بیٹی :رحمت بھی، نعمت بھی۔ اپنے باپ کی طرف در۔۔ اگر بچھڑ جائے تو

بیٹی رحمت ہے ، بیٹی نعمت ہے۔ ماں باپ کے لیے بیٹی کا رشتہ کس قدر پیار اہوتا ہے اس کا احساس والدین ہی کرسکتے ہیں۔ یہ احساس اس وقت زیادہ شدید ہوجاتا ہے اگر بیٹی دنیا میں آنے کے بعد جدا ہوجائے۔ بیٹیوں کو تو ویسے بھی پرائے گھر جانا ہی ہوتا ہے لیکن وہ جانا اس جانے سے بہت مختلف ہے جس میں بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتی ہے۔ میری بھی ایک بیٹی دنیا میں ۶ جون ۱۹۸۰ء کو آئی تھی اور چند دن محبت سمیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی۔ امیر خسرو کے مطابق’ بیٹی اصل میں باپ کی طرف دار ہوتی ہے بیٹا ماں کا، بیٹا دنیاوی چپکلّش میں پڑ کر بھول بھال جاتا ہے، بیٹیاں باپ کا ورثہ سینت کر ، بنا سنوار کر دنیا کے آگے سنوارتی ہیں‘‘۔ اس اعتبار سے میں بھی اپنی ایک طرف دار سے محروم ہو گیا ۔اس رشتہ میں جو سچائی ہے، اپنائیت ہے، پیار ہے اُسے شاید الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ پھر بھی اپنی بیٹی’ سحر‘ کی جدائی کے کرب کو قلم بند کرنے کی سعی کی ہے۔

بات ہے ۶ جون ۱۹۸۰ء کی ہمارے آنگن میں ایک زندگی نے آنکھ کھولی ، ستارے مسکرا اُٹھے ۔ سَحر(میری بیٹی) نمودار ہوئی تو زندگی کی حرارت بخش نرم نرم کرنیں بکھر نے لگیں ، ہر سوُ سوتا پھیلا نے لگیں ؂
آفتاب ِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا غنچوں نے مسکراکر اس نو دمیدہ کلی کو دیکھا ، پھول فرطِ انبساط سے ہنس پڑے ، باغباں نے احساسِ طمانیت سے آنکھیں بند کرلیں ، دل خدا کے حضور ا حساِ س تشکر سے جُھک گیا۔ کلی پھلنے ، پھولنے لگی، مگر فلکِ کج رفتار کو گلستاں کا رنگ و بو ایک آنکھ نہ بھایا، آتشِ حسد سے جل اُٹھا، تیور بدلنے لگے ۔ چرخِ کہن کی جبیں شکن آلود ہوگئی۔ ہواؤں نے اس کی حاسد تمازت جذب کرلی اور اپنی نر م لطافت ، آسودگی کھو بیٹھیں،رات کے بگو لے اُڑ نے لگے ، ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔

پھول خوف سے زرد ہوگیا۔ ٹہنیاں جُھک جُھک گئیں ، غنچے سہم کر پھول کی اوٹ میں چھپ گئے اور باغباں حیران و پریشان ہواؤں کا رنگ دیکھ رہا تھا کہ معصوم سی ، کو مل سی ، کہکشاں کی طرح جگمگاتی مسکراتی ’سحر‘ ہواؤں کی تپش سے جُھلسنے لگی، تپنے لگی ، اس کا گِیہُواں چمکتا د مکتا رنگ تمازتِ آفتاب سے سُرخ ہونے لگا ، ننھے ننھے لب کانپنے لگے ، خوبصورت آنکھیں جھپکنے لگیں، ننھا سا سہما سہما و جود فضاؤں کی بے رُخی کی تاب نہ لا کر دھیرے دھیرے لرزنے لگا ، مگر لب خاموش تھے صرف آنکھیں بولتی تھیں۔ وہ جو پھول کی نرم نرم آغوش محبت کی لطیف سی حرارت کی عادی تھی بے رحم ہواؤں کی تپش سے مُرجھانے لگی ، شاخ پر ڈولنے لگی۔ ساتھی پھولوں نے سہارا دیا مگر وہ ننھی سے کومل جان جو ابھی پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوئی تھی کہ بے مہریٔ زمانہ کے ہاتھوں بے بس ہوکر اپنی کرنوں کو سمیٹنے لگی ، شمع کی مانند بھڑ کنے لگی ، وہ جو چشم براہ تھی ، نہ جانے اسے کسی مہر باں کاا نتظار تھا۔ نہ جانے کس مسیحا ٔ نفس کی تلاش تھی کہ آنکھیں جانبِ در اور گوش بر آواز تھے ۔

