اجتہاد - امت مسلمہ کاامتیاز ی وصف

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
[email protected]
نئے پیش آنے والے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں ھل کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔دین اسلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا اور پہلے نبی سے آخری نبیﷺ تک سب انبیا اسی دین اسلام کے داعی اورمبلغ تھے تاہم شریعتیں مختلف انبیاء و رسل کی مختلف رہیں۔جیسے جیسے حالات تبدیل ہوتے رہتے اﷲ تعالی کسی نئے رسول کے ذریعے نئی کتاب اور نئی شریعت نازل کر دیتا،جس میں متعدداحکامات میں کلی یا جزوی تبدیلی کر دی جاتی۔مثلاََ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح ہوتاتھا،حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور کی سزا یہ تھی کہ جس کی چوری کرتا تھا پھر اسکی غلامی میں آجاتا تھا،بنی اسرائیل پر تین نمازیں فرض تھیں،25%زکوۃ فرض تھی ،قربانی کا گوشت خود نہیں کھا سکتے تھے اورروزہ مغرب سے مغرب تک ہوا کرتاتھا۔آخری شریعت میں ان سب احکام سمیت متعدد دیگر احکام میں بھی کلی یا جزوی تبدیلی کر دی گئی اگرچہ بعض احکامات جوں کے توں بھی موجود رہے جیسے رجم کا حکم تورات میں وارد ہوا اور آخری شریعت میں بھی باقی رکھا گیا۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ عقائد واخلاقیات پہلی شریعت سے آخری شریعت تک یکساں ہی رہے۔

ختم نبوت کے ساتھ ہی منصب نبوت تو ختم ہو گیا لیکن کار نبوت ابھی باقی ہے۔انسانی معاشرہ ہمیشہ کی طرح قیامت تک تغیروتبدل کاشکاررہے گا اور اس میں انسانی نفسیات،حالات و زمانہ اوردیگر احوال و اقدار کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی اجتماعی مزاج بھی تبدیل ہوتا رہے گا۔اﷲ تعالی نے آخری شریعت میں انسان کی اس طبعی و فطری مجبوری کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرعی احکام میں تشریح و تشریع اور نفاذواجراء کے لیے اجتہادکادروازہ کھلا رکھا ہے۔یہ دروازہ اتنا بھی کھلا نہیں ہے کہ امتی اپنی حدوں کو پھلانگتا ہوانبی کے مقام تک یا اس سے بھی آگے بڑھ جائے اور نہ ہی اس قدر تنگ ہے کہ انسانیت دردوتکلیف سے کراہتی رہے اور دین کے احکامات پرعمل مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائے اور دین میں انسانیت کی آسودگی و راحت کے لیے کوئی راستہ ہی نہ نکل سکے۔اجتہادکرنے والے چونکہ انسان ہی ہونگے اگر چہ وہ کتنے قابل لائق اور متقی و پرہیزگار ہوں اس لیے ان سے غلطی کا امکان بہرحال موجود رہے گالیکن شایدنیت کے اخلاص کی وجہ سے محسن انسانیت ﷺنے فرمایا کہ جس نے صحیح اجتہاد کیااس کے لیے دو نیکیاں ہیں اور جس نے غلط اجتہاد کیا اس کے لیے ایک نیکی ہے۔اجتہاد کرنے والاجب ضرورت محسوس کرے گا تو اپنی پوری توانائی اس مقدس کام پر صرف کرے گا لیکن چونکہ وہ حامل وحی الہی نہیں ہے اس لیے شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاتاہم اسکی اس مساعی جمیلہ کودرباررسالت ﷺ میں پزیرائی ضرورمل گئی اگرچہ اسکا نتیجہ درست ہو چاہے غلط۔

