اساتذۂ کرام کی شہادت

 مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

جامعہ فاروقیہ کی درس گاہ سابعہ میں محوِ خواب ان پانچوں مظلوم و معصوم شہداء کرام کے ہونٹوں پر اتنی عجیب قسم کی لطیف مسکراہٹ ہے، جیسے کہ اب سے کچھ ہی دیر بعد ان کو اپنے اعزاز میں دی گئی کسی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ اصحاب کہف کے حوالے سے کلام پاک میں اﷲ جل شانہ کا ارشاد ہے: ﴿وتحسبھم أیقَاظاً وھم رقود﴾ ’’اور تو سمجھے کہ وہ جاگتے ہیں اور وہ سورہے ہیں‘‘۔ اور ﴿لو اطلعت علیھم لو لیت منھم فراراً ولملئت منھم رعبا﴾ ’’اگر تو جھانک کردیکھے ان کو تو پیٹھ دے کر بھاگے ان سے اور بھر جائے تجھ میں ان کی دہشت‘‘۔ بالکل ٹھیک اسی طرح کا سماں یہاں بھی ہے۔
ہو اگر خود نگر ، و خود گر ، و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

شہداء عظام کی اس قطار مبارک میں دروازے سے استاذ کی مسند کی طرف یہ حضرات بترتیبِ ذیل آرام فرماہیں: ڈرائیور جناب عبدالحمید صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا عنایت اﷲ خان صاحب، مفتی جامعہ حضرت مولانا مفتی محمد اقبال صاحب، استاذ حدیث حضرت مولانا حمید الرحمن صاحب اور محترم متعلمِ جامعہ طلحہ بن مفتی اقبال صاحب رحمہم اﷲ تعالیٰ۔

ان حضرات کی اس کیفیت سے چند ہی لمحے قبل تقریباً سات بج کر پچاس منٹ پر راقم الحروف گھر سے آکر جامعہ کے گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ دورۂ حدیث کے ایک طالب علم نے نہایت ہی بے تابانہ انداز میں مجھے دیکھ کر موٹر سائیکل کا اتنازور دار بریک لگایا کہ اس کی چرچراہٹ آس پاس تک ضرور سنی گئی ہوگی۔ اور پھر بولا: ’’استاذ جی! جامعہ کی گاڑی پر فائرنگ ہوگئی اور تمام اساتذہ اس میں شہید ہوگئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا: ’’کہاں؟‘‘
اس طالب علم نے کہا: ’’ناتھا خان کی چھوٹی پلیا کے نیچے!‘‘

اس مختصر سے مکالمے کے ساتھ ہی میں نے یوں محسوس کیا جیسے میری رگوں میں خون خشک ہوگیا ہو، لیکن میں نے بسم اﷲ پڑھ کر ذرا سانس لیا اور پھر فوری طور پر حضرت مولانا عبیداﷲ خالد دامت برکاتہم کو اطلاع دی۔ حضرت نے بے تابانہ فرمایا کہ میں فوراً گاڑی لے کر باہر آرہا ہوں، چلیں فوراً جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں۔ اتنے میں جامعہ کے طلبہ کرام کے علاوہ حضرت شیخ الجامعہ مدظلہم کو بھی اطلاع ہوگئی جس پر حضرت مشکوۃ شریف کا سبق چھوڑ کر دفتر اہتمام میں تشریف لائے، ادھر ہم جیسے ہی جامعہ کی وین (گاڑی) کے پاس پہنچے، وہاں فائرنگ کی یہ منحوس آواز سن کر ارد گرد کے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں سے بعض نے ہماری طرف بڑھ کر کہا کہ وین خالی ہے، اس میں سے لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ لیکن جب میں نے آگے بڑھ کر گاڑی میں جھانک کردیکھا تو پتا چلا کہ لاشیں اس میں تڑپ تڑپ کر کچھ سیٹوں پر اور کچھ سیٹوں کے مابین فرش پر خلعت شہادت پہننے پر پُرسکون ہوچکی ہیں۔ میں نے مڑ کر حضرت سے عرض کیا : حضرت لاشیں تو سب گاڑی میں موجود ہیں۔ حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے ایک لمحے کے لئے اس الم ناک منظر کا جائزہ لیا اور پھر فوری حکم دیا کہ لاشیں نکال کر ایدھی کی جائے حادثہ پر پہنچی ہوئی ایمبولینسوں میں رکھ کر جامعہ لے جائی جائیں۔ میں نے گاڑی کے ٹوٹے ہوئے متاثرہ گیٹ میں سے حضرت مولانا حمیدالرحمن صاحب کی میت استاذ جامعہ مولانا محمد امین صاحب کے ساتھ مل کر اٹھائی اور دھڑ طلبہ کے ہاتھوں میں تھما کر خود بری طرح متاثر سرِ مبارک نہایت احتیاط کے ساتھ پکڑ کر ایمبولینس تک پہنچا دیا۔ اور پھر طلبہ کی مدد سے حضرت مفتی محمد اقبال صاحب کے جسد مبارک کو اسی طرح اٹھا کر ایمبولینس تک پہنچایا۔ پھر میں نے طلحہ کو چھوٹے بچوں کی طرح ہاتھوں میں اٹھا کر ایمبولینس میں رکھا۔ اتنے میں مولانا محمد امین صاحب اور طلبہ نے حضرت شیخ الحدیث مولانا عنایت اﷲ صاحب اور ڈرائیور عبدالحمید صاحب (جو آپس میں اس طرح جھکے ہوئے تھے جیسے کہ سرگوشیاں فرمارہے ہوں) میں سے حضرت کو گاڑی سے نکال کر ہماری طرف بڑھایا ، جن کو لے جاکر ہم نے ایمبولینس میں رکھا۔

