استحسان (شریعت اسلامیہ کا ضمنی ماخذ)

بسم اﷲالرحمن الرحیم

استحسان عربی زبان کا لفظ ہے ،اسکا مادہ اصلی’’حسن‘‘ ہے۔باب استفعال سے حسن کا مصدر ’’استحسان‘‘ بنتا ہے۔عربی لغت میں استحسان کامطلب کسی چیز کو خاص خوبی کی بنا پر اچھا سمجھنا ہے۔فقہ اسلامی کے دبستان حنفی میں استحسان کو ایک اہم اور ضمنی ماخذ قانون کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔

فقہ کے مطالب سوجھ بوجھ،درک اور افہام کے ہیں،فقہ اسلامی سے مراد اسلامی قوانین ہیں۔اسلامی قوانین کے چار ماخذین پر امت کا ہمیشہ سے اجماع رہا ہے۔یہ ماخذین بالترتیب اس طرح ہیں:کتاب اﷲ،سنت رسول اﷲ ﷺ،اجماع امت اور قیاس شرعی۔اصولیین نے ان تمام ماخذین سے قانون اخذ کرنے کے متعدد طرق مرتب کیے ہیں۔فقہ اسلامی کے چوتھے اہم ماخذ قیاس شرعی سے قوانین حاصل کرنے کا ایک طریقہ استحسان بھی ہے۔

شارع نے اجتہاد کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون کی رگوں میں ہر دور میں نیا خون شامل ہوتا رہا ہے۔نئے پیش آنے والے مسائل پر ماہرین علوم اسلامیہ فکروبحث کرتے ہیں اور انکے متعدد حل تجویز کرتے ہیں۔’’مسائل کو حل کرنے والی متعدد آراء میں سے کسی ایک کو معقول دلیل کی وجہ سے دیگر پر ترجیح دینا استحسان کہلاتا ہے۔‘‘

استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
1)قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی ۔کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔
2)العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خلافۃ بوجہ ھو اقوی۔ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خلاف حکم لگانا۔
3)اجود تعریف الاستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی۔استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔
4)العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول۔کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔
5)الاستحسان طلب السہولہ فی الاحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام۔استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتلا ہیں۔
6)جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
7)مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔
ائمہ ارنبعہ میں سے امام شافعی ؒکے علاوہ تمام ائمہ کرام،استحسان کی حجیت پر متفق ہیں،قلیل اختلاف صرف تعبیرات میں پایا جاتا ہے،جن سے فرار ممکن نہیں۔امام شافعیؒ استحسان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کتاب الام میں اس پر طویل بحث کی ہے اور ایک رسالہ ’’الرد علی الاستحسان ‘‘ لکھا،جس میں کہ استحسان کی تردید میں دلائل نقل کیے ہیں۔امام شافعی ؒ کتاب الام میں ایک جگہ لکھتے ہیں’’جب مجتہد استحسان کرتا ہے تو وہ گویا اپنی سوچ سے ایک بات اختراع کرتا ہے اور اس پر قیاس کرتا ہے جبکہ اسے اپنی سوچ کی اتباع کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔استحسان کے قائلین اس بات کاانکارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجتہدکاقیاس اور استحسان کسی خاص دلیل شرعی کی بنا پر ہوتا ہے۔

استحسان کواس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امانت کی واپسی کے لیے ضروری ہے وہی مال ہو جو دیا گیا تھا۔اگر ایک شخص ایک ہزار کا نوٹ امانتاََ دے کر کچھ عرصے بعد واپسی کا تقاضا کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہی نوٹ لوٹایا جائے جو ادا کیا گیا تھا،لیکن استحسان یہ ہے کہ کوئی اور نوٹ یا ایک سے زائد نوٹ جن کی مالیت ایک ہزار کے برابر ہو، کی ادائگی سے امانت ادا ہو جائے گی۔امانت میں استحسان کے اس اصول کے تحت ہی بنک،منی آرڈراور مالیتی اداروں کے دیگر معاملات چلائے جا سکتے ہیں۔

گویا مسائل کے آسان حل کی طرف رغبت ہی استحسان ہے۔اس سے عامۃ المسلمین کو سہولت ہوتی ہے اور دین میں آسانی کا عنصر پروان چڑھتا ہے۔اسی خوبی کی طرف قرآن مجید نے بھی درج ذیل آیات میں اشارہ کیا ہے:
1)لایکلف اﷲ نفساََ الا وسعھاOاﷲ تعالی کسی کو اسکی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
2)یرید اﷲ بکم الیسر ولا یرید بکم العسرOاﷲ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا۔
3)ماجعل علیکم فی دین من حرجOاﷲ تعالی نے تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
4)وامر قومک یاخذوا باحسنناOاپنی قوم کو حکم دیجئے کہ احسن امور اختیار کریں۔
5)فبشر عبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہOمیرے ان بندوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ وہ جو بات سنتے ہیں اس میں سے احسن کی اتباع کرتے ہیں۔

