قصہ ٹوپی کا (قسط سوم )

سابق وزیر اعظم دیودار جب دیوان خانے میں لوٹ کر آئے توٹی وی پرتقریر ختم ہو چکی تھی اور کانگریس کا ترجمان اس کا پوسٹ مارٹم کررہا تھا ۔ سردار نے غصے سے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا یہ چلے آئے کھمبا نوچنے والے ۔اگر میرا بس چلے تو ان کی کھال ادھیڑ دوں یا ان سب کو پاکستان بھیج دوں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میں نے کیا غلط کہا۔ کوئی ایک بھی بات نامعقول ہو تو آپ نشاندہی فرما دیں ۔

دیودار: (مسکرا کر)بھئی تم ایک کی بات کررہے ہو اب تم ہی بتاؤ کہ میں اس کتنی غلطیاں بتاؤں؟ مثلاًتم نے مہاراشٹر کے وزرائے اعلی ٰکی تعداد ۲۷ بتا دی اور دیکھا تم نے اس ترجمان نے اس کی تردیدکرتے ہوئے ۱۷ وزارائے اعلیٰ کی فہرست سنا دی ۔ کیا تمہیں گنتی تک نہیں آتی مجھے تو تمہاری گجراتیت پر شبہ ہو رہا ہے۔

سردار:کیا بتاوں گرودیو کہ اسکول کے زمانے میں حساب ہی میرا سب سے پسندیدہ مضمون تھا ۔ اس کے بعد جب چائے کی دوکان پر بھی تھا تو حساب کتاب میں مجھ سے کبھی کوئی بھول چوک نہیں ہوتی تھی لیکن سنگھ کی شاکھا ؤں میں جانے کے بعد کم بخت سارابہی کھاتہ ہی غلط ہو گیا۔ وہاں کبھی دو دونی پانچ تو کبھی دو دونی تین ہونے لگا۔ اس لئے اس میں میرا نہیں بلکہ پریوار کا قصور ہے۔

دیودار: (مسکرا کر) تم نے تو بڑی چالاکی سے اپنی کمزوری کیلئے اپنی مادرِ تنظیم کو موردِ الزام ٹھہرا دیا لیکن اس سے کام نہیں چلے گا ۔ سنگھ نے تمہیں حساب نہ سہی تاریخ کا سبق تو پڑھایا ہی ہوگا؟

سردار: جی ہاں کیوں نہیں سکندر سے لے کربابر تک آپ کسی کے بارے میں بھی مجھ پوچھیں میں درست جواب دوں گا۔

دیودار: اچھا ! تو گویا سکندر اور بابر دونوں ہی مسلمان تھے؟

سردار: جی ہاں اس میں کیا شک ہے ؟ دونوں حملہ آور مسلمان تھے جو سارے ہندووں کو کلمہ پڑھانے آئے تھے وہ تو ہمارے پریوار نے ان سے دھرم یدھ کرکےانہیں ناکام کردیا۔

دیودار: اچھا ؟ تمہارا پریوار اس وقت کہاں تھا؟ میں تو سنا ہے ہیڈگیوار نے سنگھ پریوار کی بنیاد ڈالی تو کیا ہیڈگیوار کا جنم سکندر سے پہلے ہو اتھا اور انتقال بابر کے بعد ؟

سردار: جی ہاں کیوں نہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

دیوادر : فرق کیوں نہیں پڑتا ۔ اس لئے کہ اگر یہ درست ہے تو ہیڈگیوار کی عمر ۱۸۰۰ سال سے زیادہ ہونی چاہئے۔

سردار : کیا ۱۸۰۰ سال آپ کیسی با تیں کرتے ہیں؟۱۸۰۰ سال قبل پاٹلی پتر کہاں تھا جس پر سکندر نے چڑھائی کی تھی ؟

دیودار: اچھا پاٹلی پتر نہیں تھا تو کیاچانکیہ تمہارے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا ۔

سردار: جی نہیں ویسے ہمارے گاؤں کا نام براہمن واڑہ ہے لیکن وہاں ایسے مشکل نام نہیں رکھے جاتے۔

