اجماع امت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

"امت مسلمہ کے علمائے حق کا کسی مسئلہ کے ایک حل پر متفق ہو جاتا اجماع کہلاتا ہے"۔اجماع ماخذشریعت میں سے ہے اورکتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ کے بعد اپنی اہمیت کے اعتبار سے اہم ترین ماخذ ہے۔اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء ﷺ کی امت کو یہ عزت بخشی کہ ان کے علمائے حق جس بات پر متفق ہو جائیں وہ اﷲ تعالی کے نزدیک بھی سند کا درجہ رکھتی ہے اور بار الہ اپنی شان کریمی سے اس اجماعی امر کو اپنے دربارعالی شان میں درجہ قبولیت عطا کرتاہے۔اﷲ تعالی نے سورہ نساء کی آیت نمبر115میں مومنوں کی اجتماعی رائے پر چلنے والے کے لیے پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے اور واضع طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو مومنین کی راہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے گا اﷲ تعالی اسے دوزخ میں پہنچا دے گا۔اس آیت سے یہ سبق میسرآتا ہے کہ مومنین اکٹھے ہوکر کبھی غلط راستے کا انتخاب نہیں کرسکتے اور یہی ’’اجماع امت‘‘کا مفہوم ہے۔

آپ ﷺ نے بھی اپنی متعدد ارشادات میں مسلمانوں کے اجتماعی فیصلوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے مثلاََ آپ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ میری امت کا سواداعظم کبھی گمراہی پر جمع نہ ہوگا،سواداعظم سے مراد امت کی اکثریت ہے۔اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ جماعت پراﷲ تعالی کاہاتھ ہے،یعنی مل کر جو فیصلہ کیا جائے اس میں اﷲ تعالی کی تائید و نصرت شامل حال ہوجاتی ہے،پس جب اﷲ تعالی کی تائیدونصرت شامل حال ہوگی تو غلطی کاامکان نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔۔اسی طرح ایک اور حدیث نبوی ﷺ میں وارد ہوا کہ میری امت غلط بات یاگمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ان سب کے برعکس تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ امتیں شرک جیسے گناہ پر بھی اتفاق کر گئیں اور آج تک کیے ہوئے ہیں لیکن یہ شان محمدی ﷺ ہے کہ آخری نبی ﷺ کی یہ آخری امت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو گی انشاء اﷲ تعالی۔عقلاََ بھی یہ ممکن نہیں ساری امت گمراہی پر جمع ہواور ان میں سے کسی عالم دین کو بھی اس گمراہی کا خیال بھی نہ آئے۔

اجماع کی جو تعریف اوپر نقل کی گئی ہے اس میں دو شرائط قابل توجہ ہیں ،ایک تو علماء کا اجماع اور دوسری شرط یہ کہ وہ علماء حق ہوں۔ایمان کی سلامتی اگرچہ پوری امت کے پاس ہے لیکن علماء کویہ ذمہ داری اس لیے سونپی گئی ہے اور عوام کو اس میں سے اس لیے نکال دیاگیاہے کہ اجماع کے عمل میں جو جوشرائط ہونی چاہییں وہ صرف علماء میں ہی پائی جاتی ہیں۔جس طرح ہر کوئی اپنے جسم کامالک ہوتا ہے لیکن جسم کے علاج کے لیے اس شخص کے پاس جاتا ہے جس نے علاج کی تعلیم حاصل کی ہو،جس طرح ہر کوئی قانونی حقوق کا مالک ہے لیکن قانونی چارہ جوئی کے لیے اسی کے پاس جاتا ہے جواس کی صلاحیت رکھتاہو اور جس طرح ہر کوئی لباس پہنتا ہے لیکن لباس کی تراش خراش کے لیے کسی ماہرکے پاس ہی جاتا ہے وغیرہ اسی طرح دین کے معاملے میں بھی اگرچہ ہر کوئی ایمان کامالک ہے لیکن اسے اسے اپنے ایمانی و روحانی معاملات کے لیے اپنی رائے،اپنی مرضی،اپنا خیال اور اپنی دانست پر اعتبار کرنے کی بجائے ان کے پاس جانا چاہیے جنہوں نے ان معاملات کی چھان بین اور درس وتدریس میں اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیاہو۔

