پولیو ویکسین اور تین ممالک

اطلاعات کے مطابق پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لئے پولیو ویکسین لازمی قرار دی جارہی ہے، بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے افراد سفر سے کم از کم چار ہفتے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس قبل انسدادِ پولیو کی ویکسین لازما پیئیں جبکہ ہنگامی حالات میں سفر کرنے والوں کو سفر کے آغاز پر یہ ویکسین پینا ہوگی۔ ہدایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مسافروں کو ویکسین پلائے جانے کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔

جیسا کہ پہلے ہی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین پولیو ویکسین کو مشکوک قرار دے رہے ہیں، اس رپورٹ کے آنے کے بعد مزید خدشات نے جنم لیا ہے۔ مثلا پہلے کہا جاتا تھا کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو یہ ویکسین لازماً پلائی جائے، یہ بیماری بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے، لیکن اب دنیا کے تین اہم ممالک(پاکستان، افغانستان، شام) کے بڑی عمرکے لوگوں خصوصا نوجوانوں کے لئے یہ ویکسین لازمی قرار دی جارہی ہے۔مذکورہ تین ممالک کو متعین کرنا بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

دوسری بات یہ کہ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سفر کرنے والوں کو ویکسین پینے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔ یہ بات بھی عجیب سی معلوم ہوتی ہے کیونکہ باقی تمام بیماریوں میں بیماری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے جبکہ یہاں ویکسین پینے کی سند حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ٹیسٹ کیا جائے کہ پولیو کا وائرس مسافر میں ہے یا نہیں؟ لیکن یہاں پولیو کی ویکسین لازمی پینے کی بات معاملے کو انتہائی مشکوک بنا رہی ہے۔

انسانیت کے دشمنوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں علاج کے نام پر طرح طرح کی بیماریوں کو پھیلایا بھی ہے اور لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند بھی سلایا ہے، خود ہی لیبارٹریوں میں ریسرچ کرکے نئی نئی بیماریاں بھی ایجاد کیں اور پھر ان بیماریوں کے علاج کے لئے ادویات بھی بنائی ہیں، ایسی ایجاد کردہ بیماریوں کو غریب ممالک خصوصا مسلمان ممالک میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے پھیلایا بھی گیا، اور پھر ان کے علاج کے نام پر اربوں ڈالر کمائے بھی گئے۔ دجالیت کا یہ کھیل ایک عرصے سے دنیا میں جاری ہے۔

پہلے تو صرف بات پیسے کمانے تک محدود تھی لیکن اب اس طرح کے ہتھیاروں کو بطور آلہ حرب کے اپنے دشمنوں خصوصا مسلمانوں اور پھر مسلمانوں میں سے بھی خاص طور پر افغانستان،پاکستان، اور شام کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔اگر یہ یہود ونصاریٰ( جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے یہ تمہارے دوست کبھی نہیں ہوسکتے) مسلمانوں خصوصا افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کے اتنے ہی خیر خواہ ہوتے تو ان بیماریوں کا علاج بھی مفت فراہم کرتے جو حقیقت میں ہلاکت خیز ہیں جیسے ہیپاٹائٹس وغیرہ ۔

پاکستان کے ہر دس میں سے ایک آدمی کو ہیپاٹائٹس کی بیماری لاحق ہے، اس بیماری کو بھی اسی طرح کے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے علاج کے نام پر پھیلایا گیا ہے،اور اب اس کا علاج انتہائی مہنگے داموں کیا جارہا ہے، جبکہ پولیو نہ تو مہلک بیماری ہے اور نہ ہی پولیو کا شکار مریضوں کے تعداد سینکڑوں سے آگے بڑھی ہے۔

ابھی حال ہی میں سوشل میڈیا پر کسی یورپی ملک کے سائنسدان کی ایک ویڈیو گردش کررہی تھی جس میں وہ بتا رہا تھا کہ پولیو کی ویکسین درحقیقت پولیو کا وائرس ہے، جہاں جہاں پولیو کی ویکسینیشن ہوئی ہے وہاں وہاں کچھ بچوں کو یہ مرض لاحق ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں اس ویکسین کا داخلہ ہی منع ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ بھی مضحکہ خیز ہے جس میں ایک ارب سے زیادہ آبادی رکھنے والے ملک بھارت کو پولیو کے وائرس سے بالکل پاک قرار دیا گیا ہے جبکہ یہود ونصاریٰ کے سامنے مزاحمت کرنے والے ممالک(پاکستان،افغانستان اور شام) کو پولیو کے متاثرہ ترین ممالک میں سرفہرست شمار کیا گیا ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ان تین ممالک کے نوجوانوں کو خاص طور پر پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Syed Abdul Wahab Shirazi
About the Author: Syed Abdul Wahab Shirazi Read More Articles by Syed Abdul Wahab Shirazi: 7 Articles with 5975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.