محسن انسانیت ﷺ کا طرز عمل بھی آسانی اور سادگی کا آئینہ دار تھا،آپ ﷺ کے الفاظ سادہ اورآسان ہوتے ،وعظ مختصر اور سبق آموز ہوتا،زیادہ سوالات کرنے سے اس لیے روکا گیا کہ اس سے مشکلات بڑھنے کا اندیشہ تھا۔ایک روایت کے مطابق آپ ﷺْ نے فرمایا’’یسر ولا تعسربشر ولا تنفر‘‘ترجمہ:آسانی پیداکرو مشکل میں نہ ڈالو،اچھی خبر دو متنفر نہ کرو،ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے‘‘۔

حضرت عمر ؓکے پاس ایک عورت کی میراث کا مسئلہ پیش کیا گیا جس نے اپنے ورثا میں شوہر،والدہ،دو سگے بھائی اور دو ماں شریک بھائی چھوڑے تھے۔قانون وراثت کے مطابق شوہر کونصف،والدہ کو چھٹا اور ماں شریک بھائیوں کو تہائی حصہ ملتا ۔قیاس کے مطابق اس تقسیم کے بعد کچھ نہ بچتا کہ سگے بھائیوں کو دیا جائے جبکہ ان کا رشتہ مضبوط تر تھا۔حضرت عمرؓ نے قیاس ترک کر کے تو سگے بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں میں شامل کیا اور ایک تہائی ان سب میں تقسیم کر دیا ۔اسی طرح ترکہ میں پوتے کی وراثت کے بارے میں جو حل پیش کیے گئے وہ سب استحسان پر منبی ہیں۔

فقہ اسلامی میں جن قواعد کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان میں سے بیشتر کے راستے کا اہم سنگ میل استحسان ہی ہے اور اسکی وجہ شریعت اسلامی کا وہ مجموعی مزاج ہے جس میں آسانی اور سہولت کا عنصر نمایاں ہے،فقہا کے چند قائدے ملاحظہ ہوں جو زبان زدعام ہیں:
1)لا ضرر ولا ضرار:نقصان اٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ۔(بعض روایات کے مطابق یہ حدیث نبویﷺْ کے الفاظ بھی ہیں)
2)الضرورات تبیع المحظورات:ضروریات ،ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں(یعنی ضرورتیں ناجائز چیزوں کو بھی جائز کر دتیں ہیں)
3)المشقۃ تجلب التیسیر:مشقت سہولت کی طالب ہے۔(یعنی مشقت آسانی مہیا کرتی ہے)

استحسان کے لیے اکثر اصولیین ’’قیاس خفی‘‘کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔دراصل قیاس کی دو اقسام ہیں،قیاس جلی یا قیاس ظاہر اور قیاس خفی۔قیاس جلی وہ ہے جس کی طرف ذہن جلد ہی منتقل ہو جاتا ہے اور قیاس خفی وہ ہے جس کے لیے دقت نظر اور عمیق غوروفکر کی ضرورت ہو۔بعض اوقات قیاس جلی کے مقابل کتاب و سنت ،اجماع اور ضرورت بھی ہوتی ہے،ان صورتوں میں بھی استحسان کا لفظ بولا جاتا ہے اور اس وقت اسکی تعریف یوں کی جاتی ہے ’’کل دلیل فی مقابلۃ القیاس الظاہر نص اواجماع اوضرورۃ‘‘ہر ایسی دلیل کا نام استحسان ہے جو قیاس ظاہر کے مقابل ہو خﷺاہ نص ہو یا اجماع ہو یا ضرورت۔
اس طرح قیاس ظاہر سے ثابت ہونے والے حکم کو چار بنیادوں پر ترک کیا جا سکتا ہے:
پہلی بنیاد: نص
دوسری بنیاد: اجماع
تیسری بنیاد: ضرورت
چوتھی بنیاد: قیاس خفی

ان سب پراستحسان کالفظ استعمال ہوتا ہے،لیکن بحث چونکہ اصولی نہیں استعمالی اس لیے فقہا اس طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے اور قیاس خفی کو ہی استحسان قرار دے لیتے ہیں۔
احناف کے نزدیک استحسان کی دو بڑی قسمیں ہیں :
1)بنطابق قیاس استحسان
2)خلاف قیاس استحسان