ایک بات ظاہر ہے کہ اجتہاد کرنے والا مسلمان ہی ہوگا ،غیر مسلم کتنا ہی ماہر فن کیوں نہ ہواسکی اجتہادی رائے کی دین اسلام میں کوئی اہمیت نہ ہوگی۔مثلاََ ایک غیرمسلم ماہر معیشیت بلاسودی بنکاری کابہت ہی کامیاب طریقہ دریافت کر لے تووہ طریقہ علم معیشیت میں تو مستند ہو سکتا ہے لیکن دین اسلام میں اسے اس وقت قبول نہیں کیا جائے گا جب تک مسلمان علماء معیشیت اسے ردوقبول کے اسلامی معیارات پر جانچ پرکھ کر اس بلاسودی بنکاری نظام کوتعلیمات اسلام کے عین مطابق قرار نہ دے دیں۔پس جس طرح انسانی علاج ہر انسان کے بس میں نہیں اور صرف وہی لوگ علاج کر سکتے ہیں جن کے پاس اس میدان کا علم موجود ہو اور جس طرح ہر انسان عدالت میں قانون کی وکالت نہیں کر سکتا سوائے ان لوگوں کے جو ماہرین قانون ہوں اسی طرح اجتہادبھی ہر کس وناکس کا کام نہیں اور اس کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں اورجولوگ وہ شرائط پوری کریں گے وہی اجتہاد کے مجاز ہوں گے اور انہیں کا اجتہاد امت میں معتبر ٹہرے گا۔

اجتہاد کی سب سے پہلی اورسب سے اولین شرط تو یہی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہو،کوئی بھی ایسا اجتہادجو قرآن و سنت سے ٹکراتا ہو گا اسکی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔قرآن و سنت میں ایسے متعدد مقامات ہیں جن کے معانی ہمیشہ سے تشنہ تشریح رہے ہیں اورہر مفسرومحدث کے سامنے قرآن و سنت نے اپنے نئے رازوں سے پردے ہٹائے ہیں اور اجتہادی مساعی کایہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔امت کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجودہیں جن میں لوگوں نے اور بہت قابل لوگوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی خاطر یاچند بے حقیقت سکوں اور چندروزہ اقتدارکی خاطرقرآن و سنت کی واضع ہدایات کو توڑموڑ کراور ان میں تحریف کر کے پیش کرنے کی کوشش کی اور احکامات کی پابندی اورخاص طورپر حدوداﷲ کو معاشرے سے غیر موثر کرنے کی کوشش کی،انکی یہ کوشش علمائے امت کے ہاں ناقابل قبول ٹہری اور امت نے باالاجماع انہیں رد کیاکیونکہ اجتہاد اسی وقت ہی اجتہاد شرعی ہو گا جب وہ قرآن سنے کے عین مطابق ہواور شریعت اسلامیہ کی روح کے منافی نہ ہو۔

قرآن و سنت کے مطابق وہی شخص اجتہاد کر سکتا ہے جو قرآن و سنت کی زبان سے بہت گہری واقفیت رکھتاہو۔اگر کوئی آدمی انگریزی زبان کے معروف ڈرامہ نگار شیکسپئرکی زبان دانی،اسکے خوبصورت اسلوب،اسکی فقرہ بندی اور مکالمے کے حسن کی تعریف کرے اور پوچھنے والا پوچھے کہ کیا آپ نے اسکے ڈرامے پڑھے ہیں ؟تو جواب ملے کہ ہاں میں نے انکا اردو ترجمہ پڑھا ہے۔توجس طرح اس جواب کے نتیجے میں اسکے دعوے باطل ہو جائیں گے اور اس معاملے میں صرف اسی کی بات قبول کی جائے جس نے شیکسپئر کو اسکی اصل زبان میں پڑھا ہو اسی طرح قرآن و سنت کے تراجم اور چند دینی کتب پڑھ چکنے والے کا اجتہادبھی ناقابل قبول ہوگا۔اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ عربی زبان پر اور خاص طور پر قرآن و حدیث کی زبان پر گہری گرفت ہواورآیات و احادیث کو انکی اصل میں سمجھا جائے اور پھر انہیں نئے حالات پر منطبق کرنے کے لیے نئی راہیں نکالیں جائیں۔