ایمبولینس کی گاڑیاں صرف دو ہی فوری طور پر مہیا تھیں، اس لئے دو دو ساتھیوں کو ایک ایک ایمبولینس میں رکھا گیا اور یہ دونوں گاڑیاں حضرت استاذ مکرم مولانا عبیداﷲ خالد صاحب زیدمجدہم کی نگرانی میں جامعہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ اب رہے جناب ڈرائیور عبدالحمید صاحب تو انہیں نکال کر تھوڑی دیر کے لئے چادر کے اوپر روڈ پر رکھا گیا، اتنے میں ایک عام سوزوکی آئی۔ اس کے ڈرائیور سے میں نے میت لے جانے کی درخواست کی۔ الحمدﷲ، انہوں نے فوراً حامی بھرلی اور ڈرائیور عبدالحمید صاحب یوں جامعہ کی طرف لے جائے گئے۔ جامعہ کی متاثرہ گاڑی کو ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب نے اپنی جیپ کے ساتھ باندھ کر جامعہ پہنچا دیا۔

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ مذکورہ گاڑی میں ان شہدائے عظام کے علاوہ اور بھی چار افراد تھے، جنہیں اﷲ جل شانہ نے مزید اس فانی دنیا میں کچھ وقت کے لئے زندہ رکھنا تھا، یہ حضرات شدید زخمی ہوئے۔ ان میں سے ایک استاذ جامعہ حضرت مولانا عبدالستار صاحب تھے، جن کے پیٹ میں کئی گولیاں پیوست ہوئی تھیں، لیکن اب الحمدﷲ روبہ صحت ہیں اور دو چار روز میں ہسپتال سے آجائیں گے۔ ان شاء اﷲ۔ دوسرے جامعہ کے گارڈ جناب محمد رمضان صاحب تھے، جنہیں کچھ گولیاں ہاتھوں میں اور کچھ دونوں ٹانگوں میں لگیں۔ ایسے موقع پر جہاں آدمی حواس باختہ ہوجاتا ہے اور اوسان خطا ہوجاتے ہیں، انہوں نے ماشاء اﷲ جوابی فائرنگ کی، مگر دہشت گرد نہایت منظم اور منصوبہ بند انداز میں حملہ آور ہوئے تھے اور پھر آگے اور پیچھے دونوں طرف تھے، اس لئے بدقسمتی سے ان کی جوابی فائرنگ کارگر ثابت نہ ہوسکی۔ بہرحال اب یہ روبہ صحت ہورہے ہیں اور کچھ دنوں میں ہسپتال سے گھر منتقل ہوجائیں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔ تیسرے ان میں ڈرائیور عبدالحمید خان صاحب کا معصوم بھانجا متعلم بلال تھا، جو محض تفریح کے لئے اس دن گاڑی میں سوار ہوگیا تھا۔ اس کو بھی دو گولیاں کندھے میں لگیں، دونوں گوشت میں پیوست ہوئیں۔ ہڈیاں بچ گئیں۔ یہ ہسپتال سے گھر منتقل ہوگیا ہے اور تقریباً صحت یاب ہے۔ چوتھے محمد یاسر بن مفتی اقبال صاحب تھے ، ان کو دونوں پیروں میں زخم آئے تھے، جو معمولی نوعیت کے تھے۔ اسی دن ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے تھے۔ اس طرح اس حادثے کے شکار یہ کل نو افراد تھے۔

