جناح کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان

یہ میدان ہے لاہور شہر کے اقبال پارک کا،پنڈال مسلمانان ہند سے بھرا پڑا ہے،سب لوگوں کی نگاہیں اس انتظار میں ہیں کہ کب ہمارا عظیم قائد محمد علی جناح تشریف لائیں گے، مسلمانوں کا جذبہ قابل دید تھا،ہر طرف سے کلمہء طیبہ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں،نعرے لگ رہے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااﷲمحمد رسول اﷲ۔اقبال پارک میں اس دن ایک جم غفیر موجود تھا۔سب کی نگاہیں اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار تھیں ،آج کے دن ایک عظیم اعلان ہونے والا تھا دنیا یہ منظر دیکھ رہی تھی مگر حیران و ششدر تھی کہ ایسا جذبہ شاید ہی کبھی دنیا نے دیکھا ہوگا ،آج کا دن مسلمانان ہند کے لئے بہت اہم دن تھا،آج مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست کے لئے عملی جدوجہد کی خاطراپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے راضی کرنے کا دن تھا ، مسلمانوں میں ایک روح پھوکنے کا دن تھا۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ مسلمانوں نے اتنی قربانیاں کیوں دیں ،کیوں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان،مال،اولاد ،کاروبار یہاں تک کہ اپنا گھر بار سب قربان کردیا،کیوں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان عورتوں کی عزتیں لوٹیں گئیں،معصوم بچوں سے انکے والدین کا سایہء شفقت چھین لیا گیاآخر یہ سب کیوں ؟ جواب صرف اتنا سا ہے کہ وہ مسلمان دنیاوی مقاصد کے حصول کے بجائے اپنی آخرت کو ترجیح دے رہے تھے انکو فکر تھی کہ جو غلامی کا دور انھوں نے دیکھا ہے وہ انکی آنے والی نسلیں نہ دیکھیں،انھیں دنیا سے زیادہ اپنی آخرت کی پروا تھی،وہ ایک الگ ریاست کے حصول کے لئے اپنا تن من دھن سب لٹانے کو تیار تھے وجہ یہی تھی کہ وہ اسلام کے مطابق اپنی زندگی چاہتے تھے،اسلام انکے لئے اپنے مال،جان،عزت و آبرو سب سے زیادہ اہم تھا،متحدہ ہندوستان کی گلیوں اور کوچوں میں صرف کلمۂ طیبہ کے نعرے گونج رہے تھے،مسلمانوں نے ۲۳مارچ 1940کے بعد ایک فیصلہ کرلیا تھا کہ پاکستان سے کم اب کچھ بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا،کیونکہ مسلمان جانتے تھے کہ پاکستان کے حصول کا مطلب انکے اسلام کے ساتھ رشتہ مضبوط کرنے کی ضمانت ہوگا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنے ہر صدارتی خطاب میں پاکستان بنانے کی بنیادی وجہ دین اسلام بتائی ہے،علامہ اقبال ،لیاقت علی خان،سرسید احمد خان،سردار عبدالرب نشتر،مولوی فضل الحق نے بھی دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے پاکستان کے حصول کے لئے عملی جدوجہد کی۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کے دوران فرمایا کہ مجھ سے ایک سوال پوچھا گیا کہ اس نئے ملک پاکستان کا آئین کیسا ہوگا،تو میں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ سوال پوچھا جا رہا ہے،اس ملک کا آئین تو آج سے چودہ سو سال پہلے لکھا جا چکا ہے، جب مدینے میں نبی کریم ﷺنے شریعت نافذکی ،پاکستان کا آئین بھی وہی ہوگا جو قرآن و حدیث میں موجود ہے۔پھر اس ملک کے آئین کو بنانے کے لئے 1948میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس اس وقت کے جید علماء کرام پر مشتمل تھی،جو سفارشات تیار کی گئیں وہ قرارداد مقاصد کے نام سے مشہور ہے،اس قرارداد میں تمام سفارشات اسلامی اصولوں پر مبنی تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعد کے آنے والے حکمرانوں نے ان سفارشات میں اپنی مرضی کی ترامیم ڈال کر اپنے مفادات کو تحفظ دیا۔