عربی زبان کے علاوہ بہت سے دیگرعلوم بھی ضروری ہیں کہ مجتہد ان سے واقف ہو۔وہ اچھی طرح جانتاہو کہ قرآنی آیات کی تفسیر کے کیاکیاطریقے ہیں،ان آیات ربانی سے قوانین کیسے اخذکیے جاسکتے ہیں،کس کس طریقے کو نبیﷺ نے پسند کیا ہے اور کس کس طریقے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ احادیث کی جانچ پرکھ پر گہرا عبور رکھتا ہو،اسے معمولات نبویﷺ سے وسیع آگاہی حاصل ہو تاکہ ایسا کوئی اجتہاد اسکے ہاتھوں صادر نہ ہو سکے جس کی حقیقت خلاف سنت ہو۔فقہ کے ضابطوں پر مجتہد کا گہرادرک ہونا چاہیے،اسے معلوم ہودو فقہوں کے درمیان کسی معاملے پر اختلاف حالات کی وجہ سے ہے،ماحول کی وجہ سے ہے،روایات کی وجہ سے ہے،عربی لغت کی وجہ سے ہے یا محض آرا کی وجہ سے ہے اور اسے فقہ پر اتنی دسترس حاصل ہو کہ نئے حالات میں وہ دو آراء میں سے کسی ایک کو بوجوہ اولیت و فوقیت دے سکتا ہو۔سابقہ آسمانی کتب اور گزشتہ مجتہدین کے تفصیلی حالات بھی اسکے پیش نظر ہونے چاہییں اور سب سے بڑی بات یہ کہ جن حالات سے اسے مقابلہ درپیش ہے،جس دور میں وہ سانس لے رہاہے اور جس زمانے کی تاریخ اجتہاد اسکے قلمدان سے رقم ہواچاہ رہی ہے ان حالات کے بارے میں،اس دور اور اس زمانے کے تقاضوں سے وہ پوری طرح آگاہ ہو۔

قرآن و سنت نے دین کے مسلہ اصول دیے ہیں ،ان میں تغیروتبدل ممکن نہیں ہیں،یہ وحی کی تعلیمات ہیں ان میں نسخ یعنی تبدیلی کا اختیار صرف اﷲ تعالی کو ہی ہے اور اب چونکہ وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے اس لیے دینی تعلیمات میں نسخ کا سلسلہ بھی منقطع ہو چکا ہے،پس شریعت کے مسلمہ اصولوں کے اندر رہ کر اجتہاد ہو سکتا ہے ،اپنی طرف سے کسی طرح کے اصول بنالینایامسلمہ اصولوں میں کمی بیشی کرنایاکسی اصول کووقتی طور پر معطل کرکے کسی طرح کا اجتہاد کرناگویا اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے مقابلے پر آکر اجتہاد کرنا ہے جس کو کہ اجتہاد نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ بغاوت کی ایک قسم ہے جس میں یاتو خدا بننے کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر نبی کے اختیارات پر قبضہ کی کوشش کی جاتی ہے۔گزشتہ امتوں نے انہیں راستوں سے اﷲتعالی کی کتب میں تحریفات یعنی اپنی مرضی کی تدیلیاں کیں اور اپنی شریعت کا حلیہ بگاڑ دیا۔اوراسی لیے اﷲ تعالی نے گزشتہ کتب اور گزشتہ شریعتوں کو منسوخ کر دیا۔

اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیالی مسائل پر مبنی نہ ہو۔انسانی ذہن جب فکرکے گھوڑے دوڑاتا ہے تو بہت آگے کی سوچ لیتا ہے۔سلف صالحین یعنی گزشتہ بزرگوں سے جب کوئی خیالی مسائل کا حل پوچھتاتھا تو وہ جواب دیتے تھے کہ جب اس طرح کے مسائل در پیش ہوں گے تو اﷲ تعالی ان مسائل کے حل کرنے والوں کو بھی پیدا فرمادے گا۔یہ ذہنی عیاشی کا ایک طریقہ ہے کہ اگریوں اور پھر یوں اور پھر یوں اور یوں ہو جائے تو شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟یہ رویہ دین میں اختراعات کا دروازہ کھولتا ہے اور پھر تفسیر کی بجائے تاویلات کی طرف انسانی ذہن چل نکلتاہے اور دین مذاق و استہزا اور بے عملی کا مرقع بن جاتا ہے جس کے باعث حقیقی عملی مسائل سے توجہ ہٹتی چلی جاتی ہے اوردنیا آگے نکل جاتی ہے اور اہل دین و مذہب دنیا سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اجتہاد کے لیے ضروری ہے ہر طرح کے تعصب سے پاک ہواجائے،گروہی،مسلکی یا علاقائی مفادات کی خاطر دینی احکامات میں ردوبدل کر دینا یا حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے چند بے حقیقت سکوں کے عوض ضعیف روایات کا سہارا لے کر جھوٹے فتوے لکھ دینااور انہیں اقتدارکا حقیقی اہل قرار دے دینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں ہے۔بعض معاملا ت پر شروع دن سے امت کا اجماع چلا آرہا ہے،انکے خلاف اجتہادکرنا صحیح نہیں ہے۔بعض معمولات پرصدیوں پہ محیط امت کا عمل مسلسل چلتا آرہا ہے اس عمل کو علماء کی خاموش حمایت حاصل ہے اسکے خلاف بھی کسی طرح کا اجتہاد جائز نہیں ہے اور محض عقل کی بنیاد پربھی اجتہاد کرنا درست نہیں ہے۔