یہاں تک تو تھی گفتگو حادثے کے حوالے سے ، ادھر جب یہ واقعہ ہوا تو پورے کراچی شہر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اب جامعہ کے منتظمین، شہر کے علماء کرام اور متعلقین کو اس واقعے کی تفصیلات فون پر فون کرکے بتاتے رہے۔ دوسری طرف شہر اورچند لمحوں میں ملک اور بیرون ملک سے کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے شاہ فیصل کالونی کی طرف عوام وخواص، طلبہ و اساتذہ کے اعزہ ومتعلقین اور جامعہ کے معاونین ومتعلقین کا ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر امڈ آیا۔ جامعہ کے اندر تل دھرنے کی جگہ معدوم اور جامعہ کے باہر دور دور تک گاڑیوں کی قطار اندر قطار۔ ہر آنکھ اشک بار اور ہر قلب مضطرب، یوں محسوس ہورہا تھا کہ آسمان وزمین اور خاص کر جامعہ کے درودیوار زاروقطار نوحہ کناں ہیں۔
جان کر من جملہ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

جامعہ کے لاؤڈ اسپیکروں سے حضرت شیخ الجامعہ مدظلہم بنفس نفیس طلبہ کرام کو صبر و تحمل کی تلقین فرمارہے تھے۔ اساتذہ کرام طلبہ کو نرمی وسختی دونوں سے حضرت کے بیان کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔

استاذ مکرم حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے مجھے بلایا، جہاں حضرت مولانا افشانی صاحب بھی موجود تھے اور مشورہ ہوا کہ سابعہ کی درس گاہ میں ان شہدائے کرام کے اجساد مبارکہ کو فی الحال سلیقے سے رکھ دیا جائے۔ جامعہ کے ایک مخلص جناب عزیز اﷲ صاحب (جنہوں نے بروقت ایدھی ایمبولینس منگائی تھی اور جائے حادثہ پر پیش پیش رہے) سے میں نے عرض کیا کہ فوری طور پر پانچ سفید چادریں اور کچھ خوشبو کا انتظام فرمائیں ، تاکہ ماحول معطر رہے، لیکن چادریں بعد میں جامعہ کے دفتر سے مہیا ہوگئیں۔

مختصر یہ کہ تقریباً دس ، ساڑھے دس بجے کا وقت تھا کہ لوگوں کی بے چینی کے پیش نظر شہدائے کرام کے دیدارِ عام کے لئے جلدی جلدی انتظامات کئے گئے، میں دوڑ کر اپنے کمرے میں گیا تاکہ خون میں لت پت اپنے لباس کو تبدیل کرلوں کہ اتنے میں فائرنگ کی تڑتڑاہٹ کی آوازیں آئیں اور ایک مرتبہ پھر فرزندانِ جامعہ پر بدبختوں نے اطراف سے مورچہ بند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم سے کم پانچ افراد کچھ طلبہ اور کچھ آنے والے مہمان شدید زخمی ہوئے۔ اس سانحے کے بقیہ چار افراد بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ الحمدﷲ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ عین موقع پر پولیس اور رینجرز والے سب کے سب بجائے حالات کو کنٹرول کرنے کے، پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے، اس افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں کم بخت شرپسندوں نے ہمارے معزز اور غم زدہ مہمانوں کی گاڑیاں نذر آتش کرنا شروع کردیں۔ ادھر جامعہ سے شہداء کرام کی دو بجے دوپہر نماز جنازہ کااعلان بھی ہوتا رہا۔ حضرت مفتی نظام الدین شامزئی صاحب لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے صبر و تحمل کی اپیلیں بھی کرتے رہے، ادھر شرپسند عناصر نہتے اور معصوم طلبہ اور مہمانوں کے جان و مال سے کھیل رہے تھے۔ ﴿بلغت القلوب الحناجر وتظنون باﷲ الظنون﴾ اور ﴿وتری الناس سکاری وماھم بسکاری﴾ والی کیفیت طاری تھی۔

حضرت شیخ الجامعہ، اساتذہ، مہمان اور متعلقین مسلسل سول انتظامیہ اور فوجی ذمے داروں سے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک رابطوں پر رابطے کرتے رہے، مگر بارہ ایک بجے تک کوئی شنوائی ندارد۔

ادھر استاذ مکرم حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے جناح ہسپتال سے میڈیکل رپورٹ کے لئے ایک میڈیکل ٹیم کو جامعہ مدعو کیا تھا۔ انہوں نے آکر جامعہ ہی میں میڈیکل چیک اپ کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی۔

بہرحال شہدائے کرام کے قریبی متعلقین کے شدید اصرار اور مقامی حالات کی ابتری کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جنازے جامعہ کے عقبی چھوٹے گیٹ سے ایک ایک کرکے ان کے رشتے داروں کے حوالے کئے جائیں تاکہ مزید خون خرابہ نہ ہو، دو بجے کے بعد جنازے یکے بعد دیگرے نکالے گئے، تو باہر مشتعل ہجوم نے ان میں سے ایک دو ایمبولینسوں کو شارع فیصل پر روک کر پانچ بجے تک دھرنا دیا، جس کی وجہ سے صدر مملکت جو اس دن کراچی آئے ہوئے تھے، اپنا روٹ تبدیل کرکے صفورا گوٹھ سے ہوتے ہوئے گلستان جوہر کے راستے سے نکلے۔ یہ سب کچھ انتظامیہ کی بدانتظامی اور نالائقی کی وجہ سے ہوا۔ یوں لگ رہا تھا کہ انتظامیہ خود چاہتی ہے کہ مزید خون خرابا ہو۔

