انسان سے انسانیت تک

دنیا میں آنے والا ہر نیا فرد اپنی کھلی آنکھوں وقتاً فوقتاً خود غرضی اور مفاد پرستی کے مظاہر دیکھتا رہتا ہے۔ہر دور میں قابیل کی قبیل کا انسان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی ہم جنسوںکو نقصان پہنچاتا نظر آتا ہے۔ انسان کی اکثریت مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھٹی میں اس قدر پک چکی ہے کہ یہ عیوب اس کی فطرت کا جزلاینفک دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مفاد پرستی اور خود غرضی ہی انسان کو دھوکا دہی، چوری چکاری، ڈاکا زنی، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم پر اکساتی و ابھارتی ہے اور دنیا کا سکون چھین کر اسے بے سکونی کا تاج پہناتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد پرست اور خود غرض انسان ہی بستے ہیں۔ لوگ یہی خیال کرتے ہےں کہ دنیا سے مخلص، دوسروں کے کام آنے والے اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان بالکل معدوم ہوچکے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں کہ دنیا مخلص اور دردمند انسانوں سے بالکل خالی ہوگئی ہے، بلکہ آج بھی اپنی غرض سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے کام کرنے والے بہت سے مخلص انسان دنیا میں موجود ہیں۔ آج بھی ایسے بہت سے انسان اس دھرتی پر چلتے پھرتے ہیں، جنہیں دوسروں کی مدد کرکے دلی خوشی اور سکون حاصل ہوتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ انسان چاہے جتنا بھی خود غرض اور مفاد پرست ہوجائے، لیکن انسانیت اس دھرتی پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔ لندن میں اسی قسم کے ایک واقعے نے یہ بتادیا کہ دنیا میں سارے انسان مفاد پرست اور خود غرض نہیں ہوتے، بلکہ انسان سے بے لوث محبت کرنے والے انسان بھی اس دھرتی پر بستے ہیں۔ مشرقی لندن میں نیو ہیم کے ”رائل ڈوکس کمیونٹی اسکول“ کی ایک تیرا سالہ طالبہ عالیہ احمد علی کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ دماغ میں پانی بھر جانے کی وجہ سے عالیہ کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں شدید متاثر ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں عالیہ کو ایک گردے کے عطیہ کی اشد ضرورت تھی، لیکن اس کا حصول ناممکنات میں سے دکھائی دے رہا تھا، جو عالیہ اور اس کے والدین کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنا، لیکن عالیہ کے اسکول میں ہی انسانیت کے مضبوط رشتے اور بے لوث قربانی پر یقین رکھنے والے ”53سالہ مسٹر رے“ کو جب عالیہ کی مشکل کا پتا چلا تو اس نے بغیر کسی لالچ کے زبان و مذہب کے مختلف اور ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہونے کے باوجود بلا توقف عالیہ کے لیے اپنا ایک گردہ عطیہ کر کے اس کی جان بچالی۔ جس سے جہاں ایک طرف عالیہ کی بہت بڑی پریشانی حل ہوگئی، وہیں دوسری طرف یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انسان سے انسانیت تک کا سفر قربانیوں اور ایثار کے کٹھن راستوں سے گزرتا ہوا آج تک جاری ہے، اگر کہیں بے غرض اور سچے ایثار کی کہانی جنم لیتی ہے، تو یہ احساس دلاتی ہے کہ انسانیت ہر دورمیں زندہ تھی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ برے لوگوں کی اکثریت کے بیچ بہت سے ایسے اچھے افراد بھی ہمیشہ جنم لیتے رہتے ہیں جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔

جب سے یہ دنیا وجود پذیر ہوئی ہے،خود غرضی اور مفاد پرستی کے ساتھ انسان کا دوسرے انسانوں کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ بھی ایک اٹل حقیقت رہا ہے۔ قرن ہا قرن کے سفر میں ان سچے جذبوں کے اظہار کو ہر ذی روح محسوس بھی کرتا ہے اور ان سے خو د میں راحت اور توانائی کی دنیا بھی بساتا ہے۔ دوسرے افراد کی خا طر اپنا وقت اور متاع قربان کر دینا کارِ ہر دیوانہ نیست والا معاملہ ہوتا ہے۔ انسانیت کے درد کو اپنے دل میں جگہ دینے والے انسانوں کو انہی لافانی جذبوں کی بدولت انسانیت کی ایسی بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ انسانوں کی بے لوث قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انھیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے۔ انسانیت سے بے لوث محبت اور اس کی خدمت ہر انسان کی ازلی خوا ہش تو ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کی اسے جرات، ہمت اور ا ستطاعت نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتی مفادات کی اسارت دوسروں کی خدمت کی بجائے مفاد پرستی اور خود غرضی کے محور میں چکر لگانے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ حالانکہ انسانوں کے لیے انسانوں کا ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے، لیکن نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں پر مفادِ عاجلہ نے ایک روگ کی شکل اختیار کر لی ہے، دوسروں کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی توانا ئیوں کو صرف کرنا ا نہونی سی بات لگتی ہے۔ ہر انسان اپنی ہی ذات میں اتنا مگن ہے کہ اسے دوسروں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ اپنے مسائل اور ضروریات میں الجھ کر اپنے ہی ہم جنسوں سے نہ صرف دور وہوگیا، بلکہ ان کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ وہ لوگ واقعی بڑے باہمت، قابل داد اور قابلِ ستائش ہیں جو دوسروں کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں، لیکن ہیں ضرور، جو اس مصرع کی عملی تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں
درد دل کے لیے پیدا کیا گیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

اس دور میں بھی وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لیے قربانیوں کے بے بہا واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اچھے اور برے انسان ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو دیکھتے ہوئے خود بھی ان کی راہ پر چل پڑے۔ بلکہ نسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا،مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا۔کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور موقع ملنے پر ہر ایسا کام کرے گا، جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو، یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے گی۔ دنیا میں سکون ہی سکون کا راج ہوگا اور محبت کی حکمرانی ہوگی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا صرف دوسروں کے لیے ہی فائدہ مند نہیں ہے، بلکہ اس سے مدد کرنے والے کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ کینیڈا میں یونیورسٹی آف بریٹش کولمبیا کی تحقیق کے مطابق رضا کارانہ طور پر دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ رابطہ بڑھتا ہے، انسان کے جسم میں ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انسان کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ دل اور شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دل مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ دوسروں کے کام آنے سے انسان کی روح کو سکون ملتا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہماری ضرورت کے وقت کام آئے تو ہمیں دوسروں کی ضرورت کے وقت بھی کام آنا ہوگا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 639164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.