دیودار: لیکن تم نے اچانک پاٹلی پتر کا ذکر کیوں چھیڑ دیا؟

سردار: اوہو آپ نہیں جانتے پاٹلی پتر میں ہی تو سکندر کو ہمارے پریوار نے شکست دی تھی ۔

دیودار: اچھا میں نے تو سنا ہے کہ پورس سے اس کی لڑائی سندھ ندی کے کنارے ہوئی تھی اور وہ وہیں سے واپس لوٹ گیا تھا ۔

سردار: ہوسکتا ہے اس وقت سندھ ندی بہار میں بہتی رہی ہو اور اب وہ راستہ بدل کر پاکستان چلی گئی ہو؟
دیودار:(حیرت سے) جی ہاں تمہارے راج میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن دیکھو تم نربدہ کو سنبھالو کہیں اس کا پیر نہ پھسلے اور پاکستان کی جانب نکل جائے ۔

سردار: کیسی باتیں کرتے ہیں گرودیو ۔ ہم نے اس کا پکا انتظام کررکھا ہےَ۔

دیودار: اچھا ؟ وہ کیسے؟

سردار:ا ٓپ نے سردار سرور کا نام نہیں سنا؟

دیودار: جی ہاں وہتو ڈیم ہے ۔ میرے زمانے میں بھی اس بندکے ایک حصے کا سنگ ِ بنیاد رکھا گیا تھا ۔

سردار: وہی تو! ہم نے اس کو اسی لئے مکمل کیا ہے تاکہ کہیں نربدہ اپنے پیر پھیلا کر پاکستان کی جانب نہ نکل جائے۔ جب سارا پانی ہم گجرات ہی میں روک لیں گے تو وہ پاکستان جاکر کیا کرے گی بلکہ پاکستانی اسے اپنے ملک میں داخل ہونے کا ویزہ بھی نہیں دیں گے ۔

دیودار: ویزہ ؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہوسردار ؟

سردار: وہی جو آپ سن رہے ہیں گرودیوَ۔ ویزہ یعنی اجازت نامہ ۔ خیر جس طرح ویزہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے اسی طرح ۱۸۰۰ سال والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ؟

دیودار:(جھنجلا کر) ارے احمق تجھے نہیں معلوم سکندر اور بابر کی پیدائش کے دوران ۱۸۰۰ سال کا فرق تھا ۔

سردار:(قہقہہ لگا کر) کیسی باتٰ کرتے ہیں سرکار کیا مغلیہ سلطنت اتنی طویل تھی ؟ میں نہیں مانتا۔ میں نے تو سنا ہے ڈھائی تین سو سال میں سارا کھیل ختم ہوگیا تھا۔

دیودار: وہ تو تم نے صحیح سنا لیکن تمہیں کس نے بتایا کہ سکندر مغل تھا؟

سردار:(ہنس کر) نہیں تو کیا انگریز تھا ؟

دیودار: جی ہاں وہ تو یوروپین تھا ۔

سردار:(تعجب سے) اچھا! تب تو آپ یہ بھی کہہ دیں گے کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔

دیودار:اس میں کیا شک ہے۔

سردار: اچھا تو سکندر عیسائی اور بابر مسلمان ؟ حیرت ہے۔

دیودار: ارے احمق تجھے یہ کس نے کہہ دیا کہ وہ عیسائی تھا ۔

سردار: کس نے؟ آپ نے ہی تو ابھی کہا کہ وہ ۰۰۰۰۰۰۰۰

دیودار: کیا کہا میں نے ؟

سردار : یہی کہ وہ بابر سے ۱۸۰۰ سال قبل پیدا ہوا تھا اور یوروپ سے آیا تھا اس لئے لازماً عیسائی رہا ہوگا ؟

دیودار:( سرپر ہاتھ مارکر) ارے بھائی حضرت عیسیٰؑ کی بعثت سے قبل کوئی عیسائی کیسے ہو سکتا ہے؟
سردار: وہ بھی درست ہے؟

