لیڈرز

جورج ڈبلیو بُش جونئیر نے نائن الیون کا ڈراما رُونما ہونے کے بعد اِعلان کیا تھا کہ اِس دہشت گَردی کا بدلہ لوں گا اور ذِمہ داروں کو ایسی سزا دوں گا کہ اُن کی نسلیں یاد رکھیں گی ، کئی دِن اور ہفتے بِیت گئے سی آئی اے نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور مُکمل چَھان بِین کے بعد مُسلم ممالک کو نیو یارک میں ہونے والی تباہی کا ذِمہ دار ٹھہرایا ، جن میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ بُش نے جنرل مُشرف کو دو ٹوک اِلفاظ میں دھمکی دی ہمیں اَڈے بنانے کی جگہ دی جائے اِنکار کی صورت میں پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا ، ہمارا ٹارگِٹ صِرف افغانستان ہے ۔ جنرل مُشرف کے پاس دو اوپشن تھے ہاں یا ناں ۔ ہاں کی صورت میں جیبیں بھرنا اور ناں کی صورت میں مُلک اور قوم کی تباہی ۔ جنرل مُشرف نے بُش کو اڈے بنانے کی اجازت دے دی اور بُش نے ایک تیر سے دو شِکار کئے ایک طَرف افغانیوں کو مَلیا میٹ کرتا رہا اور دوسری طرف پاکستان میں اَسلحہ کی سِپلائی اور بومب بلاسٹِنگ شروع کروا دی ، اس کا پَلان تو بہت پائے کا تھا اِ س بلاسٹنگ کے ذریعے وہ خانہ جنگی چاہتا تھا تا کہ اَفرا تَفری کے عالِم میں پاکستان کے نوکلئیر پروجیکٹ پر قَبضہ کر سکے پاکستان میں سی آئی اے ایجنٹس کی موجودگی بھی اِسی پلان کی کَڑی تھے جنہوں نے اس غریب ملک کو اپنے باپ کا مال سمجھ رکھا تھا اور دِن رات پورے ملک میں دَندناتے پھرتے ۔ سی آئی اے ایک ایڈوینچر ٹیم ہے اسے ترقی پذیر ممالک کو غُلام بنانے کی بیماری لگی ہے ۔

چند ماہ تک نیٹو فورسز افغانستان میں بے گناہ بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کے چیتھڑے اڑاتی رہی کچھ غریب افغانیوں کو دہشت گرد کا لقب دے کر گوانتا نو مو بے جیل نما جہنم میں جکڑا جو باقی بچے ان کے جسموں کے اندر مائکرو چپس ڈالے اور پاکستان بھیج دیا وزیرستان میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے جب جی چاہا بٹن دبایا اور بیس تیس بے گناہ پاکستانی مار دئے ۔ پاکستانی میڈیا نے ان بے گناہوں کی لاشوں کی نہایت خوش اصلوبی سے کوریج کی اور جوش وخروش سے خبریں نشر کیں دہشت گردوں نے فلاں فلاں شہر یا گاؤں میں دھماکا کر دیا جس میں ۔۔۔۔۔۔

اور یہ خبر نشر کرنے کا اعزاز سب سے پہلے ہمیں حاصل ہے ۔ پاکستانی میڈیا جتنا آزاد ہے اتنا ہی غیر ذمہ دار بھی ، ہر ٹی وی چینل نے بے گناہوں کی لاشوں پر سٹیٹو لگا کر رنگ برنگی موویز بنائی ۔

