ماں کی اہمیت ۔۔۔

اس لڑکی نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔۔۔۔۔ باپ ایک معمولی فوجی تھا اور ماں جاہل گنوار ۔۔۔۔۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ ماں جیسی عظیم ہستی کے لئے ایسے نا مناسب الفاظ استعمال کئے ۔۔۔۔۔ انسان کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اگر ہم نے بھی ایسا کیا ہوتا تو معذرت تو نہ کرنا پڑتی ۔۔۔۔۔ خیر! ہمارے نزدیک معذرت کرلینا ڈھٹائی اختیار کرنے سے بہتر ہے ۔۔۔۔۔ اصل میں ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ اس کی ماں نہ تو پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ۔

کچھ بڑی ہوئی تو باپ نے اسکول میں داخل کروا دیا ۔۔۔۔۔ اسکول کیا گئی سارے محلے میں اس کی واہ واہ ہونے لگی ۔۔۔۔۔ اس کو قدرت نے بے مثال ذہن اور بلا کا حافظہ دیا تھا ۔۔۔۔۔ ماں کو ان باتوں کا کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔ وہ تو اپنی بیٹی سے پریشان تھی کہ وہ گھر کا کوئی کام نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔۔ آگے چل کے جب وہ اپنے گھر جائے گی تو کیسے کام چلے گا ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ اکلوتی اولاد تھی اس لئے باپ کو کچھ زیادہ ہی پیاری تھی ۔۔۔۔۔ ماں بھی اس سے کم پیار نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔۔ گھر کے کاموں سے اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے دل ہی دل میں کڑھنا اس کی محبت اور ممتا کا ہی حصہ تھا ۔۔۔۔۔ وہ اپنی بیٹی کے سارے کام کرتی اس حد تک کہ اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی ۔۔۔۔۔ صبح صبح اٹھ کر اس کے لئے ناشتہ تیار کرنا۔ سل پر رگڑ کر پانچ مغز دودھ میں گھول کر پلانا کہ اس سے دماغ طاقتور ہوگا اس کے لئے سردیوں میں ہاتھ منہ دھونے کے لئے گرم پانی کرکے اس کو اٹھانا۔ صبح اسکول کے تازے پکڑے رات ہی استری کرکے لٹکا دینا ۔ اسکول سے واپسی پہ اس کے لئے گرم گرم کھانا تیار رکھنا ۔ نہانے کے لئے پانی اور دھلے ہوئے صاف کپڑے غسل خانے میں لٹکانا وہ ایک دن بھی نہیں بھولی ۔۔۔۔۔ شام کی چائے وقت پہ ۔۔۔۔۔ اس کی سہیلیوں کی خاموش رہ کر خاطر مدارات ۔۔۔۔۔ رات کو سوتے وقت بستر جھاڑ کے تیار کرنا اور ابلا ہوا انڈا اور گرم دودھ دینا بھی اس کے معمولات میں شامل تھا ۔۔۔۔۔ پڑھائی کے دوران لائٹ چلی جائے تو بغیر کہے اس کو پنکھا چھلتے رہنا جب تک لائٹ نہ آجائے ۔۔۔۔۔ اور وہ کہ کبھی جھوٹے منہ بھی نہیں روکا کہ رہنے دے ماں تو اتنی تھکی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ گھر میں کوئی کام ایسا نہیں تھا جو وہ کرتی ہو ۔۔۔۔۔ نہ اپنا اور نہ ہی کسی اور کا ‘ سوائے اپنی پڑھائی اور محبوب مشغلوں کے‘ اسے کسی بات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