دیودار: اب تمہاری سمجھ میں آیا ہیڈگیوار، سنگھ پریوار اور سکند ر کے درمیان کا فرق؟

سردار : (کچھ سوچ کر) جی ہاں میں سمجھ گیا ۔ ہیڈگیوار نے نہیں تو گوتم بدھ نےسکندر کو ہرایا ہوگا جیسے میں نتیش کمار کو ہرانے والا ہوں ۔

دیودار: تمہاراگوتم بدھ سے کیا واسطہ؟ وہ بہاری اور تم گجراتی۔

سردار: یہ آپ سے کس نے کہا کہ گوتم بدھ بہاری تھا؟

دیودار: نہیں تو کیا گجراتی تھا؟

سردار:بھئی اس وقت سارا بھارت ایک اکھنڈ بھارت تھا۔ بہار، گجرات،بنگلہ دیش اور پاکستان وغیرہ نہیں تھا ۔

دیودار:تب بھی گوتم بدھ سے تمہاری کیا نسبت؟

سردار: یہی کہ اس نے بھی گھر بار چھوڑ دیا تھا اور میں نے بھی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

دیودار: اب بس بھی کرو یار۔ اس نے تو تخت و تاج چھوڑنے کیلئے گھربار چھوڑا تھا اور تم نے اقتدار پانے کیلئے گھر سنسار چھوڑا ہے اس لئے اس سے تمہارا کیا واسطہ؟

سردار: گرودیو آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ بہت دور نکل جاتے ہیں۔ بھئی کس لئے چھوڑا ؟اسے چھوڑئیے! چھوڑا یا نہیں یہ اہم ہے۔

دیودار: اچھا اب زیادہ لمبی لمبی نہ ہانکو یہ بتاؤ کہ وہ شیامہ جی کرشنا ورما کا کیا معاملہ ہے جسے تم نے شیامہ پرشاد مکرجی بنا دیا ۔ تم اپنی پارٹی کے پہلے اوتار بھارتیہ جن سنگھ کے صدر سے تک واقف نہیں ہو؟

سردار: (جھینپ کر)وہ دراصل ہماری امریکی ایجنسی نے گوگل سے معلومات حاصل کی تو نام کی وجہ سےتھوڑا سا کنفیوزن ہوگیاتھا ۔

دیودار: تھوڑا کنفیوزن ؟ کیسی بات کرتے ہو۔ تمہارا مکرجی ؁۱۹۰۱ میں پیدا ہوا اور وویکا نند کا ؁۱۹۰۲ میں انتقال ہوا ۔اس کے باوجود تم نے دونوں کی بات چیت کروادی۔ اور تو اور مکرجی کا انتقال سرینگر میں ہوا اور تم اس کی راکھ لینے برطانیہ پہنچ گئے بھئی دماغ بھی تو کوئی چیز ہے ؟ تمہیں اپنی ریاست کے مجاہدِ آزادی اور اپنی پارٹی رہنما کے بارے میں بھی امریکیوں سے پوچھنا پڑتا ہے۔
سردار: گرودیو میں نے کب کہا کہ شیامہ پرشاد مکرجی کا تعلق گجرات سے تھا ؟

دیودار: جی ہاں مجھے تمہارے گجرات پریم کا بھی پتہ ہے تم اپنی دھرتی کے مہان سپوت گاندھی جی کے بارے میں بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنے مشہورو معروف بھارت چھوڑو آندولن کا اعلان ممبئی میں کیا تھا جبکہ ابھی ابھی تم نے وردھا میں اعلان کیا کہ یہاں موجود آشرم سے بھارت چھوڑو تحریک شروع ہوئی تھی ۔

سردار:(مسکرا کر) گرودیو آپ تاریخ سے جغرافیہ کی جانب نکل گئے ۔ وردھا اور ممبئی کا فرق تو جغرافیہ میں آتا ہے ۔

دیودار:جغرافیہ سہی لیکن تم نے جغرافیہ بھی پڑھا تھا یا نہیں ؟اسی لئے تو میں کہتا ہوں اگر تم وزیر اعظم بن گئے تو میں سیاست سے سنیاس لے لوں گا ۔