دور حاضر میں امریکہ و برطانیہ کا متعارف کروایا گیا کفری نظام جمہوریت کے نام سے دنیا پر راج کر رہا ہے،زیادہ تر مسلم ممالک میں بھی جمہوریت چل رہی ہے،پاکستانی حکمرانوں کو بھی جمہوریت ہی بھاتی ہے کیونکہ جمہوریت کی آڑ میں حکمران ٹولہ اپنی من مانیاں کرتا رہا ہے اور کوئی ان سے پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ۔جمہوریت کے لغوی معنی ہیں اکثریت کی رائے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائیندے کوئی بھی فیصلہ اکثریت کی بناء پر کرتے ہیں،فیصلہ صحیح ہو یا غلط،لیکن اگر اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائیندوں نے اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا تو وہ آئین کا حصہ بن جاتا ہے،یہ جمہوری نظام ان قوموں کے لئے اچھا ہے جو خود کو کسی بھی مذہبی قید میں برداشت نہیں کرسکتی،جو حلال و حرام کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتی، جو انسانوں کے روپ میں حیوانیت چاہتے ہوں، لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر حلال و حرام کی قیود ہیں ، مسلمان ایک اﷲ کا ماننے والا ہے،قرآن و حدیث کے مطابق مسلمان کے لئے زندگی گزارنا لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے، اس میں زندگی گزارنے کے لئے بہترین قوانین موجود ہیں،اگر کوئی جرم کسی سے سرزد ہوجائے تو اسلام میں حدود بھی موجود ہیں،جسمیں ہر جرم کی مناسبت سے سزائیں رکھی گئی ہیں۔اگر اسلام میں جمہوریت کی کوئی بھی گنجائش ہوتی یا اﷲ کے نزدیک جمہوری نظام پسندیدہ ہوتا تو یقیناً ہمیں نبی پاکﷺ کے زریعے معلوم ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ اﷲنے خود قرآن مجید میں فرمایا تھا کہ ـآج میں نے دین مکمل کردیا،اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین پسند کرلیا(سورۂ مائدہ)۔اس آیت قرآنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اﷲ نے شریعت کو ہی رہتی دنیا تک کے لئے بہترین نظام زندگی قرار دے دیا ہے۔

پاکستان میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں ایک وہ جو جمہوری نظام کو پاکستان کی فلاح و بہبود کا زریعہ مانتے ہیں جبکہ ایک گروہ جنہیں لوگ مذہبی قرار دیتے ہیں ،وہ شریعت کو پاکستان کی بقاء کا ضامن مانتے ہیں۔جمہوری نظام کو ماننے والے زیادہ تر امیر طبقہ ہے جو امریکہ اور یورپ کی چکاچوند زندگی کو اپنے لئے آئیڈیل لائف قرار دیتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک اچھی اور خوشحال زندگی بنا کسی قید کے سکون کے ساتھ گزاری جائے،کمائی ڈالرزمیں ہو اور لائف اسٹائل ماڈرن ہو تاکہ لوگ اس دیکھاوے کی زندگی کو دیکھ کر رشک کریں اور اس کے لئے وہ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ و ہ جو کما رہے ہیں وہ حلال کمائی بھی ہے یا نہیں بس ایک جنون سا سوار رہتا ہے کہ ارب پتی سے کم جائیداد نہیں ہونی چایئے۔جبکہ دوسری طرف کا گروہ جو مذہبی مانئڈ کا حامل ہے وہ پاکستان میں شرعی نظام نافذ کرنا چاہتا ہے،اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جب اسکے آباؤاجداد نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں دیں اور وہ قربانیاں صرف اس لئے دیں تاکہ اسلامی طرززندگی کو اختیار کیا جاسکے تو دل یہی کہتا ہے کہ یہ ملک اﷲ نے مسلمانوں کی قربانیوں اور انکی نیتوں کو دیکھ کر نعمت کے طور پر دیا ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ اﷲ کی امانت ہے پاکستان، اور اﷲ کی زمین پر کفری نظام ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا،پاکستان کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہے تو اس ملک میں نظام بھی اﷲ کا ہی ہوگا،ایسے میں مذہبی گروہ دو مزید شاخوں میں بٹ گیا ہے۔ایک وہ جو پرامن جدوجہد کے زریعے ملک میں شریعت نافذکرنے کے خواہاں ہیں اور دوسری قسم کے لوگ کے لوگ مسلح جدوجہد کے حامی ہیں ،مسلح جدوجہد کے حامل لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ کفر نے مسلمانوں کی سوچ پر حملہ کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے اس حد تک نفرت کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے انکی میراث کو ہی چھیننا چاہتے ہیں ،اسی لئے کفر نے مسلمانوں میں اپنا نظام متعارف کروایا ،جو بظاہر تو نہایت ہی دلکش ہے مگر اس سے مسلمان اپنی شناخت کو ہی فراموش کر چکا ہے،آج اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ اسلام میں حلال و حرام چیزیں کون کون سی ہیں تو نہایت شرمناک جواب سننے کو ملیں گے وجہ صاف ہے کہ ہم نے اپنا دین بھلا کر مغربی ثقافت کو اپنا لیا ہے اور شریعت کو چھوڑ کر جمہوریت کو اپنے ملک کا مستقبل سمجھ لیا ہے۔

