مجھے میری بیوی نے حکم دیا تھا کہ تو نے ہر حال میں سرخ جھنڈے کے نیچے ہی کھڑا ہونا ہے ورنہ تیری خیر نہیں ہے ۔ چنانچہ بیوی کے حکم پر مجبورا مجھے سرخ جھنڈے کے نیچے کھڑا ہونا پڑا ۔

ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ بیوی سے لڑائی ختم ہوئی یا نہیں ۔ دوسرے دوست نے جواب دیا ہاں بیگم گھٹنے ٹیک کے میرے پاس آئی تھی ۔ پہلا دوست۔ یہ ہوئی نہ مردوں والی بات .....اس نے گھٹنے ٹیک کے کیا کہا۔دوسرا دوست ۔یہی کہ بیڈ کے نیچے سے نکل آؤ میں کچھ نہیں کہوں گی ۔

بہرکیف یہ تو مذاق کی باتیں ہیں جو ہم مرد لوگ اپنی اپنی بیویوں کے بارے میں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ بات حقائق کی روشنی میں ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر بیوی خواہ وہ معصوم دکھائی دے یا چالاک اپنے شوہر کو تگنی کا ناچ ضرور نچاتی ہے بہرحال بیوی جیسی بھی ہو اس کا گھر میں ہونا بہت ضروری ہے ورنہ زندگی بالکل ویران ٗ بیکار ٗ بے معنی اور بے مقصد سی دکھائی دیتی ہے ۔بیوی کی وجہ سے ہر مرد کو زندگی کا احساس رہتا ہے وہ جنت اور جہنم کے ذائقوں سے لمحہ بہ لمحہ آشنا رہتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بیوی کے لیے شوہر ایک ایسا پہاڑ ہے جس کو سر کرنے کے علاوہ بیوی ہمیشہ اس کے سر پر چڑھی رہتی ہے ۔

بیویوں کی بھی کئی قسمیں اور نسلیں ہیں مثلا جھگڑالو بیوی ٗ اکڑفوں بیوی ٗ فرماں بردار بیوی ٗ شکی بیوی ٗ گھنی بیوی ٗ پھوہڑبیوی ٗ بیوقوف بیوی ٗ عقلمند بیوی ٗ ذمہ دار بیوی ٗ وفا داربیوی ٗ بدزبان بیوی ٗ دوست نما بیوی ٗ بیمار بیوی ٗ نخریلی بیوی ٗ چکر باز بیوی ٗ سڑیل بیو ی ٗ بارعب بیو ی ٗ باتونی بیوی ٗ ٹی وی اور فلمیں دیکھنے کی شوقین بیوی ٗ چولہے سے دور رہنے والی بیوی ٗ مذہبی بیوی ٗ افلاطون بیوی ٗ کمسن بیوی ۔ اﷲ کی قدرت پر قربان جاؤں جس نے ایک بیوی کو دوسری سے ملنے نہیں دیا ہر بیوی ہر شوہر کی طرح الگ تھلگ مزاج رکھتی ہے ۔

