سوچیے گا ضرور۔۔۔۔

ماوزے تنگـ کا نام تو آپ نے سُنا ہی ہوگا، ما وزے تنگ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اُنہوں نے کبھی بھی اپنی زُبان کے علاوہ کِسی اور زُبان میں بات نہیں کی ہمیشہ اَپنی زُبان کو ترجیح دی اُنہوں نے اَپنے ساتھ ایک ترجمان رکھا ہوا تھا جو کہ دوسری زُبانوں کاترجمہ کرتا تھا ،چاہے کوئی کتنا ہی بڑا ہی فورم کیوں نہ ہواپنی زُبان کی اِسی قدر کی وجہ سے چائنہ آج ترقی یافتہ قوموں کی لائن میں کھڑا ہے، بہرحال بات کو مختصر کرتا چلوں، ایک دفعہ ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے سوال میں انگریزی نہ بولنے کی وجہ پوچھی توماوزے تنگ نے اپنے ساتھ بیٹھے ترجمان سے پوچھاکہ یہ کیا پوچھ رہا ہے؟؟ حالانکہ ماوزے تنگ اچھی طرح سے انگریزی جانتے تھے، نہ صرف جانتے تھے بلکہ انگریزی کے ایک اچھے writer) (بھی تھے ، جب ترجمان نے یہ بتایا کہ یہ آپ کے انگریزی نہ بولنے کی وجہ پوچھ رہے ہیں۔ اِس سوال کا ماوزے تنگ نے ایساجواب دیا کہ اُس کے بعد آج تک کِسی کو ایسا پُوچھنے کی جُرات نہ ہوئی۔ماوزے تنگ نے کہاــ ’’چین گونگا نہیں ہے ،چین کی اِپنی زُبان ہے‘‘۔ اُس ایک جملے نے تاریخ کی کتابوں میں ایسی ضرب لگائی کہ آج بھی ماوزے تنگ کا نام آنے پر وہ جُملہ ضرور یاد آتا ہے۔

’’چین گونگا نہیں ہے‘‘ اگر تھوڑا سا وقت نکال کے اِس ایک جملے پر غور کیا جائے تواِس کے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ چھُپا ہوا ہے ۔ دراصل اپنی زُبان سے اِتنی محبت ہی آج چائنہ کی ترقی راز ہے ۔ جو قومیں اَپنی ثقافت ،زُبان کوبھول جاتی ہیں اُنکی پہچان ختم ہو جاتی ہے اور اُنکی مِثال دُنیا میں اُن گونگی قوموں جیسی ہو جاتی ہے جِن کے بارے میں ماوزے تنگ نے کہا تھا۔

میں انگریزی نظام کے خِلاف نہیں ہوں اور نہ ہی انگریزی زُبان کے خِلاف ہوں،آج کل کے مقابلے کے دور میں آگے جانے کے لیے انگریزی زُبان بلکہ تمام زُبانیں سیکھنی چاہییں۔اِس کے باوجود ہم نے اپنی پہچان کو بھی یاد رکھنا ہے اور دُنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہم گونگے نہیں ہیں۔

اگر آپ اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو یہاں تو ہماری انگریزی زُبان سے دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ ہم اَپنی زُبان میں بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔آج کل کا بچہ اگر ذراسا بھی اِنگلش کے بجائے اُردو میں بات کر دے تو اُسے اَپنے والدین کی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دوبرس پہلے کی بات ہے کہ میرے آبائی شہر ایبٹ آباد کے ایک بہت بڑے تعلیمی اِدارے کے ایک دس سالہ بچے نے صِرف اِس وجہ سے خودکُشی کر لی کیونکہ ہاسٹل میں اُسے انگریزی بولنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور دس سالہ بچے کا قصور صرف اِتنا تھا(جو کہ بعد میں اُسکی لکھی گئی ڈائری سے پتہ چلا) ’’بابا مجھے سکول میں اور ہاسٹل میں انگریزی بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے،جبکہ مجھے صرف اُردو زُبان اَچھی لگتی ہے ۔میں آپ سب کو چھوڑ کر جا رہا ہوں‘‘ ۔

قارئین! اِس موضوع کا اِنتخاب میں ایک آنکھوں دیکھے واقعے کی وجہ سے کیا’’مختصراََ آپکو وہ واقعہ سنا دیتا ہوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ چند ماہ قبل ہماری کلاس میں ایک سرکُلر(notice) آیا جو کہ عموماََ یہ ہوتا ہے کہ تمام تر نوٹس وغیرہ انگریزی میں ہوتے ہیں، قصہ کچھ یوں ہوا کہ وہ نوٹس ’’اُردو‘‘ میں آگیا ، بس وہ نوٹس کیا آنا تھا کہ سب ہنسنا شروع ہوگئے ، تھوڑی دیر میں بھی ہنسا لیکن اُسی لمحے میرے ضمیرنے مجھے جنجھوڑا اور مجھ سے سوال کیاکہ اپنی قومی زُبان کی یہ قدر ہے ہمارے ہاں ؟؟ ؟؟ ایک لمحے کیلیے میں سوچ میں پڑ گیا اور ماوزے تنگ کا وہ تاریخی جُملہ میرے ذہن میں گُومنے لگا۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ نہ میں انگریزی نِظام کے خِلاف ہوں اور نہ ہی انگریزی زُبان کے خِلاف ہوں، آپ لوگوں سے گزارش صِرف اِتنی کرنی ہے کہ ’’سوچیے گا ضرور کہ کہیں ہم بھی گونگے تو نہیں ـ‘‘ سوچیے گا ضرور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Imran Sharif
About the Author: Imran Sharif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.