بمطابق قیاس استحسان وہ قیاس ہے جس کے اثرات اس قدر زبردست ہوں کہ اپنے مخالف قیاس جلی پر غالب آجائے ۔بمطابق قیاس استحسان دراصل بہت سے قیاسات کے درمیان ایک قیاس کو ترجیح دینے کا نام ہے،خاص طور پر اس وقت جب ایک ہی مسئلے کی متعددصورتیں باہم متعارض ہوں۔
جب قیاس اور استحسان کا مقابلہ دلیل کی قوت کے اعتبار سے ہو تو اسکی چار قسمیں بنتی ہیں:
1)قیاس اور استحسان دونوں قوی ہوں۔
2)دونوں ضعیف ہوں۔
3)قیاس قوی اور استحسان ضعیف ہو۔
4) استحسان قوی اور قیاس ضعیف ہو۔

ان صورتوں میں ترجیح اسے حاصل ہو گی جس میں قوت پائی جائے گی چنانچہ صرف چوتھی صورت میں قائدے کے مطابق استحسان کو ترجیح ہو گی۔فقی کی کتابوں میں اکثر مقامات پر یہ عبارت نظر آتی ہے کہ ’’ناخذ بالاستحسان وترکنا القیاس‘‘ہم نے قیاس چھوڑ دیا اور استحسان اختیار کر لیا۔
جب قیاس اور استحسان کا مقابلہ دلیل کی صحت کے اعتبار سے ہو تواسکی بھی چار قسمیں بنتی ہیں:
1)استحسان و قیاس دونوں کے ظاہروباطن صحیح ہوں۔
2)دونوں کے ظاہرو باطن فاسد ہوں۔
3)قیاس کا ظاہر فاسد ہواور استحسان کاباطن صحیح ہو۔
4)استحسان کاباطن فاسدہواورقیاس کا باطن صحیح ہو۔

قیاس کی چار قسموں کو استحسان کی چار قسموں سے ضرب دینے سے سولہ اقسام بنتی ہیں چنانچہ:
اصول نمبر1۔جس قیاس کا ظاہروباطن دونوں صحیح ہوں اسکو دلیل کی صحت کے لحاظ سے استحسان کی تمام صورتوں پر ترجیح حاصل ہو گی۔
اصول نمبر2۔جس قیاس کا ظاہروباطن فاسد ہوگا وہ قبول نہ ہو گا۔
اصول نمبر3۔جس استحسان کاظاہرو باطن صحیح ہواسکو اس قیاس پر ترجیح ہوگی جس کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد ہو یا ظاہر فاسداور باطن صحیح ہو۔
اصول نمبر 4۔جس استحسان کا ظاہروباطن دونوں فاسد ہوں وہ مردودہوگا۔
اس طرح باہمی تعارض کے نتیجے میں سولہ میں سے چار صورتیں باقی رہیں گی:
1)استحسان کاظاہر صحیح اور باطن فاسد اور قیاس کا ظاہر فاسد اور باطن صحیح۔
2)استحسان کاظاہرفاسداورباطن صحیح اور قیاس کا ظاہر صحیح اورباطن فاسد
3)استحسان کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد اور قیاس کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد
4)استحسان کاظاہرفاسداورباطن صحیح اور قیاس کا ظاہرفاسداورباطن صحیح

ان چاروں میں سے صرف دوسری صورت میں استحسان کوترجیح ہو گی باقی تمام صورتوں میں قیاس کو ہی ترجیح دی جائے گی۔

استحسان قیاس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ اگر زید کی اجازت کے بغیر بکر نے زید کا قرض ادا کر دیا تویہ بکر کی طرف سے زید کے لیے ہدیہ یا عطیہ سمجھا جائے گا،اب بکر کو اس مطالبے کا حق حاصل نہ ہوگا۔اس اصول کی روشنی میں اگر ایک فرد دوسرے کو ڈالرزدے کہ میرے بیوی بچوں پر خرچ کرنا اورخرچ کرنے والا ڈالروں کی بجائے روپے خرچ کرے اورڈالرز اپنے پاس محفوظ رکھے تو قانون کی رو سے وہ خرچ ہدیہ،تحفہ یا عطیہ سمجھا جائے گااور ڈالرز کی واپسی واجب الادا ہوگی ،یہ قیاس ظاہر ہوا۔جبکہ استحسان کی رو سے ڈالرز کی مالیت کے برابر روپوں کے خرچ سے ڈالرز کی ادائگی ہو چکی چنانچہ مالی معاملات میں دقت سے بچنے کے لیے یہاں استحسان کا حکم لگایا جائے گا۔

