امراض کراچی۔تشخیص،اسباب و علاج

آپ جب علاج کے لیے کسی حکیم کے پاس جاتے ہیں وہ تین کام کرتا ہے نبض دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتا ہے پھر اس کے اسباب بتاتا ہے اور پھر اس مرض کے علاج کے لیے پرہیز بتانے کے ساتھ دوا دیتا ہے ۔قرآن مجید و فرقان حمید کو قرآن حکیم اسی لیے کہا جاتا ہے وہ افراد اور قوموں کے امراض کی تشخیص کرتا ہے اس کے اسباب بتاتا ہے اور پھر اس کا علاج تجویز کرتا ہے ۔ایک عرصے سے اپنے ایک بزرگ جن کا نام "کراچی "ہے کی شدید علالت کی وجہ سے ہم وہ سب لوگ جنھوں نے ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنے بچپن ،لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے ہیں بڑے پریشان ہیں ۔ہم نے سوچا کے چلو ان کی عیادت کے ساتھ ان کو شہر کے کسی بڑے حکیم صاحب کے پاس لے چلتے ہیں کہ شاید ا ن کے علاج سے ان کی طبیعت میں افاقہ آجائے ۔ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ جب ان کے پاس پہنچے تو یہ دیکھ کر بہت کرب اور افسوس ہوا کہ بیماری نے ان کی یہ حالت بنادی ہے کہ وہ اب پہچان میں بھی نہیں آرہے ،سلام دعا کے بعد میں نے کہا کہ بزرگوار یہ آپ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ان کا چہرہ جو کبھی تربوز کی طرح سرخ ہوتا تھا مضبوط جسم کے مالک تھے اب بالکل ہڈیوں کا دھانچہ بنے ایک ایسی پلنگ پر جس کے باندڈھیلے ہونے کی وجہ سے زمین سے لگ رہے تھے جسے عرف عام میں کھٹیا کہتے ہیں پر پڑے ہوئے تھے ،سفید اور ستا ہوا چہرہ جیسے کسی نے ان کے جسم سے خون نچوڑ لیا ہو ،انھوں نے آنکھیں بند کر کے منہ دوسرطرف کرکے کراہتے ہوئے کہا کہ بس بیٹا اب چل چلاؤ کا وقت ہے تمھارا شکریہ کہ حال معلوم کرنے آگئے ہو سکے تو یاسین شریف پڑھتے جاؤ میں نے کہابزرگوار میں آپ کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف پڑھ تو سکتا ہوں لیکن مایوسی کے عالم میں جو بات کہہ رہے ہیں وہ اچھی نہیں لگی مایوسی کفر ہے ہم تو اس لیے آئے ہیں کہ آپ کو کسی اچھے حکیم یا طبیب کو دکھادیں ،لیکن پہلے آپ یہ تو بتائیں کہ یہ آپ کی حالت ہو کیسے گئی انھوں نے کہا کیا بتائیں بیٹا سن اسی کی دہائی میں کچھ طبیعت خراب ہوئی ،حالانکہ اسے پہلے بھی بیمار ہوتے تھے تو کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دوا لے آتے تھے ٹھیک ہو جاتے تھے اسی کی دہائی میں ہمارے گھر والے ایک عطار کے لونڈے سے دوا لے آئے میں نے اپنے گھر والوں کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ جس سے تم میرے لیے دوا لائے ہو مستند حکیم نہیں ہے لیکن ہمارے گھر والے اتنے جذباتی تھے کہ انھوں نے میری ایک نہ سنی اور کہا کہ نہیں یہ جو حکیم صاحب آئے ہیں یہ کہتے ہیں کہ کراچی کو اب تک تمام ڈاکٹروں اور حکیموں نے صرف بیوقوف بنایا ہے اس کا علاج صرف ہمارے پاس ہے ۔بس بیٹا جب سے اسی حکیم کی دوا استعمال کررہا ہوں پہلے پہل جب ان کی دوا سے فائدہ نہیں ہوا تو میں نے گھر والوں سے شکایت کی کہ کوئی فائدہ تو ہوا نہیں انھوں نے کہا کہ برسوں کا مرض ایک دم سے تھوڑی جائے گا کچھ وقت تو لگے گا پھر جب ان کے علاج سے طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو گھر والوں نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ ابھی حکیم صاحب مرض ابھار رہے ہیں بس بیٹا جب بھی زیادہ طبیعت خراب ہوتی گھر والے اسی حکیم سے دوائیں لے آتے ہیں بس جوں جوں دوا کررہے ہیں مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے ،میں نے کہا آپ نے اس درمیان میں کسی دوسرے ڈاکٹر یا حکیم کو نہیں دکھایا انھوں جواب دیا کیا بتائیں بیٹا گھر والے کسی اور ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانے ہی نہیں دیتے تمہاری طرح اور بھی دوست احباب نے یہی مشورہ دیا بلکہ بعض تو تمہاری طرح مجھے خود ساتھ لے جاکر دکھانا چاہتے تھے لیکن گھر والے مسلح ہو کر ان کے سامنے آجاتے ،میں نے کہا ہم لوگ بھی آج آپ کو یہی سوچ کر آئے ہیں کے کسی اچھے سے حکیم کے پا س آپ کو لے کر چلتے ہیں،آج سناٹا سا لگ رہا ہے آپ کے گھر والے کہاں گئے ہوئے ہیں انھوں نے جواب دیا آج شاید گورنر ہاؤس میں نئے وزراء کی حلف براداری کی تقریب ہے سب لوگ وہاں گئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا بس پھر موقعہ اچھا ہے ابھی آپ کو لیے چلتے ہیں انھوں نہیں کہا میرے بچوں تم لوگ کیوں اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو ،میں نے کہا نہیں نہیں ان شاء اﷲ کچھ نہیں ہو گا ،میں نے اپنے دوست کو کہا کہ جاؤ امن کی ایمبولینس لے کر آؤ اس میں آرام سے لے کر جایا جا سکتا ہے امن۔۔۔کیا امن کو بلا رہے ہو وہ بزرگوار خوشی کے سے انداز میں تھوڑا بلند آواز میں بولے ،میں نے بتایا امن نہیں ہم امن ایمبولینس کو بلوا رہے ہیں وہ بولے بیٹا تم مجھے کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے بجائے اسلام آباد کے اس چوک پر لے چلو جہاں لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تصویر سینے سے لگائے بیٹھے احتجاج کر رہے ہیں میں بھی اپنے پیارے اور لاڈلے بیٹے "امن"کی تصویر اپنے سینے سے لگا کر احتجاج کروں گا جسے اس ملک کی طاقتور ایجنسیوں نے اوروں کی طرح کہیں چھپایا ہوا ہے میں تو ویسے ہی مر رہا ہوں وہاں پر اس وقت تک بیٹھا رہوں گا جب تک میرا لاڈلا امن واپس نہیں مل جاتا یا پھر وہیں اپنی جان دے دوں گا ۔میں نے کہا بزرگوں آپ کی حالت اس لائق نہیں ہے کہ آپ اتنا طویل سفر کر سکیں فی الحال کچھ ٹریٹمنٹ لے لیں طبیعت بہتر ہو جائے گی تو پھر وہاں بھی لے چلیں گے ۔اتنے میں ایمبولینس آگئی اور ہم انھیں لے کر شہر کے ایک بڑے حکیم صاحب کے پاس لے گئے ۔مجاھدانہ مزاج کے حامل حکیم صاحب نے کہا کہ آپ جس مریض کو لائیں ہیں یہ کچھ دیکھے بھالے سے لگ رہے ہیں ۔ہم نے کہا ارے بھائی یہ وہی ہیں جن کی شفقت بھری چھاؤں میں ہم سب نے پرسکون دور گزارا ہے ایک ایسا دور جس میں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہ تھا جہاں دن چہکتے تھے اور راتیں چمکتی تھیں پورے ملک کے غریبوں کو یہ اپنی باہوں میں سمیٹ لیتے تھے ۔حکیم صاحب نے کہا ارے یہ وہی ہیں ان کا کیا حال ہو گیا ہے یہ تو اب پہچان میں نہیں آرہے ہیں ،ہم نے کہا حکیم صاحب آپ کے پاس اسی لیے ان کے گھر والوں سے چھپ کر لائے ہیں کہ آپ ان کے مرض کی تشخیص کریں اس کے اسباب بتائیں اور پھر دوا تجویز کریں ھکیم صاحب نے ان کے نبض پر ہاتھ رکھا تو او ہو ہو کہتے ہوئے بولے نبض تو بہت ہی سلو چل رہی ہے ایسا لگتا ہے ڈوبنے والی ہوحکیم صاحب نے ڈاکٹروں کی طرح آلہ بھی گلے میں لٹکایا ہوا تھا انھوں نے آلہ سینے پر رکھا تو یکدم چونک اٹھے کہ ان کے سینے سے تو آہوں کی صدائیں آرہی ہیں پھر انھوں نے کرتا اٹھانے کہا اور پیٹھ پر آلہ رکھا اور مختلف جگہ آلے کو گھماتے ہوئے کہا کہ دل کی دھڑکنیں بہت تیز چل رہی ہیں ،ارے یہ کیا اچانک ان کی نظر پیٹھ پر لگے ایک زخم پر پڑی جس میں سے کچھ کچھ خون بھی رس رہا تھا ھکیم صاحب نے پوچھا یہ کیسا زخم ہے اور کب لگاانھوں نے جواب دیا یہ وہ پہلا زخم ہے جو1958میں اس وقت لگا تھا جب اس ملک کا دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔پوری طرح چیک اپ کے بعد حکیم صاحب نے کہا بھئی یہ امراض کا مجموعہ ہیں اپنوں کے دیے ہوئے غم سے یہ ٹی بی کے مریض ہوگئے ہیں ،مسلسل ٹینشن میں رہنے کی وجہ سے شوگر ہائی رہنے لگی شہر میں قتل و خون کی ارزانی سے بلند فشار خون کا مسئلہ بھی ہے ۔ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان،فرقہ ورانہ قتل و غارتگری اور مختلف علاقوں سے ملنے والی تشدد زدہ لاشوں نے انھیں خون کے سرطان کا مریض بھی بنادیا ہے ان کے جسم میں خون تو بالکل ختم ہو گیا ہے ،بلکہ خون کی الٹیاں ہوتی ہیں اور بھی بیماریاں ہیں کیا کیا بتائیں بہر حال اب یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کہاں سے اس کا علاج شروع کیا جائے میں نے پوچھا ان امراض کے اسباب کیا ہیں حکیم صاحب نے جواب دیا اس کے دو اسباب ہیں ایک اخلاقی دوسرا سیاسی ۔اخلاقی سبب یہ ہے ان کی شناخت پہلے دینی حوالوں سے ہوتی تھی اس کی مثالیں یہ ہیں کہ 1958کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں سو میں سے سترہ نشستوں پر جماعت اسلامی کے امیدواران کامیاب ہوئے تھے بقیہ آزاد اور مسلم لیگ کے لوگ کامیاب ہوئے تھے 1964ایوب خان کے بی ڈی کے الیکشن کراچی سے دینی جماعتوں کے اتحاد COPسے وابستہ بی ڈی ممبران بڑی تعداد میں جیتے تھے اسی طرح 1970کے عام انتخابات میں کراچی کی قومی اسمبلی کی سات نشستوں میں سے پانچ پر دینی جماعتوں کے لوگ کامیاب ہوئے تھے تین سیٹیں جماعت اسلامی اور دو سیٹیں جمعیت علمائے پاکستان کو ملی تھیں ،اس طرح 72 فی صد ووٹ دینی جماعتوں کو ملے تھے ۔1977 کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد PNAکو 11میں سے 9سیٹوں پر کامیابی ملی جس کا فی صد تناسب82%تھا 1985کے عام انتخابات میں 13میں سے 11نشستوں پر دینی جماعتوں کے لوگ کامیاب ہوئے جس کا فی صد تناسب 85%بنتا ہے اس کے بعد سے جب انھوں نے دینی جماعتوں سے اپنا رخ تبدیل کرکے لادینی جماعتوں کی طرف کرلیا تو پھر بقول علامہ اقبال"جدا ہو جو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"دوسرا سبب سیاسی ہے کہ 1947سے198تک جب یہ شہر قومی جماعتوں سے وابستہ تھا تو یہ پورے ملک کی سیاسی قیادت کے منصب پر فائز تھا ان چالیس سالوں میں حکومتوں کے خلاف بڑی بڑی تحریکیں چلیں اس پورے دور میں اتنے لوگ ہلاک نہیں ہوئے جتنے اب ایک ماہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔1987سے 2014تک 26سالوں میں جب سے یہ شہر لسانی جماعتوں کے پاس ہے یا ان کے چنگل میں پھنساہوا ہے تو حساب لگا کر دیکھ لیں کے اس مدت میں اس شہر میں لوگوں کا قتل ہوا ہے اور پچھلے چالیس سالہ دور میں جب یہ شہر دینی اور قومی جماعتوں کے پاس تھا تو کتنے لوگ ہلاک ہوئے اس وقت کی تعداد آج کی ہلاکتوں کی تعداد کا صرف ایک فیصد ہو سکتا ہے ۔بہر حال یہ اس کے دو اسباب تھے اب اس کا علاج یہ ہے کہ پہلے انھیں اپنا رخ تبدیل کرنا ہو گا کہ لا دینی جماعتوں سے رشتہ توڑ کر دینی جماعتوں سے اپنا رشتہ قائم کرنا ہوگا اسی طرح لسانی جماعتوں سے اپنا تعلق ختم کرکے قومی جماعتوں سے اپنے تعلقات کو بحال کرنا ہوگا ۔لادینی اور لسانی تنظیموں سے پرہیز کرنا شروع کریں گے تو اسی وقت ان پر دوائیں کارگر ہوں گی ،موجودہ صورتحال میں ان پر کوئی دوا اثر نہیں کرے گی یہ ساری باتیں وہ بزرگ بھی خاموشی اور توجہ سے سن رہے تھے ،ہم نے واپس ان کو ایمبولینس میں لٹایا اور ساتھ جانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے خود منع کیا کہ آپ نہ جائیں یہ ایمبولینس والا خود ہمیں گھر چھوڑ دے گا آپ کا ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے میرے گھر والے بہت ظالم ہیں میری دعا ہے اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آمین

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.