افغانستان میں تحریک طالبان نے ملک میں شرعی نظام نافذکیا تو دنیا میں ہلچل مچ گئی،اسی لئے حملہ کیا گیا ،آج پاکستان میں بھی درجنوں مذہبی جماعتیں ہیں،جو شریعت کے نفاذکے لیے کوشاں ہیں ، تحریک طالبان پاکستان بظاہر ملک میں شریعت کے نفاذ کی خاطر ہی مسلح جدوجہد کو جاری رکھی ہوئی ہے،اختلافات اپنی جگہ ،طالبان کے را کے ایجنٹ ہونے کا شک اپنی جگہ ،لیکن اگر ہم ایک مسلمان ہو کر اس مطالبۂ نفاذشریعت کو دیکھیں تو جو مطالبہ آج یہ مذہبی فرقہ کر رہا ہے یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔اسی مطالبے پر پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، قائد اعظم نے ہر جگہ پاکستان بنانے کی وجہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو ہی ٹہرایا،مسلمانوں نے اپنا جان،مال،گھر بار،کاروبار سب کچھ صرف اسلامی ملک کے حصول کے لئے ہی قربان کیا جہاں انھیں دین کے احکامات پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہ رہے آزادی کے ساتھ دین کے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوسکے۔لیکن افسوس کے ساتھ آج کے چند مفاد پرست سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھ کر پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے پر تلے ہوئے ہیں،ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہوا ہے،کچھ بھی ہوجائے فوراً بیان آجاتا ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرلی ، ان سیاستدانوں میں سے کچھ اس حد تک کھلے عام کہتے پھر رہے ہیں کہ قائد اعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کا کہا ہی نہیں ،شرعی نظام کے بجائے قائد اعظم نے ہمیشہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا ہے۔یہ کیسی سیاست ہے جو پاکستان سے اسکی میراث کو ہی چیھننا چاہتی ہے،اﷲ نے پاکستان کو اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنادیا ہے اور ایسے میں یہ مفاد پرست ٹولہ اس ملک کی بنیادیں ہی کمزور کر ہا ہے،یہاں کے رہنے والے اسلام سے پیار کرنے والے لوگ ہیں اگر پاکستان کی بنیاد کلمۂ طیبہ نہیں ہے تو کیا، جنگوں میں شہید ہونے والے فوجی اور تحریک پاکستان میں بے دردی سے قتل ہونے والے مجاہدین کی شہادتیں رائیگاں چلی گئیں ؟ کیا ماؤں اور بہنوں کی عزتیں بھی عصبعیت پرلٹیں؟کیا مسلمانان ہند نے لاکھوں قربانیاں پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی خاطر دیں ؟جب اﷲ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے سب سے بہترین نظام شریعت مطہرہ ہی ہے تو ہم ہوتے کون ہیں جو قرآن کے مقابلے میں اپنی مرضی کے قوانین بنائیں؟ مفاد پرست حکمرانوں نے ہمیشہ اپنا مفاد ہی دیکھا ہے تبھی ملک کی بیٹی عافیہ صدیقی کو چھیاسی برس کے لئے امریکی جیل میں سزا سنائی گئی۔اگر آج اس ملک میں شریعت نافذ ہوتی تو کسی بھی کافر کو ہمت نہ ہوتی کہ مسلمان بہن اور بیٹی کو میلی آنکھ سے دیکھ بھی سکتا تھا۔کیونکہ اسے یہ معلوم ہوتا کہ مسلمان ابھی زندہ ہیں جو شرعی حکم کے مطابق کفار کے سامنے موت بن کر کھڑے ہیں ۔بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو پاکستان ہمارے بزرگوں نے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا اور جس پاکستان کی بنیاد کلمہء طیبہ پر رکھی گئی تھی وہ آج کا پاکستان نہیں ہے، اگر ہم مخلص ہوتے تو پاکستان کو اسکی بنیاد پر قائم رکھتے لیکن آج کے نام نہاد پاکستانی سیاستدان اور صحافی جو خود کو سچے پاکستانی گردانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کبھی کلمہ ء طیبہ کہ بنیاد پر رکھا ہی نہیں گیا،قائد اعظم نے کبھی اس ملک کو اسلامی ملک کہا ہی نہیں بلکہ ایک سیکولر ملک بنانا چاہا تھا۔