القصہ، مغرب کے بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا عنایت اﷲ خان صاحب اور استاذ حدیث مولانا حمید الرحمن صاحب کا مشترکہ جنازہ دھوراجی میں پڑھ کر ڈالمیا کے قبرستان لے جایا گیا، جب کہ عصر کے بعد حضرت مفتی اقبال اور طلحہ مفتی اقبال صاحب کی نماز جنازہ محمود آباد میں ہوئی، جو محمود آباد قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ڈرائیور عبدالحمید خان صاحب کا تابوت صوابی لے جایاگیا جہاں ان کی دوسرے روز تدفین ہوئی۔
خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را

جنازوں سے واپس آنے والے افسردہ و غمگین مختلف مدارس کے طلبہ واساتذہ اور عامۃ المسلمین کے ساتھ انتظامیہ نے ایک اور بے رحمانہ سلوک یہ بھی کیا کہ انہیں پکڑ پکڑ کر تھانوں میں بند کردیا، جن کی رہائی کے لئے علمائے شہر کو ایک باقاعدہ کمیٹی تشکیل دینی پڑی۔

ہماری حکومت اور انتظامیہ کے لئے اس سے بڑھ کر ڈوب مرنے کا مقام کیاہوگا کہ مظلوم پر ظلم کی مشقیں جاری ہیں اور انتظامیہ اس کے زخموں پر نمک پاشی کررہی ہے۔ فإلی اﷲ المشتکی․

واقعے کے وقت سے تادم تحریر مسلسل تعزیت کرنے والے ملک اور بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کی آمد جاری تھی اورہے، اس لئے اس دن یعنی 28جنوری کو حضرت شیخ الجامعہ اور اساتذۂ جامعہ کو اس حوالے سے اپنے دکھ درد بانٹنے کا موقع نہ مل سکا، البتہ دوسرے دن مغرب کے بعد حضرت مدظلہم نے اساتذۂ جامعہ کا ایک ہنگامی اجلاس دفتر میں بلایا، جس میں حضرت ہی نے تھرتھراتی آواز میں سنبھل سنبھل کر ان شہدائے کرام کو وفاداری، جامعیت علم، استقلال واستقامت اور خلعتِ شہادت پر خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے لئے اور ان کے پس ماندگان اور جامعہ اور جامعہ طلبہ کے لئے دعائیں فرمائیں۔ نیز اس اجلاس میں کیس کے حوالے سے جب گفتگو ہوئی تو طے ہوا کہ کل یعنی 30جنوری کو کراچی کے خواص کا ایک اہم اجلاس بلایا جائے۔ چنانچہ جن حضرات کو دعوت دی گئی، ان میں سرفہرست حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، حضرت مفتی نظام الدین شامزئی صاحب، حضرت مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب، حضرت مولانا اسفند یار خان صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم صاحب، حضرت مولانا زرولی خان صاحب، حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب، حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب، حضرت قاری شیر افضل خان صاحب، مولانا عبدالکریم عابد صاحب، مولانا محمد احمد مدنی صاحب وغیرہ تھے۔ ان حضرات نے کافی غور و خوض کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں مندرجہ ذیل حضرات کا نام آیا:
۱- حضرت شیخ الجامعہ، ۲-حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب، ۳-حضرت مولانا عبدالرزاق اسکندر صاحب، ۴-حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، ۵-حضرت مولانا اسفند یار خان صاحب، ۶-حضرت مولانا زرولی خان صاحب۔

چنانچہ ان حضراتِ گرامی کا مسلسل باہمی رابطہ ہے اور یہ حضرات اب اس کیس کو لے کر اعلیٰ سول و فوجی حکام سے ملاقاتیں کررہے ہیں، اس لئے اگر یوں کہا جائے کہ اب تک کیس جس پوزیشن میں ہے، وہ حوصلہ افزا ہے تو یہ بات زیادہ بعید از قیاس نہ ہوگی۔

اس کے علاوہ اس ہنگامی اور اندوہ ناک صورتِ حال کے دوران حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب سفر پر تھے، جن کی عدم موجودگی شدت سے محسوس کی جارہی تھی، 5فروری کو تشریف لاچکے ہیں۔

دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ شہداء کو اجر عظیم سے نوازے، اعلیٰ مراتب پر فائز کرے، لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے اور ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچائے۔ آمین۔
(الفاروق اردو، ذوالحجہ، ۱۴۲۱ھ)

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 821048 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More