یکا یک وہ باغباں جس نے خونِ دل سے کلیوں کی آبیاری کی تھی ، غنچوں کو گدگدایا تھا ، ہنسا یا تھا ، شگفتہ پھولوں کو مہک عطا کی تھی آپہنچا۔ مگر دیر ہوچکی تھی وقت کا صیاد اپنا تیر چلا چکا تھا ۔ باغباں کا مہر باں ہاتھ حفاظت ’سحر ‘ کو اُ ٹھا تو وہیں جم کر رہ گیا، وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں ہاتھ کے لمس کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں۔ کلی نے چپکے سے آنکھ موندلی۔

باغباں تھراگیا، پھول کا چہرہ فرطِ غم سے سفید پڑ گیا ، غنچے بلک بلک کر رودیئے ۔ مگر کلی تو ایسی روٹھی پھر منائی نہ جاسکی ۔ آفتاب کی کرنیں دھند لانے لگیں ، دونوں وقت ملنے لگے تو وہ نازک سے کلی ، وہ نودمیدہ ’سحر‘ پیوند خاک ہو گئی۔وہ ’سحر‘ جو آنکھ کا نور ، دل کا سرور تھی ، باغباں تہی دست رہ گیا اور گل رنگ تتلی کو فضا میں تحلیل ہوتے دیکھتا رہا ۔ وہ آفاق کی لامتناہی تنہائیوں میں کھو گئی ، وہ چلی گئی ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کا رکھوالا اس کی نگہداشت کو موجود ہے۔ وہ سحرَ تھی میری بیٹی ۔ کہ پوری آب و تاب سے طلوع ہوئی اور پھر یکدم غروب ہوگئی کبھی طلوع نہ ہونے کے لیے۔لیکن میرے دل میں تو وہ ہمیشہ جگمگاتی رہے گی ، مجھے حوصلہ دیتی رہے گی کہ باغباں اپنے فرض سے غافل نہ ہو اور بھی غنچے ہیں جنہیں تجھے پروان چڑھانا ہے اور انہیں تن آور سایہ دار بنا نا ہے تاکہ وہ بھی باغباں بن جائیں گل چیں نہ بنیں کہ یہی رسمِ گلستاں ہے ، رسمِ دنیا ہے اور مرضٔی مولا بھی یہی ہے ؂
طلوعِ سحر ہوئی بھی نہ دیکھنے پائے
غروب سحر کا منظر نہ بھولنے پائے
مآل دردِ محبت جو ہم نے دیکھا ہے
الہٰی میرا عُدو بھی نہ دیکھنے پائے
ہوا ہے کیسا اندھیرا مرے گلستان میں
کلی جو چٹکی تو غنچہ نہ دیکھنے پائے
کسے مناؤں کوئی اب کہاں ملے گا مجھے
وہ چار دن بھی جھولا نہ جھولنے پائے
جو میں نہ تھا تو میرا انتظار تھا اس کو
جو مجھ کو دیکھا تو دنیا نہ دیکھنے پائے
وقت سحر در ِ جنت سے یہ ندا آئی
اُٹھو اُٹھو چڑیوں سحر آئی سحر آئی
درباں نے جو آواز سنی ایک ہل چل سی مچی
فلک گونج اٹھا بہار آئی بہار آئی
غنچے مسکرائے ، پھول مہکے، کلیاں چٹکنے لگیں
باغباں کہہ اٹھا ایک پھول آئی ایک پھول آئی
فرطِ مسرت سے یوں ہوا جنت میں استقبالِ سحر
بیبیاں گو یا ہوئیں کیا خوب آئی کیاخوب آئی
فرشتے لیے ڈولی حاضر ہوئے با ادب و احترام
کلی چٹک کے بولی خاتونِ جنت سحر آئی سحر آئی
(سحرَ میری بیٹی تھی جو اس دنیا میں ۶جون ۱۹۸۰ء کو آئی تھی اور صرف ۳۹ دن بعد۱۴ جولائی ۱۹۸۰ء کو اﷲ کو پیاری ہوئی)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1282638 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More