بھارتی انتہا پسند ہندو بھی دنیا کے لئے خطرہ ہیں

بھارتی ریاست مہاراشٹر میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمان جوڑے کو زندہ جلا دیا
امریکا بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں اسرائیل کے یہودی انتہاپسندوں کے ٹھکانوں پر بھی ڈرون حملے کرے

آج مسلم امہ کا امریکا اور بھارت سمیت دیگر ممالک سے یہ سوال ہے کہ کیا دنیا میں دہشت گرد صرف مسلمان ہیں؟ اور کیا مسلمان ہی ساری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں؟ اور کیا دیگر ادیان عالم کے پیروکار امن پسند ہیں؟ ان میں کوئی دہشت گرد نہیں؟ جن کے خلاف دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والا امریکا کوئی قدم نہیں اٹھا رہا ہے؟ نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ دنیا کے دوسرے مذاہب کے یہاں دہشت گرد یا دہشت گردی کا عنصر نہ ہو؟ ان کے یہاں سب سے زیادہ دہشت گردی کا عنصر غالب ہے مگر آج ان سب نے دین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت منفی پروپیگنڈہ شروع کر کے امت مسلمہ کا امیج خراب کرنے کے لئے اسے دہشت گرد بنا کر پیش کردیا ہے اور اس طرح مسلم امہ کے لئے ایک سازش کے تحت اس کی ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے ختم اور بند کئے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بھی مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کو 9/11کے بعد دہشت گردی کی ایک نئی صورت حال سے دوچار کرنے والے امریکا کو دہشت گردی کے خلاف جاری اپنی اس جنگ میں کیا اب بھارتی ریاست مہاراشٹر میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمان جوڑے کو زندہ جلائے جانے کا المناک واقعہ نظر نہیں آرہا ہے؟ ایک خبر کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر میں گزشتہ دنوں شروع ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران انتہا پسند ہندو کرفیو کی پابندیاں توڑ کر مسلمان بستیوں میں پہنچ گئے اور چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور ان کی املاک کو تباہ کیا اور نہ صرف یہ بلکہ مساجد کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور ان فسادات کے دوران پوسد سے 7 کلو میٹر دور واقع چلواڑی گاؤں میں سب سے زیادہ جو المناک سانحہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ ان انتہا پسند ہندوؤں نے ایک مسلمان جوڑے جس کی شناخت ضمیر خان نواب عمر60 سال اور رضیہ بی بی نواب خان عمر 50 سال تھی اسے زندہ جلادیا مگر انڈین پولیس نے دانستہ طور پر انتہا پسند ہندوؤں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس واقعہ کو آتشزدگی کا ایک عام سا واقعہ بنا کر پیش کیا اس واقعہ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اور بھارت کو اب (خود)بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمان جوڑے کو زندہ جلائے جانے کا یہ گھناؤنا عمل نظر نہیں آرہا ہے؟ دہشت گردی کے خاتمے کا بننے والا ٹھیکدار امریکا اور (اسرائیل کی طرح ) اس کا نیا بغل بچہ بھارت کیا اپنے یہاں انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف بھی سخت ترین اقدامات کریں گے؟ اور کیا امریکا بھارت میں موجود انتہا پسند ہندوؤں کے ٹھکانوں کے خلاف بھی ڈرون حملے کرے گا؟ کیوں کہ یہ انتہا پسند ہندو بھی دنیا کے لئے خطرہ ہیں اور ان بھارتی انتہا پسند ہندوؤں کو اگر ابھی سے امریکا نے لگام نہ دی تو ممکن ہے کہ یہ انتہا پسند ہندو بھی امریکا کے لئے مشکلات پیدا کر دیں اور جو آنے والے دنوں میں امریکا کے لئے شدید درد سر کا باعث ہوں۔

