پیاس بجھانے کا مجرب نسخہ

میرا ایک دور۔۔۔۔ کا دوست حکیم ہے۔ دور کا اس لیے کہ اُسے ملنے کے لیے بہت دور ۔۔۔۔تک جانا پڑتا ہے۔ جب بھی میری اُس سے ملاقات ہوتی ہے ۔ بہت مزہ آتا ہے۔میں اُس سے باتوں باتوں میں بہت سارے نسخے پوچھ لیتا ہوں۔اور وہ نسخے کوئی معمولی نہیں ہوتے۔بہت ہی فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نایاب بھی ہوتے ہیں۔میرا دوست بتاتا ہے کہ سارے نسخے اُسے وراثت میں ملے ہیں۔اُس کے دادا بھی حکیم تھے۔ اُس کے بعد یہ ہنر اُس کے باپ سے ہوتا ہوا اُس تک پہنچا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اُس کے باپ نے حکمت میں نہ صرف نام کمایا ہے بلکہ بہت سارا روپیہ پیسہ بھی۔یہ ساری جائیداد اُنہوں نے اسی روپے پیسے سے ہی بنائی تھی۔میرے دوست کے تین بھائی ہیں۔ اور وہ سب کے سب ماشاء اﷲ صاحب حیثیت ہیں۔ لیکن میرا دوست اُن کے مقابلے میں ذرا کم حیثیت کا مالک ہے۔ بلکہ بہت ہی کم حیثیت کا مالک بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب میں نے اُس سے اس راز کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا کہ میرے باپ نے مرنے سے پہلے جب اثاثوں کی تقسیم کی تو میں نے جائیداد کے مقابلے میں حکمت کو ترجیح دی۔اور یوں میرے حصے میں وہ تمام یونانی، لبنانی، ایرانی،جاپانی اور پاکستانی نسخے آئے جو اس جائیداد سے کہیں زیادہ قیمتی تھے۔گویا میں نے سونے کے مقابلے میں ہیرے جواہرات کی کان کا انتخاب کیا۔

میرے دوست نے خدمت خلق کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ ہر بیماری کا مفت علاج کرتا ہے۔ کبھی مریض سے اپنے منہ سے فیس طلب نہیں کی۔ وہ اس لیے کہ جس سے بھی فیس کا مطالبہ کیا ہے وہ دوبارہ مطب کے سامنے سے بھی نہیں گزرا ۔اُس کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی مرض اُس کے ہاتھ سے بچ نہیں سکا۔ میں اس بات کی تصدیق کر چکا ہوں کہ اُس نے مرض کہا تھا یا مریض۔۔۔!!! میرا دوست بڑا سمجھ دار ہے اس لیے بہت سوچ کر دواء دیتا ہے۔ مریض کی نبض دیکھنے کے بعد وہ دیر تک سوچتا ہی رہتا ہے۔ یہ سوچ دس سے پندرہ منٹ تک بھی طویل ہو سکتی ہے۔ پھر وہ اپنے سامنے رکھی ہوئی لکڑی کی صندوقچی میں سے ایک پڑیا نکال کرمریض کو دے دیتا ہے۔ یہ صندوکچی وضع قطع کے لحاظ سے اُس کے دادا کے زمانے سے بھی پرانی لگتی ہے۔ مریض کو دواء دینے کے بعد وہ اُس کے چہرے کے تاثرات ، ہاتھوں کی جنبش اور جیب کی طرف بھی دیکھتا ہے۔ ۔۔ مریض کے اُٹھنے کے ساتھ وہ بھی اپنی گدی سے اُٹھتا ہے اور اُسے باہر تک چھوڑنے کے لیے بھی جاتا ہے۔اُس کا یہی اخلاق مریضوں کو بار بار اُس کے پاس آنے پر مجبو ر کرتا ہے۔