پاکستانی قوم کا مشغلہ بھی قابلِ رشک ہے وہ بھی ایڈوینچر کو پسند کرتے ہیں ایک جگہ آرام و سکون سے بیٹھنا نہیں آتا بے چین روحوں کی طرح دن رات در بدر بھٹکتے رہتے ہیں جہاں کوئی چھوٹا موٹا واقعہ پیش آیا جھمگٹا لگ جاتا ہے رائی کا پہاڑ بنایا اور بال کی کھال نکالی جاتی ہے ، میڈیا سے زیادہ غیر ذمہ دار ی کا ثبوت ملک کی پولیس نے دیا کبھی کسی غریب مزدور کی لاش کو افغانی دہشت گرد بنایا تو کبھی افغانی کو پاکستانی ، خانہ پُری کی کیمروں کے سامنے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ویڈیو بنوائی اور تفتیش جاری ہے کہہ کر اپنی راہ لی ۔ سیاسی لیڈرز نے اپنے اپنے ڈھنگ سے بے ڈھنگی تقریریں جھاڑیں جن کا سر تھا نہ پاؤں ، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی پہلے سے ہی مختلف ذات ، برادری اور فرقوں میں بٹی قوم کو مزید بھڑکایا ، موٹی موٹی امپورٹڈ بلٹ پروف سیاہ شیشوں کی گاڑیوں میں بیٹھے اور تتر ہو گئے۔اور یہ ہی بہادر بش چاہتا تھا کہ اس جاہل اور ان پڑھ قوم کے عقل مند لیڈرز کے آگے ڈولرز کی ہڈیاں پھینکو اور انتظار کرو کہ یہ اتنی پستی میں گر جائیں کہ انقلاب کے نعرے ماریں یا کسی معجزے کی آس میں اپنوں کی ہی لگائی آگ میں جھلستے رہیں ۔ بش کا مقصد پورا ہوا نوکلئیر پروجیکٹ پر قبضہ تو نہ کر سکا لیکن اپنی تھرڈ کلاس پولیسی سے نوکلئیر پاور کو بھکاری بنا دیا کہ نوکلئیر رہے لیکن اس میں پاور نہ ہو " خالی بندوق بھلا کس کام کی " بش جانتا تھا کہ اس ملک میں کسی مائی کے لعل میں اتنی ہمت ، طاقت اور جرات نہیں کہ وہ انقلاب لا سکے اور جہالت کی گود سے جنم لینے والی قوم جاگتی آنکھوں سے معجزوں کا خواب دیکھتی اور سوتی رہے گی ۔ پاکستان کی تاریخ میں دو مرتبہ اسے پتھروں کے زمانے میں دھکیلا گیا ، پہلی بار جنرل ضیا نے افغانستان کا ہمسایہ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے یہ کارنامہ انجام دیا اور دوسری بار نوکلئیر پاور ہونے کے باوجود جنرل مشرف نے اپنا فرض ادا کیا ، سال میں دو تین میزائل ہوا میں مار کر کون سا تیر مارا جاتا ہے اربوں روپے ان فضولیات پر اس لئے ہوا میں اڑا دئے جاتے ہیں کہ ہمسایہ ملک پر رعب اور دبدبہ قائم رہے ۔ نام نہاد لیڈرز اگر اس قابل ہوتے یا ان میں اتنی صلاحیت ہوتی کہ پڑوسی ملک سے کیسے تعلقات رکھنے یا بنانے ہیں تو زبان سے بڑا کوئی میزائل نہیں۔ عام انتخابات کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے اور جمہوریت آزادیِ اظہار ، اِنسانی حُقوق کے احترام ، قانون کی بالا دستی اور مساوی انصاف کی فراہمی کے راستے کھولتی ہے لیکن ملک کے بے یارومددگار ، پس ماندہ ، غریب اور مفلوک الحال عوام جن کی تقدیر کے مالک نہ اِنہیں عزت کی روٹی دیتے ہیں اور نہ تعلیم کے مواقع پیدا کرتے ہیں ، ان غریبوں کے دکھوں اور مصائب کے ذِمہ دار یہی مہان لیڈرز ہیں جو جمہوریت جیسے لفظ کو بڑے فخر سے عوام کے سامنے بیان تو کرتے ہیں لیکن اس کے اصل معنی سے ناواقف ہیں ۔