جبکہ ادھر نئے امریکی صدر بارک اوباما نے یورپ کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر انقرہ میں ترک پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مسلم دنیا میں امریکا کے خلاف پیدا ہونے والے اس تاثر کو ختم کرنے کی سعی کی ہے کہ” ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں اور ہم نے عالم اسلام سے کبھی بھی جنگ نہیں کی ہے؟ اور نہ کبھی کریں گے؟ ہم اسلام کا احترام کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم القاعدہ کے پاکستان اور افغانستان میں مضبوط ٹھکانے بنانے کے خلاف ہیں اور امریکا نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنی پوری قوت کا مظاہر کریں گے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اور افغانستان کی اضافی امداد بھی کر رہے ہیں“اگرچہ امت مسلمہ کے نزدیک ان کی یہ کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی اس پر اب بھی مسلم امہ یہ ہی سمجھتی ہے کہ امریکا کی اصل جنگ دہشت گردی کی آڑ میں عالم اسلام سے ہے اور امریکا کی نظر میں نائن الیون کے ذمہ دار صرف مسلمان ہیں حالانکہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق 9/11 کے اس المناک سانحہ میں کوئی مسلمان ملوث نہیں تھا اور جبکہ اس وقت مختلف زاویوں سے دبی دبی اکا دکا آوازیں یہ بھی اٹھیں تھیں کہ اس واقعہ میں اسرائیلی ملوث ہیں مگر اس وقت کے امریکی صدر اور اس کی انتظامیہ میں شامل یہودیوں(اسرائیلیوں) نے ان آوازوں کو دبا دیا تھا اور اس واقعہ کا سارا رخ مسلمانوں کی طرف کر کے اس سارے عمل سے باآسانی کنی کٹا کر خود تو نکل گئے اور امریکا کو اپنی شاطرانہ چالوں سے مسلم امہ کا دشمن بنا گئے اور تب سے امریکا مسلمانوں سے اپنے انتقام کی آگ میں اندھا ہوگیا ہے اور اس کا سارا اثر پہلے افغانستان پر اترا اور اب آہستہ آہستہ اس کی جنونی کیفیت کا رخ پاکستان کی جانب مڑ رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں جب افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈر جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن پاکستان آئے توامریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور سول سوسائٹی کے وفد سمیت صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی اس دوران صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان پر ڈرون حملے بند کئے جائیں اور امریکا پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مالی وسائل فراہم اور عالمی برادری دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی مدد کرے “جبکہ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے صدر کی اس درخواست کے جواب میں دو ٹوک الفاظ میں امریکی مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ”ڈرون حملے جاری رہیں گے “اس موقع پر امریکی چیفس نے محض اپنے شک کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس لئے کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے اہم رہنما پاکستان میں ہیں جو بلوچستان کے کسی حصے میں روپوش ہوسکتے ہیں؟ اور اس لحاظ سے امریکا کے لئے پاکستان افغانستان سے زیادہ اہم ہے اس خدشہ کے پیش نظر امریکا کا یہ مصصم ارادہ ہے کہ اس خطے سے دہشت گردی کے خاتمے تک ہم اس خطے کو نہیںچھوڑ سکتے اسی طرح اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں امریکا سے بہت سی غلطیاں ہوئیں ہیں میرے خیال سے اگر امریکی چیفس اس موقع پر ان غلطیوں کی بھی نشاندہی کر دیتا کہ اس سے کیا غلطیاں ہوئیں ہیں تو اچھا ہوتا اگرچہ اس نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ بیت اللہ محسود امریکا کے لئے بڑا خطرہ ہے اس کا تعاقب کریں گے اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کرے“ جبکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سربراہ آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل شجاع پاشا نے امریکی حکام افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکا کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈر جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن سے ملنے سے انکار کر دیا تھا جن کی ملاقات دوسرے روز ہونے والی تھی جس سے پاکستان کا مورال بلند ہوا ہے اسی طرح قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے بھی کہا ہے کہ امریکا کو ملکی سلامتی پر کاری ضرب لگانے کی چھوٹ نہیں دے سکتے ہالبروک کو یہ پیغام ہے کہ وہ پاکستان پر ڈرون حملے رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور ہم اپنے ملک پاکستان کی خودمختاری پامال نہیں ہونے دیں گے اور ڈرون حملے دہشت گردوں کے خلاف کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے علاقوں پر اب تک ہونے والے ڈرون حملوں کا زیادہ فائدہ دہشت گرد عناصر کو ہی ہورہا ہے مگر سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ بات ایک عام آدمی بھی سمجھ رہا ہے تو امریکا کیوں یہ بات نہیں سمجھ رہا ہے کہ اسے ڈرون حملے فی الفور بند کر دینے چاہئیں اور اسے اب پاکستان کے نئے علاقوں پر محض دہشت گردوں کی موجودگی کا شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے حملوں کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے۔

اور میں ایک بار پھر آخر میں اپنا یہ سوال نئے امریکی صدر بارک اوباما اور ان کی نئی انتظامیہ سے کرنا چاہوں گا کہ کیا وہ بھارتی انتہاپسند ہندوؤں کے قلع قمع کے لئے بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کریں گے؟ اس لئے کہ یہ انتہا پسند ہندو کئی صدیوں سے اپنے یہاں بھارت میں آباد مسلمانوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کسی نے بھی اب تک ان متاثر مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی مگر اب جبکہ امریکا نے دنیا کو ہر قسم کی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے گروہوں سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے تو پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا آج یہ مطالبہ ہے کہ امریکا فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی انتہا پسند یہودی دہشت گردوں اور بھارتی مسلمانوں کو بھارتی انتہاپسند ہندوؤں سے بھی نجات دلوانے کے لئے اسرائیل اور بھارت میں ڈرون حملے شروع کرے۔

جس سے امریکی صدر بارک اوباما کا یہ مؤقف مسلم امہ پر واضح ہوجائے گا کہ امریکا اسلام کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے تو پھر اب امریکا کو اس لحاظ سے اسرائیل اور بھارت کے انتہا پسندوں کے خلاف بھی ڈرون حملے کرنے ضروری ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.