میرے درد کو جو زباں ملے، زبان ککی دوہائی

آپ کو اکثر ہی منہ تھوڑا سا معمول سے زیادہ کھول کر اور تھوڑآ سا دائیں یا بائیں طرف غیر معمولی زیادہ گھماکر بولی جانے والی انگریزی سننے کا ضرور اتفاق ہوا ہو گا۔ اس انگریزی کی سب سے خاص بات یہ ہوتی ہے کہ کانوں پر گراں تو گزرتی ہے مگر آپ کان دبانے کی بجائے منہ کھول کھول کر ہنسنے لگتے ہیں۔

اکثر ایسی اُردو بھی سننے میں آتی ہے جس میں الفاظ کا تلفظ اتنا انگریزی زدہ سا ہوتا ہے کہ آپ کو اُردو کے بارے میں بھی غیر مقامی ہونے کا شک سا ہونے لگتا ہے اردو کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دھوم جہاں میں ہماری زبان کی ہے۔ مگر حالات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اس زبان کی دھوم پتہ نہیں کس سیارے پر ہو گی۔

کیونکہ یہاں تو جس کو بھی کھانے کو بدیسی فوڈ اور پہنننے کو غیر مشرقی لباس نصیب ہو جائے وہ اپنی مادری زبان کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کرنے میں لحظہ بھر کو نہیں سوچتا اور جبڑے خواہ بدیسی زبان کو بول بول کر دکھنے لگیں مگر رہو مقامی پہنو اور بولو پرائی کی تفسیر بنتے دیر نہیں لگاتا تا کہ آپ اعلی تعلیم یافتہ ضرور دکھ سکیں۔

معمولی، غیر معمولی اور اعلی ہر اعتبار سے بات کی جائے تو اگر آپ تعلیم یافتہ ہونے کے دعوے دار ہیں تو آپ کو رج کر اچھی سی انگریزی ضرور بولنی آنی چاہئے آخر کو یہ ایجوکیشن یافتہ ہونے کی سب سے اول نشانی ہے اور خاص طور پر اگرآپ کے آس پاس کے افراد انگریزی سے اتنے ہی نابلد ہوں جتنے نئے انگریزی زدہ عوام انگریزی کی سپیلنگز تک سے ناآشنا ہوسکتے ہیں تو سونے پر سہاگہ۔

مسئلہ انگریزی یا اردو بولنے سے زیادہ ہماری سماعت کا ہوتا ہے کیونکہ جو کچھ بھی منہ سے نکل رہا ہے کان سے ہو کر دماغ میں چل رہا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ حتی کہ بڑوں کے ساتھ بھی بات کرت ہوئے اگر یہ خیال ہی نہ رہا کہ کس طرح کی بات کس طرح کرنی ہے تو ایسی زبان سے بے زبان ہونا ذیادہ اچھا۔۔۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 274966 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More