بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات.... ذمے دار کون؟

 ہفتہ اوراتوار کی درمیانی شب سندھ کے علاقے پنو عاقل کے قریب قومی شاہراہ پر ہولناک ٹریفک حادثے میں ایک بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی خبر سے ہر درد مند پاکستانی کا دل بے چین ہے۔ ٹریفک کے اس حادثے میں 42 مسافر جاں بحق اور30 سے زاید شدید زخمی ہوئے۔ ٹریفک حادثے کی نذر ہونے والوں میں 12 بچے اور 13 خواتین بھی شامل ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ قومی شاہراہ پر ڈرائیور کی غلطی اور تیز رفتاری کے باعث ڈیرہ غازی خان سے کر اچی جا نے والی مسافر بس اوور ٹیکنگ کے دوران آگے جانے والے ٹرالر میں جا گھسی، جس سے بس کی باڈی مکمل طور پر پچک جانے سے مسافر پھنس کر رہ گئے اور انتظامیہ کے بر وقت نہ پہنچنے پر بس میں پھنسے مسافروں کو با ہر نکالنے اور ہسپتال پہنچانے میں کافی مشکلا ت کا سامنا رہا اور کئی زخمی تڑپ تڑپ کردم تو ڑ گئے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق قومی شاہراہ کا یہ حصہ گھوٹکی سے سکھر تک زیر تعمیر ہے، جس کی وجہ سے تمام گاڑیوں کو کئی مقامات پر سنگل سڑک پر چلنا پڑتا ہے۔

پاکستان بھر میں دن بدن ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح باعث تشویش ہے، جس کی بدولت لاتعداد قیمتی جانیں تسلسل کے ساتھ لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں اوسطاً 15 سے 30 افراد روزانہ ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر اپنی قیمتی جانیں گنواتے ہیں اور متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ ہونے والے ٹریفک حادثات کی تعداد اندازاً تین لاکھ بتائی جاتی ہے، جن میں سالانہ 13ہزار افراد موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پچاس ہزار سے زاید زخمی ہوجاتے ہیں۔ آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک کے بڑے بڑے حادثات پیش آتے رہتے ہیں، جن میں بیک وقت دسیوں، بیسیوں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ 2010ءسے لے کر اب تک پاکستان میں چند بڑے ٹریفک حادثات میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو ئے ہیں۔ 16 اپریل2010ءکو ہرموش چوٹی کے قریب مسافر بس دریا میں گرنے سے 12 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہوئے۔ 23 جنوری 2011ءکو ایک بس آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں 32 افراد زندہ جل گئے اور 9 شدید زخمی ہوئے۔ جون 2011ءمیں ایک نجی اسکول کی وین نہر میں گرنے سے 12 بچے جاں بحق ہوئے۔ ستمبر2011ءمیں کلرکہار میں ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اسکول کے 35 بچے جان کی بازی ہار گئے اور سو کے قریب بچے زخمی بھی ہوئے تھے۔ 3 مئی 2012ءکو بس حادثے میں 17 افراد جاں بحق ہوئے اور 14 زخمی ہو گئے۔ 16 مارچ 2013ءکو کوہستان ڈسٹرکٹ میں ایک بس کھائی میں گرنے سے 24 سپاہی جاں بحق اور 5 زخمی ہو ئے۔ اسی ماہ 23 مارچ کو بس اور ٹرک کے تصادم میں 25 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 26 مارچ کو بس اور ٹرالر کے تصادم کے نتیجے میں 7 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سے اگلے روز 27 مارچ کو بس حادثہ میں 12 افراد زندگی سے محروم ہو گئے۔ 5 اپریل 2013 ءکو بس اور کار کی ٹکر سے 5 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 7 زخمی ہوئے۔ جون 2013ءمیں ایک مسافر بس دریائے نیلم میں جا گری، جس کے نتیجے میں 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ 8 نومبر 2013ءکو بس کے ایک حادثے میں 5 افراد کی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے۔ 8 جنوری کو مری میں دو بسوں کے کھائی میں گرنے کے باعث دس افراد جاں بحق ہوگئے تھے، جبکہ اس حادثے میں 23 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ 15 جنوری 2014ءکو صوبہ سندھ میں اسکول وین سے ایک ٹرک ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں 18 طالب علموں سمیت 3 اساتذہ بھی ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس حادثے میں 11 طالبعلم زخمی بھی ہوئے۔ 22 مارچ 2014 ءکو حب میں بس اور ٹینکر میں تصادم سے 25 افراد جان سے گئے اور 20 اپریل کو پنو عاقل کے قریب ہونے والے حادثے میں 42 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 30 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ایک لاکھ گاڑیاں سڑک پر ہےں تو ان میں سے 2300 گاڑیاں ٹریفک حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ٹریفک حادثات روکنے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی واضح اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں اور ٹریفک حادثات میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کا پیش آنا معمول کی بات ہے۔ ان کی عمومی وجوہات مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، ٹریفک قوانین سے لاعلمی اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا بتائی جاتی ہیں۔ ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے کا چلن بھی حادثات میں بے پناہ اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اول تو نجی بس یا ٹینکر سروس کے ڈرائیور اپنی طویل ڈیوٹی کے اوقات جو بعض اوقات سولہ یا اٹھارہ گھنٹے بھی ہوتے ہیں، تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور بہت سے ڈرائیور نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان اپنی مالی بچت کی خاطر دو ڈرائیوروں کی جگہ ایک ڈرائیور سے کام لیتے ہیں۔ ڈرائیور حضرات کی اکثریت ان پڑھ افراد پر مشتمل ہوتی ہے، ٹریفک قوانین سے عدم آگاہی بھی حادثات کا بنیادی سبب ہے، اگر ڈرائیور حضرات کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے ہوں تو حادثات میں نمایاں حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں چلنے والی گاڑیاں فٹنس کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں، متعلقہ محکمہ ناکارہ گاڑیوں کو رشوت کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کردیتا ہے۔ گاڑیوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر پھٹنے کے باعث حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ڈرائیور حضرات کا اوور اسپیڈنگ اور اوور ٹیکنگ کا شوق بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ روڈ ٹریفک حادثے میں مختلف عناصر ملوث ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثہ یا تو ڈرائیور کی غلطی، گاڑی کی خرابی، روڈ کی تعمیرمیں کمی و کوتاہی یا پھر سڑک کو استعمال کرنے والے کی غلطی سے وقوع پذیر ہوتا ہے، لیکن ہم ٹریفک حادثے کو اس انداز میں لیتے ہیں، جیسے اس نے ہونا ہی تھا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک موٹر سائیکل سوار جس کی موٹر بائیک کی اسپیڈ 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار ہو اور وہ بیچ سڑک موبائل فون نکال کر سننا شروع کر دے تو یقینا یا تو اس کی بائیک سامنے کسی تیز رفتار گاڑی سے ٹکرائے گی یا پھر وہ پیچھے سے آنے والی گاڑی کا شکارہوگا۔ اگر کوئی بس ڈرائیور بس چلانے کے دوران حد سے زیادہ اسپیڈ کرے گا یا وہ نشے میں ہوگا یا روڈ ٹوٹا ہوا ہوگا تو، پھر بھی حادثے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جب تک بحثیت قوم ہم سب ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کریں گے تو اس وقت تک کیسے ان سانحات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں روڈ اینڈ سیفٹی کا قانون صرف لکھا ہوا موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد شاذ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ ہر ٹریفک حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے تحقیقات کے آرڈر جاری کیے جاتے ہیں اور ٹریفک حادثات پر قابو پانے کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہیں کیا جاتا اور کچھ روز بعد کوئی اور بڑا حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدر آمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں، بلکہ عوامی شعور کی بیدار ی کے لیے مختلف ادارے بھی قائم ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی ترقی میں انسانی شعور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پربھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ملک میں ٹریفک نظام کے مسائل سے ہر خاص و عام پریشان ہے۔ ڈرائیور حضرات قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکثر اوقات اشارے بھی توڑ دیتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار اور حادثوں کے مشاہدات اس بات کے غماز ہیں کہ ٹریفک کے زیادہ تر حادثات حد سے زیادہ رفتار اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔

ملک میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی ہرشہری پرلازم ہے۔ پورے ملک میں ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے، جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہو سکے۔ ایسے اداروں سے تربیت کے بعد ہی ڈرائیور حضرات کو باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کو ہی کنڈیکٹر اور ڈرائیور رکھا جائے، بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زاید مسافروں کو سوار کرنے پر پابندی عاید کی جائے۔ فنی طور پر ناقص اور خستہ حال گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جائے۔ کم عمر افراد کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگرحکومت چاہتی ہے کہ ملک میں ٹریفک حادثات کنٹرول ہوجائیں تو اس حوالے سے سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ٹریفک حادثات کا معاملہ صرف پاکستان کا نہیں، ساری دنیا کا ہے، دنیا کے دوسرے ممالک ان حادثات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 13لاکھ افراد ان ٹریفک حادثات کی نذر ہوتے ہیں، جبکہ 5 کروڑ لوگ زخمی یا پھر معذور ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے دسویں بڑی وجہ ٹریفک حادثہ ہی ہے اور ان ٹریفک حادثات کی وجہ سے سالانہ دنیا بھر میں 518 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور ہر ملک کے جی ڈی پی پراس کا اثر 1سے 3 فیصد پڑتاہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کے مطابق تقریباً 46 فیصد جوان افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹریفک حادثات کی وجوہات پر غور کرکے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پاکستان کو بھی چاہیے ٹریفک حادثات کی وجوہات معلوم کرکے ترجیحی بنیادوں پر انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.