آج پاکستان میں اگر کوئی مدرسہ جہاد کی تعلیم دیتا ہے جو کہ دین اسلام کا بنیادی فریضہ ہے تو یہ جمہوریت کے چیمپئن لوگ فوراً اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتے ہیں لیکن فحاشی اور عریانی کے اڈوں کے خلاف کبھی کو ئی کچھ نہیں کہتا،اگر ہم مسلمان ہیں تو کیسا اسلام ہے یہ جو ایک مسلمان ملک میں فحاشی کے اڈوں کو تو تحفظ دیتا ہے لیکن اسلام آباد میں اسی مساجد شہید کردی جائیں اس پر یہ کہہ کر بات ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مساجد تجاوزات کے زمرے میں آئی تھیں اس لئے گرانی پڑیں۔آج اس امت محمدیہ کہ ایک بیٹی عافیہ صدیقی کو چند ٹکوں کے بدلے امریکہ کو حوالے کردیا گیا اس پر کچھ نہ کیا گیا لیکن امریکہ ریمنڈ ڈیوس لاہور شہر میں ۲ عورتوں کو بیوہ کرگیا اسے باعزت انداز میں رہائی مل گئی،بھارت میں سالوں سال تک قید رہنے والے پاک فوج کے عظیم سپاہی مقبول حسین پر انسانیت کے برخلاف جانوروں جیسا سلوک کیا گیا جو قیدیوں سے متعلق بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے ،وہ سلوک رواں رکھا گیا لیکن کو ئی کچھ نہ کر سکا جبکہ پاکستان میں چودہ بم دھماکوں میں ملوث سربجیت سنگھ کو سابق صدر آصف علی زرداری ی حکومت معافی دینے پر بھی رضامند ہوگئی تھی ،لیکن وہ کہتے ہیں نہ ہوتا وہی ہے جو اﷲ چاہے گا،سربجیت سنگھ کی موت طے تھی اور وہ بھی پاکستان کے جیل کے اندر ہی،وہی ہوا۔اﷲ بار بار پاکستان کے حکمرانوں کو موقع دے رہا ہے ،لیکن ڈر تو اس بات کا ہے کہ کہیں اﷲ اپنی رسی کو کھینچ ہی نہ لے ۔اب بھی وقت ہے فیصلہ کرنے کا ،کیا ہم بھی انہی مفاد پرستوں کو ترجیح دیں گے یا اپنی عاقبت کو …… فیصلہ آپ کو کرنا ہوگا اس سے قبل کہ دیر ہوجائے کہ اسلام زیادہ عزیز ہے یا پھر کفری نظام جمہوریت۔جو پاکستان آج طالبان مانگ رہے ہیں اگر ہم تاریخ کے اوراق دیکھے تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہے گا کہ قائد اعظم نے بھی وہی پاکستان برطانیہ اور ہندوؤں سے مانگا تھا،تقریباً ۲۲ لاکھ مسلمانوں نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی خاطر ہی اپنی جانوں کے نظرانے دیے تھے۔اب ہماری باری ہے، اس قرض کو ادا کرنے کی جو ہم پر ہے،اور وہ قرض پاکستان میں شریعت کے مکمل نفاذ پر ہی ادا ہوسکے گا،تبھی ہم قیامت کے دن اپنے بزرگوں کے سامنے کھڑے ہو پائیں گے ورنہ اگر ہم نے اپنی بنیاد کو ہی فراموش کردیا تو ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر بنے گی۔

اﷲ سے دعا ہے کہ دین اور دنیا میں مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور ملک پاکستان کو قومیت اور فرقوں کی لعنت سے دور کرکے ایک سچا مسلمان اور پاکستانی بنائے۔آمین

 

Gull Arsh Shahid
About the Author: Gull Arsh Shahid Read More Articles by Gull Arsh Shahid: 16 Articles with 13077 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.