تعلیمی ترقی کے تقاضے

میاں شہباز شریف کی جذباتی تقریریں سننے والے یقیناً متاثر ہوتے ہیں اور ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ کچھ یہی حال ہم جیسے اخبار بینوں کا ہے جب بیان یہ ہو کہ ”اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کیا‘ انہیں ججوں کے برابر مراعات دیں گے“ تو کون سنگدل متاثر اور جذباتی نہیں ہوگا۔ عالمی ٹیچرز ڈے کے موقع پر ایوان وزیراعلیٰ میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں انہوں نے جہاں اساتذہ کو ججوں کے برابر مراعات دینے کی خوشخبری سنائی وہاں 34 ہزار اساتذہ کی میرٹ پر بھرتیوں کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کو جھٹلانے والے کو اپنا گریبان پیش کرنے کی دعوت دی۔

ایٹمی طاقت کے کشکول اٹھا کر دربدر پھرنے کے عمل کی مذمت کی اور کہا کہ اس سے ملک کی سیاسی و معاشی آزادی ختم ہوگئی ہے اور ملک بچانے کیلئے آزادی کی کنجی کیلئے اساتذہ کے ہاتھ کو سب سے بہتر قرار دیا جہاں دانش سکولوں میں ایچی سن کے معیار کی بات کی اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے خواہشمند والدین کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا وہاں یہ بھی گنجائش پیدا کردی کہ اگر امیر والدین دانش سکولوں میں اپنے بچے داخل کروانا چاہتے ہیں تو وہ بھی یہ شوق پورا کرسکتے ہیں تاہم انہیں پوری فیس ادا کرنی پڑے گی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم اپنا چال چلن ٹھیک کرلیں٬ سادگی اپنالیں تو ہم اپنے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں ہمیں بھیک نہ مانگنی پڑے.... انہوں نے اساتذہ کو سر کا تاج قرار دیا اور کہا کہ اگر ججز کو سیاست اور دباؤ سے بالاتر ہوکر بھرتی کیا جائے تو انصاف عام ہوسکتا ہے اور اساتذہ کو بھی تمام مراعات دی جائیں گی اور یہ بھی کہ موجودہ حکومت نے تعلیم کو تمام شعبوں پر ترجیح دی ہے اور یہ بھی کہ صوبائی حکومت کو اساتذہ کی تنخواہیں بڑھانے کی وجہ سے ایک ارب کروڑ کا اضافی خرچ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومتوں کے قابل تحسین اقدامات کی تحسین نہ کرنا بخیلی ہے۔ میاں شہباز شریف نے اپنے سابقہ دور میں بوٹی مافیا کا خاتمہ کیا تھا اور موجودہ دور میں پوزیشن لینے والے بچوں کو انعامات اور اندرون اور بیرون ملک سیر وغیرہ جیسے اقدامات ہونہار بچوں٬ ان کے اساتذہ٬ والدین اور پوری قوم کیلئے حوصلہ افزائی کا مؤجب ہیں۔ طلبہ و طالبات میں غیر نصابی سرگرمیوں میں اضافہ کیلئے تقریری مقابلے کروائے اور انعامات دیئے۔

تعلیم چونکہ اہم ترین شعبہ ہے اس لئے اس پر حد سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر صوبائی حکومت تعلیم کو واقعی تمام شعبوں پر ترجیح دیتی ہے تو جناب عالی! ابھی تک اس اہم ترین وزارت کو ایک عدد وزیر عنایت نہیں ہوسکا۔ ممکن ہے وزیراعلیٰ نے اسے براہ راست اپنی نگرانی میں رکھا ہو مگر ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ اپنی مصروفیات کے باوجود وزارتیں بھی چلائیں۔ وزیر نہ بنانے کی وجہ کیا ہے؟ یہ راز کوئی نہیں جان سکا۔

دانش سکولوں کا تصور بھی موجودہ حکومت نے پیش کیا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ شہروں سے باہر وسیع رقبے پر تعمیر ہونے والے یہ عظیم الشان ادارے غریب والدین کے خوابوں میں رنگ بھریں گے جو اپنے ذہین بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں مگر اس کی سکت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے یہ ادارے غریبوں کو مفت تعلیم دینے کیلئے ہی معرض وجود میں آئیں گے۔ یہاں وزیراعلیٰ نے لچک پیدا کرکے معاملہ مشکوک کردیا ہے کہ اگر امیر بھی اپنے بچوں کو یہاں داخل کروانا چاہیں تو پوری فیس ادا کر کے ایسا کرسکتے ہیں تو جناب! غریبوں کے ادارے غریبوں کیلئے ہی مختص رہنے دیں۔ امیروں کے پاس اور بہت سے ایچی سن اور صادق پبلک سکول ہیں۔ جب یہ ادارے ہیں ہی مفت تعلیم دینے والے تو ”پوری فیس“ کیا ہوتی ہے۔ براہ کرم ان اداروں کو امیروں کی مداخلت سے محفوظ ہی رکھیں کیونکہ ان کے بچے غریبوں میں گھل مل نہیں سکتے یہاں بھی دونوں میں ایک خلیج حائل رہے گی اور غریب بچے احساس کمتری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ شہاز شریف نے چونکہ بوٹی مافیا کا پہلے ہی خاتمہ کردیا تھا اس لئے جنوبی پنجاب یا دیگر کمزور اور غریب علاقوں کے بچوں کو انٹری ٹیسٹ کے عذاب سے نجات دلا دیں۔ بارہ سالہ محنتوں کا نتیجہ چند گھنٹوں یا منٹوں میں نکالنے کی کوشش کرنا ظلم اور ناانصافی ہے۔ بارہ برس مسلسل پوزیشن حاصل کرنے والا بچہ اگر کسی بھی وجہ سے انٹری ٹیسٹ میں کامیاب نہیں ہوسکا تو اس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔

اگر خادم پنجاب اپنے نظام تعلیم پر توجہ فرمائیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جوں جوں کلاسیں بڑی ہوتی جاتی ہیں بچوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور ماحول نسبتاً بہتر ہوتا جاتا ہے۔ پرائمری سے مڈل٬ مڈل سے ہائی٬ پھر کالج٬ پھر یونیورسٹیاں.... ہر ادارے کا دوسرے سے نمایاں فرق ہے۔ آج کل یونیورسٹیوں پر اربوں روپے لگائے جا رہے ہیں٬ یہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہی سہولتیں٬ یہی مراعات اور یہی ماحول پرائمری سکولوں کو ملنا چاہئے۔ عالیشان عمارت٬ بہترین فرنیچر٬ کھلے میدان٬ زبردست صفائی٬ تعلیمی سہولتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کئے گئے اساتذہ.... اگر حکومت یہ سب کچھ دینے اور بنیادی تعلیم پر اتنا خرچ کرنے پر آمادہ ہو جائے (اور میاں شہباز شریف کے بقول کہ اپنا چال چلن درست کرلیں اور سادگی اپنالیں) تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان چند برس میں شرح خواندگی کی پستیوں سے نکل کر تعلیم یافتہ ممالک میں شامل نہ ہو جائے مگر بات وہی ہے چال چلن درست کرنے اور سادگی کے نعرے تو ہیں٬ مگر عمل کہاں سے لائیں
Muhammad Anwar Grywal
About the Author: Muhammad Anwar Grywal Read More Articles by Muhammad Anwar Grywal: 3 Articles with 2519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.