آج جب میں اُس کے پاس پہنچا تو وہاں کوئی بھی مریض موجود نہیں تھا۔ وہ اکیلا بیٹھا اخبار میں مختلف حکیموں کے اشتہارات پڑھنے میں مصروف تھا۔اُس کے اپنے مطب کے اشتہار بھی ملک کے بے شمار اخبارات میں چھپتے ہیں۔فرق یہ ہے کہ وہ اخبار صرف وہی پڑھتے ہیں جنہوں نے اپنا کوئی اشتہار دیا ہو۔ یا پھر وہ جن کو زبردستی کوئی تھما جائے۔اُس کے پاس بھی کوئی ایسا ہی اخبار تھا۔مجھے دیکھ کر حسب معمول بہت خوش ہوا اور فوراً سامنے والے ہوٹل پر چائے کا آرڈر دیا۔چائے اور ادھر اُدھر کی باتوں سے فارغ ہو کر میں نے اُسے اپنا ایک مسئلہ بتایا۔میرا مسئلہ یہ تھا کہ مجھے پیاس لگتی ہے۔میرا مسئلہ سن کر وہ حسب عادت سوچ میں ڈوبا اور کچھ دیر کے بعد بڑے رازدانہ انداز میں بولا۔ "میرے پاس اس مرض کا ایک نسخہ ہے۔ بہت ہی اعلیٰ اورمجرب۔۔۔وہ نسخہ مجھے اپنے باپ کی طرف سے ہی ملا ہے۔ اور میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ یہ نسخہ انہوں نے اپنے والد گرامی سے حاصل کیا تھا۔ یعنی میرے دادا حضور سے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ میرے دادا حضور نے یہ نسخہ اپنے اُستاد محترم کی بہت ہی قیمتی نسخوں والی کتاب سے چرایا تھا۔اُنہیں یہ نسخہ چرانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اُن کے اُستاد اپنے بہت سے قیمتی نسخے اپنے شاگردوں کو ایک ایک کر کے اور سالہا سال کی محنت اور خدمت کے بعد بتایا کرتے تھے۔ دادا حضور کے اپنے اُستاد کے ساتھ کسی اہم مسئلے پر اختلا فات تھے۔ اور یہی اختلافات بعد میں عداوت میں بدل گئے ۔اور اسی عداوت نے اُنہیں بغاوات پر مجبور کر دیا۔اور یوں انہوں نے ایک دن موقع پا کر اپنے اُستاد محترم کی کتاب میں سے چند قیمتی نسخے نقل کئے اور راتو رات وہاں سے فرار ہو کر اپنے آبائی گاؤں تشریف لے آئے۔

گاؤں والوں کو جب میرے دادا جان کے ہاتھوں ہونے والی شفا کا علم ہوا تو وہ اُن کے مریض ہی نہیں بلکہ مرید ہو کر رہ گئے تھے۔ ہربیماری کا علاج مرتے دم تک کرواتے رہتے۔میرے والد صاحب کو بھی اپنے والد گرامی کی دیکھا دیکھی حکمت سیکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ انہوں نے پانچویں جماعت سے فیل ہو جانے کے بعد مکمل طور پر اس پیشے کواختیار کر لیا۔اُن کے بہت چرچے تھے۔ دور دور سے لو گ علاج کروانے آتے۔میرے داداجان کے دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد اس مقدس فریضے کی ذمہ داری مکمل طور پر میرے والد محترم کے کاندھوں پر آ گئی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اُنہیں میری خدمات کی اشد ضرورت ہے۔میرے دوسرے بھائی تو اپنی اپنی تعلیم میں مگن رہے۔ لیکن میں نے قربانی دینے کی ٹھان لی تھی۔ اس لیے میں نے ساتویں کلاس کے امتحانات سے پہلے ہی خود کو سکول جانے کی مشقت سے آزاد کیا۔ اور اپنے والد صاحب کے ساتھ اُن کا معاون بن کرفریضہ حکمت سر انجام دینے لگا۔میں نے نہ صرف اپنے والد امحترم سے فیض پایا ہے بلکہ اپنے تجربات سے بھی اپنے علم ، ہنر کی معراج پائی ہے۔زمانہ قدیم میں تو حکمت عروج پرتھی۔ لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے۔ حکمت تو دفن ہی ہوتی جارہی ہے۔اب تمہارے جیسے قدردان اس دنیا میں بہت ہی کم لوگ ہیں جو حکمت کے علاج پر یقین رکھتے ہیں۔اگر تمہیں حکمت پر یقین نہ ہوتا تو بھلا پیاس لگنے کا مسئلہ لے کر میرے پاس آتا۔۔۔" میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اُسے اپنی پیاس لگنے والی بیماری کی طرف دوبارہ توجہ دلائی۔

میرا مسئلہ اُس کے لیے کوئی بہت بڑا نہیں تھا ۔ لیکن پھر بھی وہ ہر علاج سوچ سمجھ کر بلکہ سوچ سوچ کرنے کا قائل ہے۔اسی لیے اُس نے ایک دفعہ پھر سے سوچا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک صاف کاغذ لیا اور وہ قیمتی نسخہ لکھ کر میرے حوالے کر دیا جس کی اُس نے طویل داستان سنائی تھی۔ میں نے وہ قیمتی نسخہ اپنی جیب میں ڈالا اور اپنے دوست کا شکریہ ادا کرنے کے بعد گھر کی راہ لی۔گھر پہنچ کر مجھے شدت سے پیاس محسوس ہو رہی تھی۔میں نے فوراً اپنی جیب سے پیاس بجھانے والا نسخہ نکالاتاکہ اُس پر عمل کر سکوں۔کاغذ کے اُس ٹکڑے پر خوبصورت انداز میں لکھا ہوا تھا۔۔۔ " ھوالشافی:۔جب بھی پیاس لگے تو حسب ضرورت پانی پی لینے سے انشاء اﷲ افاقہ ہو گا"
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100731 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.