میرے گھر میں بھی ایک عورت میری بیوی کے روپ میں موجود ہے وہ دیکھنے میں تو بہت سلجھی اور سمجھ دار دکھائی دیتی ہے لیکن جب لڑنے پر آتی ہے تو طارق بن زیاد کی طرح تمام کشتیاں جلاکر پہلے راکھ بناتی ہے پھر میدان جنگ میں تابڑ توڑ حملے کرکے شوہر کی حیثیت سے مجھے پسپا ہونے پر مجبور کرتی ہے ۔ 35 سال پہلے جب وہ میرے گھر آئی تھی تو کتنے لوگوں نے کہا تھا کہ اس کے منہ میں تو زبان ہی دکھائی نہیں دیتی اس وقت شاید وہ اس لیے زبان نکال کر لوگوں کو نہیں دکھاتی تھی کہ لوگ اسے زبان دراز نہ سمجھ لیں وہ میری ہر زیادتی کا بدلہ وفاداری سے دیتی تھی جوں جوں وقت گزرتا گیا اس نے تو پر لگاکر اڑنا بھی شروع کردیاہے وہ میری ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں کھانوں کا اتنا ذائقہ ہے کہ میرے ساتھ جو بھی وہ کھانا کھاتا ہے ہاتھ روکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ شادی کے وقت میں انتہائی دبلا پتلا تھا سینے کی ہڈیاں دور سے دکھائی دیتی تھیں دوست تومذاق مذاق میں ہڈیاں پکڑ کر کھینچ بھی لیتے تھے لیکن جب سے یہ عورت بیوی بن کر میرے گھر میں آئی ہے اس کے پکے ہوئے مزے دار کھانے کھاکھا کر میں تو اتنا توانا ہوچکا ہوں کہ کئی لوگ یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ تم نے کسی پہلوان کی بیٹی سے تو شادی نہیں کرلی جس نے تم کو بھی پہلوان بنا دیا ہے ۔ ڈاکٹر مجھے اپنا وزن کم کرنے کی ہر مرتبہ نصیحت کرتے ہیں اب میں ان کو کیا بتاؤں کہ میں نے ان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہر صبح ناشتے میں دو کی بجائے ایک روٹی کھانا شروع کردی ہے تو بیگم نے دو روٹیوں کا آٹاایک ہی روٹی میں ڈال کر حساب برابر کردیا ہے ۔ گویا ڈاکٹر کی نصیحت پر عمل بھی ہوگیا اور میرے پیٹ میں آٹا پھر بھی اتنا ہی گیا ۔ دراصل وہ مجھے کمزور نہیں دیکھنا چاہتی ۔پہلے وہ میرے ساتھ سیر کے لیے جام شیریں پارک ( لبرٹی پارک لاہور ) جاتی تھی اور اس قدر نقاب کرتی تھی کہ بہت جستجو کے بعد کوئی اس کی بڑی بڑی آنکھیں ہی دیکھ سکتا تھا کئی بار اس نے مجھے یہ نقاب اتارنے کے لیے کہا کہ میرا جی گھبراتا ہے میں نے اس کی یہ بات ہر مرتبہ یہ کہہ کر ٹال دی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کی طرح لوگ تیرا حسن و جمال برداشت نہیں کر سکیں گے اگر کوئی دیکھنے والا بے ہوش ہوگیا تو اسے ہوش میں کون لائے گا لیکن میری اس بات کا اثر یہ ہوا کہ اس نے واک کرناتوچھوڑ ہی دی ہے لیکن رفتہ رفتہ نقاب کو بھی خیر با د کہہ دیا ہے اب وہ بازار میں چادر اوڑھ کر جاتی ہے اگر میں کچھ کہوں تو اس کا جواب یہ ہوتا کہ اب میں بہوؤں والی اور نوجوان بیٹوں کی ماں ہوں اب نقاب کا بوجھ اٹھانے سے گھبراہٹ کا احساس ہوتا ہے کئی مرتبہ میں اسے مذاق میں کہہ دیتا ہوں میری خواہش تو یہ ہے کہ تم شٹل کاک ( پٹھان عورتوں جیسا ) برقعہ پہنا کرو جس میں پورا جسم برقعے میں سمیٹ ہی جاتا ہے اور دیکھنے کے لیے آنکھیں بار یک باریک سوراخوں سے راستہ تلاش کرلیتی ہیں ۔
کچھ عرصے سے محسوس ہونے لگا ہے کہ اب وہ میری بیوی کے بجائے میرے بچوں کی ماں زیادہ دکھائی دیتی ہے ہر غلط بات پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر میرے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور اس وقت تک تابڑ توڑ حملے جاری رکھتی ہے جب تک دشمن ( یعنی میری ) کی فوجیں پسپا ہوکر اپنے وطن لوٹ نہیں جاتیں ۔پہلے وہ ریڈیو سننے کی بہت شوقین تھی شاید ہی گانوں کا کوئی فرمائشی پروگرام ہوگا جو وہ مس کرتی ہو لیکن جب سے گھر میں رنگین ٹی وی آگیاہے اور اس پر کیبل کااضافہ بھی ہوچکاہے وہ صبح سے دوپہر تک اور دوپہر سے رات گئے تک جب دیکھو ٹی وی کے سامنے بیٹھی کبھی انڈین چینل کا ہر دلعزیز ڈرامہ CIDدیکھ رہی ہوتی ہے تو کبھی سلیمان خان اور شاہ رخ خاں کے سٹیج پروگراموں پر اس کی نظر مرکوز ہوتی ہے ۔کپیل کے ساتھ مزاحیہ پروگرام کو چھوڑنا تو اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں میں وہ جیو ٗ پی ٹی وی ٗ اے آر وائی کی دیوانی ہے ایک نک چڑھی اور مغرور سی لڑکی(صنم سعید) کی اداکاری اسے اس قدر پسند ہے وہ روٹی کھانا تو چھوڑ سکتی ہے لیکن اس کا ڈرامہ دیکھنا فرض نمازوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ ویسے وہ میری تمام ضرورتوں کو پورا کرتی ہے کھانا وقت پر ملتا ہے دفتر سے واپس گھر پہنچوں تو قرشی انڈسٹریز کے ہر دلعزیز مشروب مشرق "جام شیریں"سے میرا استقبال کرتی ہے اتوار کی دوپہر مزیدار بریانی مع سلاد کھانے کو ملتی ہے صاف کپڑے پہننے کو ملتے ہیں بستر لگا ہوا ملتا ہے اس کے باوجود یہ احساس مجھے مضطرب کرتا ہے کہ وہ میرے پاس بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے بجائے ٹی وی کے سامنے کیوں بیٹھی ہے جب وہ میرے پاس ہوتی ہے تو اس کی بھینی بھینی خوشبو ہی میرے وجود سے ٹکرا کر ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے اس کی یہ خوشبو میرے ذہن میں کتنی ہی نئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ گھر میں ہوتا ہوں تو میرا زیادہ تر وقت کہانیاں اور کتابیں لکھنے میں صرف ہوتا ہے ۔اس کی سرگوشیاں میرے تخلیقی وجدان سے ٹکراتی ہیں تو سروں کے نئے تال بج اٹھتے ہیں اور میرے قلم سے الفاظ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