گویاقیاس جلی کی طرح قیاس خفی(استحسان )سے بھی فقہااسنتباط کرتے ہیں اور اسکو قیاس کی ہی ایک قسم کہتے ہیں۔جس طرح قیاس جلی میں اشتراک علت کی بنا پرایک کا حکم دوسرے پر لگایا جاتا ہے اس طرح استحسان میں علت دقیق کے اشتراق کی صورت میں ایک کا حکم دوسرے پر ثابت کیا جاتا ہے،جس طرح مذکورہ مثال میں روپے کا حکم ڈالرز پر ثابت کیا گیا،مارکیٹ میں ان کے چلن کی علت دقیق کے اشتراک کے باعث۔

ایسا قیاس جو استحسان کے خلاف ہو اسے ’’خلاف قیاس استحسان ‘‘کہا جاتا ہے،اسکی تین قسمیں ہیں:
1)استحسان بالنفس
2)استحسان بالاجماع
3)استحسان بالضرورۃ

استحسان بالنفس:بعض معاملات میں شارع نے خود استحسان کیا ہے،اسکی متعدد امثال کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲ ﷺْ میں موجود ہیں،ایسا استحسان ’’استحسان بانفس‘‘کہلاتا ہے۔مثلاََ
استحسان بالقرآن:مرنے کے قریب وصیت نامہ لکھنا۔
استحسان بالسنۃ:بیع السلم،یعنی قیاس کی رو سے کسی معدوم چیز کا سودا ممنوع ہے،لیکن خلاف قیاس آپ ﷺ نے اسکی اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا’’جو بیع سلم کو اختیار کرے تو وہ مال کا اندازہ کر لے اور مدت مقرر کر کے کسی سے معاملہ کرے‘‘۔روزہ دار کا بھول کر کھا لینے سے قیاس کے مطابق روزہ ٹوٹ گیا لیکن حدیث نبوی ﷺ کے مطابق نہیں ٹوٹا یہ ’’خلاف قیاس استحسان ‘‘ہے جو سنت نبویﷺ سے ثابت ہے۔

استحسان بالاجماع:یعنی اجماع کی وجہ سے قیاس کو ترک کر دینا۔فقہ حنفی میں مصالحہ مرسلہ اور فقہ حنبلی میں استصحاب اور استصلاح کے ذیل کی امثال اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جہاں فلاح عامہ کی خاطر قیاس کو ترک کر دیا جاتا ہے،
استحسان بالضرورۃ:ضرورت کو معیار بنا کرقیاس ترک کر دینا اور اس سے کوئی مفید پہلو اختیارکرنا ’’استحسان بالضرورۃ ‘‘ہے۔اسکی مثال کوئیں میں نجاست کا گر جانا ہے،جس کے بعد قیاس کا تقاضا تھا کہ سارا پانی نکال لیا جاتالیکن ’’استحسان بالضرورۃ‘‘کے تحت کوئی خاص مقدار میں پانی کے اخراج سے کوئیں کا پاک ہو جانا ہے۔

اسلام اگر دین جامد ہوتا تو زمانے کے نہ ختم ہونے والے صحرا میں وقت کی تیز رفتار آندھیوں سے بہت پیچھے ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند ناکام مسافر کا پتہ دیتا یا پھر دیگر مذاہب کی طرح اسکے ماننے والے مردہ لاش کو اپنے کندھوں پر اٹھائے لیے کسی ایسی قبر کے گڑھے کی تلاش میں ہوتے جس کے تعویز پر لگی تعارفی سل آئے دن مردہ کی تاریخ وفات کو تازہ کرتی رہے جو کہ ناممکنات عالم میں سے ہے۔دین اسلام کی یہی خوبی کہ اسکے اندر انسانی رویوں کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے بہت گنجائش موجود ہے ،اسکو ہنوززندہ رکھے ہوئے ہے۔اس اندھیری دنیا کو صبح ہدایت سے روشناس کرانے والے سورج کی ایک ٹھنڈی کرن ’’استحسان ‘‘بھی ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی:
1۔کتاب التحقیق
2۔فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر
3۔فقہ اسلامی اور دور جدید کے مسائل
4۔تعارف قرآن،حدیث،فقہ
5۔الاشباہ والنظائر
6۔فلسفہ شریعت اسلام
7۔المبسوط جلد اول
8۔شرح مسلم الثبوت
9۔ردالمختار ،کتاب الولۃ
10۔(کتاب)اصول فقہ
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 522642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.