صبر اور شکر اسلام کاع طاکردہ بہترین سرمایہ ہے

اس عظیم سرمایہ کوپاکرمومن اہل ثروت کہلاتاہے

انسانی حیات کے دوکوائف ہوتے ہیں۔پہلی کیفیت کانام آرام ہے اور دوسری کیفیت کانام تکلیف۔نعمت ملنے پر شکرالٰہی کی تلقین کاحکم ہے اور تکلیف پر صبر ۔شکروصبر استقامت کے ستون ہے جن کی بدولت رحمت الٰہی کانزول ہوتاہے۔جب مومن کوخوشی حاصل ہوتی ہے تواﷲ تعالیٰ کاشکر بجالاتاہے اور تکلیف پہنچنے پر صبرکاپیکرنظرآتاہے۔شدید حالات میں بھی صابروشاکر بندوں کے دل ودماغ پر مایوسی کے بادل نہیں چھاتے ہیں۔پیغمبر اسلامﷺکی راہِ دعوت وتبلیغ میں بے شمار پریشانیاں حائل رہی مگر زبان رسالتﷺپر ’’ان اللّٰہ معنا ‘‘کاجلوہ مسکراتارہا،مکہ کی تنہائی میں،مصائب کے ہجوم میں،دشمنوں کے نرغے میں،بدروحنین کے خوں ریز معرکوں میں ہرجگہ صبرکارفرمارہا اور’’ توکلت علی اللّٰہ‘‘ جھک جھک کر سلام پیش کرتارہا۔صبروشکر اور توکل اسلام کابہترین سرمایہ ہے۔اس عظیم سرمایہ کوپاکرمومن اہل ثروت کہلاتاہے،اس دولت کبرٰی سے بے شمار خوبیاں جنم لیتی ہیں۔اسلام جس صبر کی تعلیم دیتاہے وہ ایسااعلیٰ فلسفہ ہے کہ ایک زندہ قوم کے لیے اس سے بہترتعلیم نہیں ہوسکتی ہے۔انبیائے کرام ،صدیقین،شہداء اور صالحین سبھی نے اس نعمت عظمیٰ پر عمل کیا۔جناب طالوت کی قوم جب اپنے دشمن کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی تھی تو بارگاہ خدامیں یہ دعاکی تھی۔’’اے ہمارے رب!ہمیں صبرکی توفیق عطافرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ‘‘۔(پارہ ۲،سورۂ بقرہ،آیت ۲۵۰)

توبہ بھی بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے یعنی کسی فرض کوبجالانااور کسی معصیت کاترک کرنابغیر صبر کے ممکن نہیں ہے۔چنانچہ صحابہ کرام نے رسول اکرمﷺسے دریافت کیاکہ ایمان کیاچیز ہے؟فرمایا:ایمان صبرکانام ہے۔شاہکاردست قدرت مصطفی جان رحمتﷺنے انصار کی ایک جماعت کودیکھ کرفرمایاکیاتم ایمان لائے ہو؟انہوں نے عرض کیاجی ہاں۔رحمۃ اللعالمینﷺ نے دریافت کیاکہ اس کی علامت کیاہے؟انہوں نے عرض کیا:ہم خداکی نعمت پر شکر کرتے ہیں اور محنت وبلامیں صبرکرتے ہیں اور تقدیرپرراضی رہتے ہیں۔ حضورﷺنے فرمایاکہ خداکی قسم!تم سچے مومن ہو۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ صبروایمان کاتعلق ایساہے جیساسرکاجسم کے ساتھ،جس کاسر نہ ہواس کاجسم بھی باقی نہ رہے گا۔اسی طرح جس میں صبرکی صفت نہیں ہے اس میں ایمان نہیں ہے۔ایک اور حدیث میں ہیکہ صبرایمان کانصف حصہ ہے۔صبر کی فضیلت کاسب سے بڑامقام یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے قرآن مقدس میں ستّرمقامات سے زیادہ صبرکاتذکرہ فرمایااور تقرب کاجوسب سے بڑا درجہ ہے اس کوصبرپرموقوف رکھا۔یہاں تک کہ راہِ دین کی امامت اور سروری کوبھی صبرہی پر مبنی قراردیا۔(پارہ ۲۱،سورۂ سجدہ،آیت ۲۴)اسی طرح اجربے حساب اور ثواب بے شمار کو صابرین کاحصہ قراردیا(پارہ،۲۳،سورۃ الزمر،آیت ۱۰) اور صابرین سے وعدہ فرمایاکہ اﷲ ان کے ساتھ ہے۔(پارہ۲،سورۂ بقرہ،آیت ۱۵۳)صبر بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ تومیرے اخلاق کی پیروی کراور میرے اخلاق میں سے ایک یہ ہے کہ میں صُبُوریعنی صبروالاہوں۔رسول اکرمﷺنے فرمایااگر تم کوکوئی شخص ایک چیز سے محروم کردے توتم اس کوبخش دواور اگر تم سے بدی کرے توتم اس سے نیکی کرو،پس ایساصبرکرناصدیقین کادرجہ رکھتاہے۔

لیکن آج کل مسلمان صبراِسے سمجھتے ہیں کہ ذلیل وخوار ہوتے رہیں،ایک حال پر پڑے رہیں،جائزاسباب کے لیے ہاتھ پیرنہ ہلائیں،سنہری موقع کھوتے رہیں اور صبرکئے بیٹھے رہیں حالانکہ یہ صبر نہیں حماقت ہے،صبر نہیں بے وقوفی ہے،صبر نہیں غفلت ہے۔صبر تویہ ہے کہ اﷲ کی اطاعت بجالاؤ،رسول اکرمﷺکی فرماں برداری کرو،حرام چیزوں سے اجتناب کرو،تکلیف برداشت کرو،امت مسلمہ کے وقار کوبحال کرنے کے لیے جی جان سے کوشش کرو،میدا ن تعلیم میں آگے بڑھو،معاشی خوشحالی کے لیے انتھک محنت کرو،ساتھ ہی یقین رکھوکہ مصائب وآلام کابرداشت کرنے والاسات سودرجات کامالک ہوتاہے،جس کافاصلہ تحت الثریٰ سے عرش اعلیٰ کے برابرہے۔معلوم ہواکہ غفلت صبر نہیں بلکہ فرقت ہے اور فرقت میں زحمت ہے اور حرکت میں برکت ہے اور برکت میں رحمت ہے۔اﷲ پاک اسلامی سوچ وفکر کے ساتھ زندگی کی راہوں میں قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675587 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More