اجتہاد کا طریقہ یہ ہے کہ نئے پیش آنے والے مسائل کو سب سے پہلے قرآن مجید میں تلاش کیا جائے اور کتاب اﷲ کی کسی آیت سے اس مسئلہ کا حل دریافت کیا جائے،بصورت دیگرسیرۃ الرسول ﷺ کی وسیع ذخیرے میں اس مسئلے کا حل یا اس سے ملتے جلتے کسی مسئلے کی روشنی میں اسکاحل نکالا جائے،یہ عمل قیاس سے قریب تر ہے۔اگر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ دونوں میں متعلقہ مسئلہ کی کوئی نظیر نہ ملے تو بعد کے ادوار میں اجماع امت یا سلف صالحین کے فتاوی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے،ناکامی کی صورت میں گزشتہ سطور میں درج کی گئی شرائط و ضوابط کی روشنی میں اپنی ذہنی رسائی کے مطابق اس مسئلے کا حل دریافت کرکے تو اسے امت کے سامنے پیش کردیا جائے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اجتہاد کر چکنے کے بعددوصورتیں ہوں گی،یاتو اسے قبول کر لیا جائے گا اور اس پراجتماعی تعامل شروع ہو جائے گااس کا مطلب ہوگا کہ اجتہاد درست ہے کیونکہ امت مسلمہ کسی شر پر جمع نہیں ہو سکتی،اس صورت میں ایک زمانے کے بعد اس اجتہاد کو اجماع کا درجہ مل جائے گااور یہ سند کا مقام حاصل کر لے گا۔دوسری صورت میں امت کے اندر اس اجتہاد پر گفتگوکا سلسلہ شروع ہو جائے گاکچھ لوگ اسے قبول کریں گے اور کچھ نہیں کریں گے اور اگر قبول نہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتی گئی تو اسکا مطلب ہوگا کہ اجتہاد درست نہیں ہے۔اس صورت میں آہستہ آہستہ اس پر تعامل متروک ہو جائے گاچنانچہ مجتہد کو چاہیے کہ ایسے اجتہاد سے رجوع کر لے یعنی اپنی رائے واپس لے لے اور خوامخواہ اسرار نہ کرتا رہے کیونکہ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق وہ غلط اجتہاد کے نتیجے میں بھی ایک اجر کا مستحق ہو چکا ہے۔

ہر زمانے کی طرح فی زمانہ بھی بہت سے مسائل تشنہ اجتہاد ہیں اور امت کے اندر انکے بارے میں بہت مباحث پائی جاتی ہیں،ضرورت ہے کہ اہل علم و عمل اور مجتہدانہ بصیرت رکھنے والے حضرات آگے بڑھ کر امت کی راہنمائی فرمائیں۔بہت سے مسائل تو طب کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں کہ کیا مرنے والا اپنے جسم کے مختلف اجزاء زندہ انسانوں کے نام ہدیہ کرسکتاہے؟یا وہ ہدیہ نہ بھی کرے تو کیامر چکنے کے بعد جو اعضاء کسی دوسرے کے کام آسکتے ہیں اسے مردے میں سے نکال کر زندوں میں لگا دینا جائز ہے؟خلاء میں منہ کدھر کر کے نماز پڑھی جائے ؟اور روزہ کی کے کیا اوقات ہوں گے؟غیرمسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی حدود کار کا تعین اورایک خطہ سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کے دوسرے خطے میں پہنچ جانے سے نمازوں اورروزے کی کیفیات اور روئت ہلال کے بارے میں بہت سے مسائل پر اجتہاد کی ضرورت ہے ۔اﷲ کرے کہ امت کی قیادت ایک بار پھر جرات مند،صالح اورمخلص و متقی لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جو امت کو ذہنی غلامی کے اندھیرے غار سے نکال کر تو آفاقی حقانیت کی طرف گامزن کریں،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.