ہرعالم دین کو مسلمانوں کی دنیا سنوارنے کی تعلیم بھی دینی چاہئے

رسول کریم ﷺ مسلمانوں کو ہر بات سکھاتے تھے۔جس پر دوسرے مذاہب کے لوگ حیران ہوتے تھے اور کہتے بھی تھے کہ آپ کے نبی تو پیشاب کرنے کے آداب تک بھی سکھاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو زندگی گزارنے کے طریقے سکھانا در اصل سنت نبوی ﷺ ہے ۔ جس کو ہم بھول چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اپنے آپ کو عبادات سکھلانے تک محدود کر چکے ہیں اور دنیا کا سکھانا مذہب سے علیحدہ کر کے خود ہی دنیا اور دین کے علوم کی تفریق پیدا کر دی ہے۔ میرے خیال میں اگر ہم نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ دیکھنی ہے تو ہمیں سنت رسول کریم ﷺ کی طرف لوٹنا چاہئے اور یہ کام شروع کر دینا چاہئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی اسلامی انقلاب ماضی میں لانے کی کوششیں کی گئی تھیں وہ سب فیل ہو گئی تھیں۔

پاکستان میں اب بھی یہ باتیں تصوراتی معلوم ہوتی ہیں کہ ایک عالم دین کو دینی معاملات میں ہی نہیں عام معاشی ، معاشرتی ، سماجی، تعلیمی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی اپنے سامعین کی رہنمائی کرنی چاہیے ْ؂۔ مگر بنگلا دیش کے علماء نے یہ سنت زندہ کرنی شروع کر دی ہے۔۔ مولانا ابو کلام آزاد ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گلی محلے اور اپنے گاؤں، قصبے اور شہر کو نہ صرف صاف کرنے بلکہ اسے دلہن کی طرح سجانے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ لوگوں کا بجٹ بنانے اور گھروں کو خوشی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے سلسلے میں عملی تجویز دیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک صحت مند اور خوشحال خاندان کے لئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدید معلومات سے فائدہ اٹھانے کے طریقے بھی بیان کرتے۔ وہ بے روزگاری کیخلاف جہاد کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتے اور حصول روزگار کے عملی منصوبے سامعین کے گوش گزار کرتے ہیں۔انہیں وجوہات کی بنا پر حسینہ واجد کی سیکولر حکومت کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔

بنگلا دیش کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس بینکر نے بھی دیہات میں غریبوں کو بینک کے قرضے مہیا کرنے کی سہولت مہیا کرنے کئے لئے گرامین بینک کا آئیڈیا جنم دیا تھا جس کو چالیس سے زیادہ ملکوں نے اپنا لیا ہے مگر ہمارے یہاں یہ آئیڈیا نہیں چل سکا جو بڑی بد قسمتی ہے۔مولانا آزاد یا یونس جیسے لوگ چونکہ لوگوں کے ہمدرد ہوتے ہیں تو اﷲ تعالی کی ذات ان کو نئے آئیڈیاز بھی دے دیتی ہے جس سے معاشرتی یا مالی مسائل حل ہونے میں مدد ملتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ خودبھی نبوت ملنے سے پہلے لوگوں کی حالت دیکھ کر فکر مند رہتے تھے۔اگر ہم نے بھی ترقی کرنی ہے تو ہمیں بھی دلوں میں لوگوں کے لئے ہمدردی پیدا کرنی ہوگی۔

مسلمانوں میں یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ کوئی سوشل ورک کرنے لگے توجن لوگوں کے مفادات کو خطرہ محسوس ہو تو وہ اس کے دشمن ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ بنگلادیش کی حسینہ واجد نے بھی یہی کیا ہے اور مولانا پر1971 میں گھناؤنے الزام عاید کر کے موت کی سزا سنائی ہے۔ جس کی وجہ سے مولانا آج کل روپوش ہیں۔

Imtiaz Ali
About the Author: Imtiaz Ali Read More Articles by Imtiaz Ali: 37 Articles with 36116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.