ان لیڈروں کو سوچنا چاہئے کہ قوم کے پیٹ میں روٹی نہیں ، تن پر ڈھنگ کا کپڑا نہیں ، پاؤں میں جوتی نہیں ، پینے کو صاف پانی نہیں ، صحت نہیں ، قانون نہیں ، پولیس نہیں ، لیڈر نہیں اصول نہیں یہ نہیں۔ وہ نہیں ۔ جب کچھ نہیں تو ہے کیا ؟ صرف جاگتی آنکھوں سے دیکھتے خواب جو کبھی پورے ہوتے نظر نہیں آتے ۔جو قومیں ترقی کرتی ہیں وہ خواب نہیں دیکھتیں ان قوموں کے لیڈرز اسمبلیوں میں صبح نو بجے آتے ہیں اور شام چھ بجے گھر واپس جاتے ہیں ، پاکستانی لیڈرز شام چار بجے آتے ہیں اور بار بار گھڑی دیکھتے ہیں کہ کب چھ بجیں اور وہ یہاں سے چھو منتر ہوں ، گنتی کے چند منسٹر اسمبلی میں انگڑائیاں اور جمائیاں لیتے ہیں یا کیفے ٹیریا میں چائے اور سموسوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں اور راتوں کو شرابیں پیتے اور مجرے دیکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کے ہر چھوٹے بڑے دفاتر میں فائلوں کے انبار لگے ہوتے ہیں جن پر وہ تمام دن اپنا مغز مارتے ہیں ، پاکستانی لیڈر کو فائل پڑھنا تو درکنار کھولنے کی فرصت نہیں فائل تو تب کھولیں کہ پڑھنا آتا ہو ( جعلی ڈگری ) ۔ دوسری قوموں کے لیڈرز قوم کی محنت کا کمایا ہو ا پیسہ ان کی ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں جب کہ پاکستانی لیڈرز قوم کی محنت سے کمائے ہوئے روپے سے بیرونِ ملک ملٹی نیشنل کمپنیز میں شئیر کرتے ہیں اور ملک میں رنگین فوٹو فریم پندرہ پندرہ لاکھ کے بنواتے ہیں ۔ پندرہ لاکھ ایک غریب آدمی کے لئے بہت بڑی رقم ہوتی ہے ان روپوں سے چار کمروں کی ایک کٹیا بن سکتی ہے جس میں چار افراد پر مشتمل ایک گھرانا تاحیات رہ سکتا ہے ۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں اور یہ لیڈر اپنی آسانی کے لئے فلائی اوور اور سپر ہائی ویز کا سنگِ بنیا رکھتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کے لیڈرز کام چور اور کاہل نہیں ان پر صبح و شام اندرونی یا بیرونی ملک کے دوروں کا دورہ نہیں چڑھا رہتا ، پاکستانی لیڈرز جب تک ہر ماہ کسی بیرونِ ملک کا دورہ نہ کر لیں اپنے آپ کو لیڈر نہیں سمجھتے بقول ان کے لیڈر ہی وہ ہوتا ہے جو جیل کاٹے یا بیرونِ ملک کا دورہ کرے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں خاکروب سے صدر اور وزیرِ آعظم تک ٹیکس ادا کرتے ہیں بیرونِ ملک اثاثے نہیں بناتے پاکستانی لیڈرز ٹیکس دینا نہیں لینا جانتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک کا ادارہ مضبوط اور بااختیار ہو تا ہے سب اتفاق و اتحاد سے کام کرتے ہیں تاکہ ملک اور عوام ترقی کریں ، پاکستان کا ہر ادارہ کمزور ، کرپٹ اور بے اختیا ر ہے ، دوسرے ممالک کے لیڈرز اندرونی و بیرونی مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، پاکستان چھوٹی چھوٹی بات پر جنگ کرنے کے لئے کمر کس لیتا ہے ۔ پاکستانی لیڈرز کو جنگیں لڑنے کا بہت شوق ہے ، شوق سے اپنا شوق پورا کریں لیکن پہلے اپنے گھر میں جھانک کر دیکھیں کہ بیس کروڑ لوگ زندہ رہنے کے لئے کیسی کیسی بھیانک جنگیں اپنے ہی ہم پیالہ اور ہم نوالہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں ۔

گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی خَستہ حالی کو دیکھا جائے تو صِرف غُربت ، نا انصافی ، جرائم اور انسانی حُقوق کی پامالی کے مناظر صاف نظر آئیں گے ، تمام اداروں کی ناکامی ، حکومتوں کی ناقص کارکردگی ، کرپشن اور ناختم ہونے والی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سیلاب تھمنے کا نام نہیں لیتے ، آج تک کسی لیڈر نے کوئی بھی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس سے پاکستان کے عام آدمی کو ریلیف ملے ، غریب بے روزگاری اور مہنگائی کی چَکی میں پِستا چلا آ رہا ہے اور اس کے حقوق کو پامال کر کے یہ لیڈر صرف اپنی منزلیں طے کر رہے ہیں ۔

وقت اور حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے ہمیشہ کروٹ لیتے ہیں ، پاکستانی لیڈروں میں ذرا بھی سمجھ بوجھ یا عقل ہوتی تو کیا مجال تھی کہ ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیا الحق اور پرویز مشرف جمہوریت کا راستہ کاٹتے ، جمہوریت کے دعوے داروں نے اپنی جہالت کے بل بوتے پر ان جنرلز کے لئے راستے ہموار کئے ڈیلنگ کیں اور ملک سے فرار ہوئے جلا وطنیاں کاٹیں پھر اقتدار میں آنے کے لئے بے گناہ اور بے قصور عوام کو بَلی کا بَکرا بنا یا ، نعرے مارے پانچ سو اور ہزار روپے میں خرید کر انہیں ان کی اپنی نظروں سے گرایا ان کی انا اور خودداری کو ٹھیس پہنچائی لیکن نتیجہ پھر بھی صفر ۔

آج نہیں تو کل پھر کوئی لیڈر اپنی کرسی کے غرور میں غلطی کرے گا پھر کوئی جنرل رات کے اندھیرے میں شبِ خون مارے گا اور جمہوریت کے تمام ٹھیکیدار پھر تتر بتر ہو جائیں گے ، چند ماہ بیرونِ ملک ٹا نگ پہ ٹانگ دھر کہ بیٹھے رہیں گے انٹر نیشنل میڈیا کے سامنے آمر آمر کی رٹ لگائیں گے اس دوران پھر کوئی انگریز بوریت میں چھوٹا موٹا دھماکا کرے گا اور الزام پاکستان پر تھوپے گا پھر کو ئی جنرل اس انگریز کی کھوکھلی دھمکی میں آئے گا اور اسے جگہ دے گا پھر بومب بلاسٹ ہوں گے جس میں بے گناہ لوگ مارے جائیں گے پھر نعرے لگیں گے اور سالوں سے جاری یہ ڈراما ہر پانچ سال کی قسط میں چلتا رہے گا ، سکرپٹ ، کہانی ، ڈائیلاگ وہی پرانے گھسے پٹے اور رٹے رٹائے ہوں گے لیکن ( جوکر ) تبدیل ہو جائیں گے ۔

تاریخ اپنے آپ کو دہرائے یا نہ دہرائے لیکن پاکستان کے عوام ان ڈرامے باز لیڈروں کے ہاتھ چڑھتے رہیں گے اپنے ہی گھر میں کبھی سیاست کبھی مذہب اور کبھی کلچر کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں گے اس بندر بانٹ کھیل میں کسی لیڈر کا بال بھی بیکا نہ ہو گا لیکن عوام کو جب دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہو گی تو وہ آدم خور بن جائیں گے ،یہ بھوکے ننگے لوگ جب ایک دوسرے کو چبا جائیں گے تب تم سب ( لیڈرز ) ان کی بے چین اور بھٹکتی روحوں پر جمہوریت کے تیروں ، تلواروں اور شیروں سے حکومت کرنا ۔

رومانیہ کی ایک کہاوت ہے ۔ " بھیڑیا اپنی کھال بدل سکتا ہے چال نہیں "۔کچھ سالوں بعد بہادر بش کی روح بھی بھٹکتی ہوئی ایک ہی چکر پاکستان کا لگائے گی اور کہے گی میرا سپنا پورا ہوا ۔
" یہ ہوتا ہے لالچی ، دغا باز ، جھوٹی ، مکار ، غدار قوم اور اس کے لیڈروں کا انجام " ۔۔۔۔۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 229938 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.