اجماع کے لیے علماء ہونا ہی کافی نہیں بلکہ علماء حق کا ہونا شرط ہے،علماء حق کی ایک ہی نشانی ہے ،جو بھی عالم دین سنت رسول اﷲ ﷺ پر سختی سے کاربندہوگا یعنی عالم باعمل ہوگا وہ علماء حق میں سے ہوگا۔۔ہم نہایت ادب و احترام سے اس بات کی وضاحت کریں گے اورقطعاََ بھی نہیں چاہیں گے علماء کی توہین کے مرتکب ہوں لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گزشتہ امتیں ہوں یا امت مسلمہ ،دین کو فروخت کرنے والے اور اپنے ایمان کی قیمت وصول کرنے والے علماء ہر دورمیں موجود رہے ہیں۔حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے اور درہم و دینارکے چند بے حقیقت سکوں کاحصول اس طبقے کامقصد رہاہے قرآن مجید نے ایسے علماء پر ان الفاظ میں تبصرہ کیاہے کہ ’’اﷲ تعالی کی آیات کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں‘‘۔ایسے علماء کے اجماع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوگی۔ایسے علما ذاتی فتوے دیں،اجماع کریں یا پھر منصب قضاپر فائز ہو کر اپنے دستخطوں اور مہروں سے فیصلے ثبت کریں ،امت ان کو بالاتفاق مسترد کردے گی جیسا کہ ماضی میں کرتی رہی ہے۔یزیدبن معاویہ کے حق میں اجماعی فتوی دینے والے علماء ہوں یا فتنہ خلق قرآن میں تخت کے حاشیہ بردار علماء یا انگریزاور ہندوکے حاشیہ بردار علماء ،امت نے ہمیشہ ایسے درباری مولویوں کو مسترد کیا ہے۔

اجماع کی پہلی قسم اصحاب رسول ﷺ کا اجماع ہے۔اسکی شاندار مثال قرآن مجید جیسی کتاب کی تدوین ہے۔آپ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام نے اس کتاب کے اجزاء کو جمع کیا،اسے ترتیب دیااوراسکی ایک قرات پر اتفاق کیا ۔اسلاف نے یعنی بزرگوں نے کتب میں یہ بات لکھی ہے کہ صحابہ کرام کا اجماع قرآن مجید کے برابر ہے۔اس لیے کہ اگر صحابہ کرام کا اجماع غلط ہوسکتاہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ قرآن بھی غلط ہوسکتاہے کیونکہ ایک گروہ اگر ایک غلطی کرسکتاہے تو دوسری بھی یقیناََ کر سکتا ہے۔پس اگر صحابہ کرام کے اجماع کو چیلنج کیا جائے تو خود کتاب اﷲ کی حیثیت مشکوک ہو جائے گی ۔صحابہ کرام نے متعدد امور پر کلی اوربعض امور پر جزوی اجماع کیا،مثلاََخلفائے راشدین کاانتخاب کلی اجماع کے نتیجے میں عمل میں آیا،فجر کی آذان میں اضافہ اور جمعہ کی دو آزانوں پر کلی اجماع واقع ہواجبکہ ،ایران پر حملہ کرتے وقت صحابہ کرام کے درمیان کلی اجماع نہ تھا بلکہ جزوی اجماع تھا یعنی اکثریت نے اسکی حمایت کی تھی،حضرت عمر ؓجہاد ایران کی قیادت خود کرنا چاہتے تھے لیکن جزوی اجماع کے نتیجے میں آپ کو روک دیا گیا۔

جب ایک صحابی بات کرے اور باقی خاموش رہیں تو یہ اجماع کی دوسری قسم ہے،اس قسم کو اجماع سکوتی بھی کہتے ہیں۔کیونکہ اگر کسی کو اختلاف ہوگا تو وہ اسکا اظہار کرے گا،نبیﷺکے طالب علموں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ انکے سامنے ایک غلط معاملہ ہو رہاہو اور وہ خاموش رہیں۔اس لیے کہ ایک بار جمعہ کے خطبے میں حضرت عمرؓنے زیادہ سے زیادہ مہر کی حد مقرر کر دی،ایک خاتون کھڑی ہو گئیں اور عرض کی کہ اے امیرالمومنین جب اﷲ تعالی نے قرآن میں کہاہے کہ اپنی بیویوں کو جتناچاہو مہر اداکروتو آپ کون ہیں پابندی لگانے والے؟؟اگلی صفوں میں موجودباقی صحابہ نے بھی اس خاتون کی تائید کی تو حضرت عمرؓنے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔اجماع سکوتی کی بہت ساری مثالیں ہیں جن میں خلفائے راشدین کے وہ جملہ مذہبی،عسکری اور سیاسی فیصلے ہیں جنہیں مخالفت کاسامنا نہیں کرنا پڑااور ان پر باقی صحابہ نے خاموش رہ کرانکی تائید کی۔