یہ احساس مجھ پر طاری رہتا ہے کہ میں اس کے بغیر نامکمل ہوں کیونکہ وہ جب گھر پر نہیں ہوتی تو اس کی قیمت ساری کائنات سے زیادہ ہوجاتی ہے لیکن جب وہ گھر واپس آتی ہے تو میرے لیے بے شمار آسانیوں کا باعث بنتی ہے پھر بھی نہ جانے کیوں کبھی کبھی مجھے اس سے لڑنا اچھالگتا ہے لیکن یہ لڑائی صرف چند منٹوں کے بعد ہی ایک بار پھر شدید محبت میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ ایک دن میں نے حسب عادت اسے ٹی وی دیکھنے کا طعنہ دیا تو اس نے ماضی کی طرح بھرپور جوابی کاروائی کرتے ہوئے مجھے للکارنا شروع کردیا ابھی ہماری زبانیں ایک دوسرے پر تلخ الفاظ کی بارش کر ہی رہی تھیں کہ وہ منظر سے غائب ہوگئی ۔ مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد جب میں گھر واپس پہنچا تو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیا اس کے باوجود کہ گھر میں دو بیٹے دو بہوئیں موجود تھیں لیکن بیگم کی عدم موجودگی نے مجھے پریشان کردیا ۔بے شک وہ لڑتی رہے ٗ بولتی رہے گرجتی رہے لیکن رہے تو میری آنکھوں کے سامنے ۔ اس کی خاموشی بھی مجھے اچھی نہیں لگتی اس وقت جبکہ میں یہ تحریر لکھ رہاہوں پورا ایک دن بیگم کی ناراضی کو ہوگیا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ کوئی بات کرے لیکن اس نے تو بات نہ کرنے شاید قسم کھا رکھی ہے اس کے باوجود کہ وہ میرے ہی گھر میں موجود ہے لیکن پھر بھی مجھے اس کی تلاش ہے دل بار بار اسی کی جانب کھینچا چلا جارہاہے کیونکہ اب اس کی سرگرشیاں میرے وجدان سے نہیں ٹکرا رہیں وہ نہایت خاموشی کے ساتھ اس کمرے میں تو موجود ہے لیکن جس طرح وہ پہلے بات کرتی تھی اب نہیں کررہی ۔ نہ جانے کیوں وہ خاموش ہے اس کی خاموشی مجھے سانپ بن کر ڈس رہی ہے حالانکہ اتوار کی چھٹی کا دن اس کے بغیر گزارنا محال ہوتا تھا اور وہ بھی اتوار کو کہیں جانے سے احتیاط ہی برتتی تھی لیکن آج وہ میرے سامنے بھی ہے لیکن نہیں بھی ہے ۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی سرگوشیوں اور مسکراہٹوں کو میں کس طرح واپس لاؤں ۔

وہ نہ نکمی بیوی ہے ٗنہ غیر وفادار بیوی اور نہ ہی نخرے دکھانے والی بیوی ہے وہ تو دل و جان سے محبت کرنے والی بیوی ہے جس کے بغیر گھر ایک ویرانے کا روپ دھار لیتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گھر کی ساری رونقیں اسی کے دم قدم سے تھیں اب جبکہ وہ میری وجہ سے روٹھ سی گئی ہے تو سمجھ نہیں آرہا کہ اسے مناؤں کیسے کہ اس کے چہرے پر پھر پہلے کی طرح مسکراہٹیں کھلاریاں مارنے لگے ۔ کچھ آپ ہی مدد کردیں کہ میں روٹھے پیا کو مناؤں کیسے ..............
اب پھر پوچھتے ہومقام اپنا
کہہ جو دیا ہے زندگی ہو تم

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 672031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.