سردار: اچھا یہ تو بہت اچھی خبر ہے! اگر آپ نے واقعی سنیاس لے لیا تو ہمارے گجرات میں آجانا میں بیٹے کی طرح آپ کی خدمت کروں گا۔

دیودار:(چونک کر)یہ ہمارا گجرات کیا ہے؟

سردار : ارے آپ گجرات نہیں جانتے وہی مشہور زمانہ صوبہ جس کا میں وزیر اعلیٰ ہوں۔

دیودار: وہ تو میں جانتا ہوں لیکن تم وزیر اعظم گجرات کے بنو گے یا ہندوستان کے؟

سردار: کیسی بات کرتے ہیں گرودیو؟ میں اس ٹوٹے پھوٹے ہندوستان کا نہیں بلکہ اکھنڈ بھارت کا وزیراعظم بنوں گا جس میں سندھ ندی کے دونوں کنارے شامل ہوں گے۔

دیودار: لیکن کرناٹک بھی شامل ہوگا یا نہیں ؟

سردار: کرناٹک ہی کیا ہر ناٹک اس میں شامل ہوگا ۔ آپ اس کی فکر نہ کریں ۔

دیودار: اگر کرناٹک بھی اس میں شامل ہوگا تو تم مجھے گجرات کیوں بلا رہے ہو؟ کیا تم احمدآباد میں بیٹھ کر ملک کا کاروبار چلاؤگے اور میری خدمت بھی بجا لاؤگے۔

سردار:جی ! جی نہیں ۔ وہاں گاندھی جی کا سابرمتی آشرم جوہے۔(سردار نے بات بنانے کی کوشش کی)

دیودار:(بگڑ کر)کیا تم مجھے آشرم میں بھرتی کرنا چاہتے ہو ۔ کہیں تم نے مجھے اپنی طرح لاوارث تو نہیں سمجھ لیا ہے۔ جس کا نہ کوئی آگے اور نہ کوئی پیچھے ؟

سردار:تو کیا کسی کا آگے پیچھے ہونااچھی بات ہے ؟

دیودار: یہ کسی کے آگے پیچھے ہونے کی بات نہیں بلکہ کسی کے آگے پیچھے کسی اور کے ہونے کی بات ہے ۔

سردار :(منہ بنا کر) آگے پیچھے! پیچھے آگے!!آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی گرودیو؟

دیودار:یہ آسان سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئی؟ اوہو میں بھول گیا تھا کہ کسی بات کو سمجھنے کیلئے عقل کی ضرورت پڑتی ہے اور تمہارے سنگھ پریوار میں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔

سردار: گرودیوکیا آپ کو نہیں لگتا کہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی ناراض ہورہے ہیں؟میں تو سر سنگھ چالک کے ہاتھوں بھی ایسی خواری برداشت نہیں کرتا۔

دیودار: لیکن تم نے بات ہی کچھ ایسی کردی کہ کوئی بھی خوددار اورعزت دار آدمی ناراض ہو جائے۔ میری سیوا کیلئےمیرا گھرپریوار موجود ہے۔ انہیں چھوڑ کر سابرمتی آشرم میں جائیں میرے دشمن ۔

سردار: اس میں اس قدر ناراض ہونے کی کیا بات ہے ؟ میں نےخدمت کی ایک پیشکش کی اسے قبول کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی ہے؟

دیودار: (جھنجلا کر) ہاں ہاں میں جانتا ہوں بڑے آئے خدمت کرنے والے ۔ اگر تمہیں سیوا کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا کر اس کی خدمت کرو تاکہ آخری عمر میں اس کی حق تلفی کا کچھ نہ کچھ کفارہ ادا ہو جائے۔

یہ کہہ کر غصے سے کالے پیلے سابق وزیر اعظم ہردن ہلی دوڈے داردیودارکمرے سے اٹھ کر باہر نکل گئے۔
(جاری)

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228494 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.