اجماع کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ صحابی کی کسی رائے پربعد والے اجماع کرلیں۔مثلاََ حضرت عمرؓنے بیس تراویح کافیصلہ کیا،لیکن اس زمانے میں اس پر اجماع نہ ہوسکا،بعض اصحاب رسول ﷺ نے بیس تراویح اداکیں اوربعض نے نہیں کیں۔لیکن کم وبیش ایک یا دو صدی بعد آنے والے بزرگوں نے اس رائے پر اجماع کیا اور آج تک امت کا سواد اعظم اس عمل پرقائم ہے۔اس طرح اجماع کاعمل پوری امت میں ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔مثلاََایک زمانے میں بارہ مکاتب فکر تھے جن پر اندلس سے انڈونیشیاتک کل امت میں عمل رائج تھا،لیکن آہستہ آہستہ ان بارہ میں سے سات متروک ہو گئے اورپانچ پر آج تک امت کا اجماع ہے،یہ پانچ مسالک حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی اور جعفری ہیں۔اسی طرح فتنہ خلق قرآن سے انکار پر امت کے کل علماء حق متفق تھے،نیزوقتاََ فوقتاََ امت میں جو فرقہ ہائے باطلہ ظہور پزیر ہوتے رہے انکو بھی امت نے بالاجماع مسترد کیا ہے جیسے اشاعرہ،معتزلہ اورظاہریہ وغیرہ۔ اجماع امت کا عمل آج بھی جاری ہے جیسے قادیانیوں کے کفرپر کل امت کا اجماع ہے،بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنت عثمانیہ کی بحالی پر کل امت نے اجماع کیا تھا،جہادآج جہاں جہاں بھی جاری ہے اور کسی بھی مکتب فکرکے مجاہدین کررہے ہیں کل امت کے کل علمائے حق ان کے ساتھ ہیں اورپاکستان میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے خواتین بل سے کل علمائے حق نے اختلاف کیاتھا۔

اجماع کا طریقہ یہ ہے کہ پیش آنے والے مسئلہ کو سب علماء کے سامنے پیش کیاجائے گاتاکہ وہ اسکے حل میں اپنی اپنی رائے دیں جو اجتہاد کہلائے گا۔ظاہر ہے سب ہی تو اسکا حل پیش نہیں کریں گے،کسی کے پاس وسائل نہیں ہیں ،کسی کے پاس وقت نہیں ہے اور کسی کا ذہنی معیاراور علمی پس منظر اسکی اجازت نہیں دیتا وغیرہ۔تاہم جتنی کچھ بھی آراء سامنے آئیں گی ان پر علماء اپنااپنافیصلہ دیں گے،اور سب ہی دیں گے کیونکہ ہاں یا ناں کہنے میں تو کچھ صرف نہیں ہوتا۔کل نے ہاں یاناں کہ دیا تو یہ اجماع کلی ہوگیا،اکثریت نے ہاں یا ناں کہ دیا تو یہ جزوی اجماع ہوا،اکثریت خاموش رہی تو بھی اسے اجماع کہیں گے اور یہ اجماع سکوتی ہوگا۔یہ ناممکن ہے کہ امت کے کسی معاملے میں علماء اجتماعی طور پر خاموش رہیں،ایسا ماضی میں بھی کبھی نہیں ہوا آج بھی نہیں ہے اور آئیندہ بھی کبھی نہیں ہوگا۔تاہم یہ ضرور ہے کہ جس قدر علما زیادہ حصہ لیں گے اجماع اتنا ہی زیادہ موقرہوگا جیسے قادیانت کے کفر پر علماء نے بہت زیادہ شدت سے اظہار کیالیکن فتنہ انکار حدیث پر اتنا زیادہ ردعمل سامنے نہیں آیااور اسی طرح اسرائیل کے خلاف سب علمائے شرق و غرب بہت زیادہ شدت رکھتے ہیں لیکن بھارت کے خلاف اتنا رد عمل نہیں ہے وغیرہ۔اسی طرح قولی اجماع کی زیادہ حیثیت ہو گی ۔جو مسائل وقتی نوعیت کے ہیں انکا اجماع بھی وقتی ہوگاجیسے چندلوگ نماز لے لیے قبلے کا تعین کررہے ہیں تو انکا اجماع نماز کے بعد ختم ہوجائے گاجبکہ بعض اجماع ابدی حیثیت کے ہوتے ہیں جیسے قرآن کی جمع و تدوین اور قرات پر اجماع اور خلفائے راشدین پر اجماع اور حد شراب میں اسی کوڑوں پر اجماع۔یہ شریعت کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی طرح اجماع ہو اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 523871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.