باپ نے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے مشورے پہ اس کو فوج کے زیر انتظام چلنے والے ایک تعلیمی ادارے میں داخل کروادیا تھا ۔۔۔۔۔ ماں کی خدمت گزاری اور اللہ کی عطا کردہ بہترین اور ناقابلِ یقین ذہنی صلاحیتوں کے طفیل وہ اعلٰی ترین سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئ ۔۔۔۔۔ ماں باپ کو شادی کی فکر تو بہت عرصے سے تھی لیکن وہ تعلیم مکمل ہونے سے قبل اس موضوع پر بات تک کرنے کو تیار نہ تھی۔ اب جو انہوں نے اپنے پسند کردہ لڑکے کی تجویز اس کے سامنے رکھی تو اس نے صاف انکار کردیا اور اعلان کردیا کہ شادی اس کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ اپنی مرضی سے ہی شادی کرے گی۔ اس نے اپنے والدین کو بتا دیا کہ وہ کسی امریکی پاکستانی لڑکے کو پسند کرتی ہے اور اس کے گھر والے رشتے کے لئے بہت جلد آئیں گے ۔۔۔۔۔ اور وہ شادی کے بعد امریکہ منتقل ہوجائے گی۔ لڑکی کے فیصلے سننے کے بعد باپ نے ہی اسے سمجھانے کی کوشش کی ماں تو اس کے لئے صرف ایک ملازمہ تھی وہ کیا بولتی۔ کچھ دن گھر میں ماتم اور سوگ رہا ۔۔۔۔۔ اور وہی ہوا جو وہ چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ وہ امریکہ چلی گئی۔

نئی نئی شادی ۔۔۔۔۔ نیا ماحول ۔۔۔۔۔ چاہنے والا شوہر ۔۔۔۔۔ اس کے لئے دنیا میں جنت کا سما تھا اور یوں بھی وہ دنیا کی جنت یعنی امریکہ میں آ گئی تھی ۔۔۔۔۔ سب کچھ بھول کے اپنے والدین کو بھی۔

اب ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی نوکری نہیں تھی ۔۔۔۔۔ شوہر نوکری پہ گیا تھا اور وہ فلیٹ میں اکیلی ۔۔۔۔۔ آج پہلا دن تھا اور شوہر نے کچھ پکانے کی فرمائش کردی تھی ۔۔۔۔۔ اب تک تو دونوں مل کر سب کام کر لیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ حقیقت تو یہ تھی کہ شوہر ہی سب کام کر دیا کرتا تھا کہ بیوی مہمان ہے اس ماحول میں ماں باپ سے بچھڑی ہے تو اس کی دلجوئی بھی ہو جائے ۔۔۔۔۔ اب اس کے سامنے پھیلے ہوئے جوٹھے برتن ۔۔۔۔۔۔ بکھرے ہوئے کپڑے ۔۔۔۔۔ اور چھوٹے موٹے دوسرے کام ۔۔۔۔۔ یہ پہاڑ وہ کیسے سر کرے ۔۔۔۔۔ اس کے آنسو نکل آئے ۔۔۔۔۔ اس وقت اس کو ماں بہت یاد آئی۔

شام شوہر گھر آیا تو گھر اسی طرح اندھا پڑا تھا ۔۔۔۔۔ وہ اس کے سامنے اپنی بے بسی سے رو دی اور اس کو صاف صاف بتا دیا کہ اس نے کبھی گھر میں تنکا بھی نہیں ہلایا اور نہ خود سے ایک گلاس پانی پیا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے شوہر سے ملازمہ کی فرمائش کی تو اس نے معذوری ظاہر کردی کہ وہ اپنی تنخواہ میں کسی طرح بھی یہ عیاشی برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔ امریکہ میں ہر شخص چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اپنے کام خود کرتا ہے ۔۔۔۔۔ یہاں اس طرح کے ملازموں کا تصور محال ہے ۔۔۔۔۔ لیکن وہ اڑی تھی کہ اسے ہر صورت ایک کل وقتی ماسی چاہئے جس کی ادائیگی وہ خود نوکری کرکے کیا کرے گی۔

ماسی چاہئے
کچھ اور نہ مجھ کو بتا
ماں سی چاہئے
Dr. Riaz Ahmed
About the Author: Dr. Riaz Ahmed Read More Articles by Dr. Riaz Ahmed: 10 Articles with 5557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.